سٹاک ہوم دھماکے، برطانوی پولیس کا چھاپہ

سٹاک ہوم دھماکے، برطانوی پولیس کا چھاپہ
stockholm-blastسٹاک ہوم(بى بى سى) برطانوی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے سویڈن میں سنیچر کی شام ہونے والے بم حملوں کے سلسلے میں بیڈفورڈ شائر میں ایک مکان کی تلاشی لی ہے۔

لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق افسران نے اتوار کی شب گیارہ بجے تلاشی کا عمل شروع کیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’افسران نے دہشتگردی ایکٹ سنہ 2000 کے تحت بیڈفورڈ شائر کے ایک گھر کی تلاشی لی تاہم اس دوران کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی‘۔انہوں نے کہا کہ ’ہم تصدیق کر رہے ہیں کہ یہ عمل سٹاک ہوم میں سنیچر کو پیش آنے والے واقعے کے تناظر میں تھا‘۔
خیال رہے کہ سویڈن میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ دارالحکومت سٹاک ہوم میں ہونے والے دو بم دھماکوں کی تفتیش ’دہشت گردی کی کارروائی‘ کے طور پر کر رہے ہیں۔ ان دو دھماکوں میں ایک شخص ہلاک اور دو زخمی ہوگئے تھے۔
سویڈش پولیس کے مطابق یہ دھماکے شہر کے مرکز میں واقع ایک پرہجوم بازار کے نزدیک ہوئے جہاں کرسمس کے سلسلے میں خریداری کرنے والے لوگ جمع تھے۔ پولیس کے ترجمان الف جوہانسن کا کہنا ہے کہ ڈروٹننگٹن سٹریٹ پر ایک کار میں دھماکہ ہوا اور دوسرا دھماکہ کچھ دیر بعد اسی سڑک پر کچھ فاصلے پر سنا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق وہ بم دھماکوں کی ’ دہشت گرد کارروائی‘ کے طور پر تفتیش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے کارآمد معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ سویڈن کی سکیورٹی سروس کے ترجمان نے بم دھماکوں کو بہت سنگین قرار دیا ہے لیکن اس حوالے سے انھوں نے بہت کم معلومات فراہم کی ہیں۔
پولیس افسر اینڈرس ٹورنبرگ کا کہنا ہے کہ’ سویڈن کے قوانین کے تحت ہم اس کی ’دہشتگردی کی کارروائی‘ کے طور پر تحقیقات کر رہے ہیں، ہم تاحال اس کیس کی تفتیش کر رہے ہیں اور ایسی صورتحال میں سکیورٹی خطرے کا لیول بڑھایا نہیں گیا ہے۔‘
سویڈش پولیس نے دھماکے میں مرنے والے شخص کا نام ظاہر نہیں کیا ہے تاہم پولیس کے ڈائریکٹر آپریشنز آندریس تھارنبرگ کے مطابق اب وہ جانتے ہیں کہ مرنے والا کون تھا۔ ان کے مطابق ’جہاں تک مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ تنہا ہی کام کر رہا تھا لیکن ابھی تک ہمیں اس بارے میں مکمل یقین نہیں ہم اور اس بارے میں مکمل یقین کرنا چاہتے ہیں‘۔
سویڈش ذرائع ابلاغ نے مرنے والے شخص کو اٹھائیس سالہ عراقی قرار دیا ہے۔ بی بی سی کے سکیورٹی امور کے نامہ نگار گورڈن کریرا کا کہنا ہے کہ سویڈش حکام کے پاس اس شخص کا نام ہے جس کے نام پر وہ کار رجسٹرڈ تھی جس میں دھماکہ ہوا اور ایک اسلامی انتہا پسند ویب سائٹ نے اسی نام کے شخص کو حملہ آور قرار دیا ہے۔
نامہ نگاروں کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ عراق سے تعلق رکھنے والا یہ شخص گزشتہ تین برس سے برطانیہ میں مقیم اور لوٹن میں زیرِ تعلیم تھا۔
سویڈن کے ذرائع ابلاغ نے خودکش حملہ آور کو دوسرے حملے کا ذمہ دار قرار دیا ہے لیکن پولیس کے مطابق تاحال یہ واضح نہیں کہ ان دھماکوں کی وجہ کیا تھی۔
پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ جس کار میں دھماکہ ہوا اس میں گیس کے کنستر تھے۔ان کے مطابق ’کار چھوٹے چھوٹے دھماکوں کے بعد پھٹ گئی اور اس جگہ کے قریب ہی کسی قسم کا دھماکہ ہوا جہاں سے ہمیں ایک لاش ملی ہے‘۔ اس سوال پر کہ ہو سکتا ہے کہ مرنے والے آدمی نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا ہو تو اس پر پولیس ترجمان نے کہا کہ ’ یہ ممکن ہے۔‘
سویڈن کے مقامی خبر رساں ادارے ٹی ٹی کا کہنا ہے کہ اسے دھماکوں سے کچھ دیر قبل ایک دھمکی آمیز ای میل ملی ہے جس میں مجاہدین یا اسلامی جنگجووں سے کہا گیا ہے کہ وہ سویڈن اور یورپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
ای میل میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی مانند‘ اب سویڈش عوام کے مرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اس پیغام میں سویڈش فنکار لارس ولکس کی جانب سے بنائے جانے والے پیغمبرِ اسلام کے خاکوں اور افغانستان میں سویڈش فوجوں کی موجودگی کا بھی ذکر ہے۔
سویڈن کے اس وقت افغانستان میں پانچ سو فوجی تعینات ہیں۔ نومبر میں سویڈن کی حکومت نے دہشت گردی کے پیش نظر سکیورٹی سخت کر دی تھی۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں