مولانا عبدالستار کرد کی حیات پر ایک نظر

مولانا عبدالستار کرد کی حیات پر ایک نظر
molana-abdussattarاہل سنت ایران کی نامور شخصیات کا تعارف سلسلہ وار آپ کی خدمت پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس مرتبہ ’’سنی آن لائن‘‘ خدمت وقربانی کے آسمان سے تعلق رکھنے والے ایک اور تابندہ ستارے کی بائیوگرافی قارئین کی خدمت پیش کرتی ہے۔

مولانا عبدالستار کرد رحمہ اللہ کی پیدائش 20 شعبان1356 ھ۔ق (25اکتوبر 1937ء) کو بلوچستان کے معروف شہر ’’خاش‘‘ کی بستی ’’گزک‘‘ میں ہوئی۔ آپ کے والد مکرم ’’ہیبت‘‘ انتہائی سادہ زیست اور دیندار آدمی تھے، اپنے قبیلے میں دیانتداری اور راست گوئی میں معروف تھے۔ مرحوم ہیبت اپنی اولاد کو کاشتاری اور مال مویشی پالنے سے حلال روزی دیتے تھے۔

تعلیم وطلب علم
مولانا عبدالستار مرحوم نے 1941ء کو ’’سنگان‘‘ نامی علاقے کے پرائمری اسکول میں داخلہ لیا اور پانچویں جماعت تک اسی اسکول میں زیر تعلیم رہے۔ اسکول کی تعلیم کے دوران آپ (رح) پابندی سے مولانا محمد عیسی شہنوازی کی مجالس میں بیٹھ کر استفادہ کرتے تھے۔ مولانا محمد عیسی ایرانی بلوچستان کے نامور وممتاز عالم دین تھے جنہوں نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی تھی، مولانا عبدالستار نے علوم دینیہ کی ابتدائی کتب اور قرائت وتجوید آپ ہی سے پڑھیں۔
مولانا محمد عیسی کی صحبت نے آپ پر بڑا اثر رکھا، چنانچہ آپ نے دینی تعلیم حاصل کرنے کا عزم لیکر ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1947ء کو ’’نوکنڈی‘‘ کا رخ کیا جو پاکستانی بلوچستان کے شمال میں واقع ہے۔ یہاں آپ (رح) نے وقت کے جید علماء سے استفادہ کیا جن میں مولانا عبدالحمید نوتیزئی سرفہرست ہیں جو مختلف اسلامی علوم خاص کر فقہ میں مہارت رکھتے تھے۔
سخت مشکلات اور سہولتوں کے فقدان کے باوجود آپ نے تعلیم جاری رکھی اور 1953ء کو صوبہ سندھ کے مشہور دینی ادارہ، دارالہدیٰ خیرپور جاپہنچے جہاں 1384ھ۔ق (1964ء) میں آپ نے درس نظامی سے فراغت حاصل کی۔ سندھ میں دوران تعلیم آپ (رح) نے مختلف علمی شخصیات سے استفادہ کرکے علم دوستی کا ثبوت دیا۔ آپ نے تفسیر قرآن، میراث ودیگر فنون کے حصول کے لیے مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا غلام اللہ خان اور شیخ التفسیر مولانا عبدالغنی جاجروی رحمہم اللہ جیسی عظیم ہستیوں کے سامنے زانوئے تلمذ لگایا۔ اس کے بعد علم کے خزانوں سے بہرہ مند ہوکر واپس ایران تشریف لے آئے۔
وطن واپس آنے کے بعد مولانا عبدالستار ایک سال تک ’’سنگان‘‘ میں مقیم رہے جہاں آپ نے دعوت الی اللہ، برائیوں سے مقابلہ، قبائلی وخاندانی تنازعات کے تصفیے سے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی، مقامی لوگوں سے دوستانہ تعلقات قائم کرکے انہیں شرعی علوم سے آگاہ کرتے رہے اور باجماعت نماز کے لیے ایک جگہ مختص کردیا۔ مولانا عبدالستار کرد خطے کے ممتاز علمائے کرام مثلاً مولانا عبدالعزیز ملازادہ، مولانا شہداد سراوانی، مولانا تاج محمد اور مولانا محمد یوسف حسین پورسے رابطے میں رہتے تھے۔
آپ کی کوشش تھی اپنی دینی، ثقافتی اور سیاسی خدمات کو خطے کے سرکردہ علمائے کرام کی مشورت وہم آہنگی سے آگے بڑھائیں تا کہ ان کی سرگرمیوں میں تسلسل اور یکسوئی قائم رہے۔

’’خاش‘‘ میں قیام
جس وقت مولانا عبدالستار کرد رحمہ اللہ ’’خاش‘‘ کے مضافتی علاقے میں قیام پذیر تھے خاش شہر میں بعض کم علم افراد عوام کے شرعی مسائل اور تنازعات کے تصفیے کررہے تھے جو بعض اوقات غلط فیصلے بھی کرتے تھے جس سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتاتھا۔ چنانچہ خاش کے بعض عمائدین اور قبائلی رہ نماؤں نے مولانا عبدالستار سے درخواست کی کہ وہ خاش آکر ان کی دینی قیادت قبول کریں، مولانا عبدالعزیز ملازادہ رحمہ اللہ نے بھی ان کو یہی مشورہ دیا۔ آپ نے عوام کے ارشاد واصلاح کے غرض سے خاش کے قریب ’’قاسم آباد‘‘ میں قیام فرمایا پھر 6 سالوں کے بعد شہر کے اندرہی تشریف لے آئے اور موت تک وہیں عوام کی رہ نمائی کرتے رہے۔

آپ کی صفات وسرگرمیاں
مولانا عبدالستار کرد رحمہ اللہ اچھی عادات اور اعلیٰ اخلاقی خصوصیات کے حامل عالم دین تھے۔ مولانا نظر محمد دیدگاہ آپ کی کمالات وصفات کے بارے میں کہتے ہیں: ’’اچھے اخلاق کے حامل علماء کی تعداد بہت ہے، لیکن بیک وقت تمام اچھی صفات کے حامل عالم دین کم ہی ملتے ہیں جن میں مولانا عبدالستار کرد شامل ہیں۔‘‘
مولانا عبدالستار اس قدر متواضع تھے کہ خود کو دنیا میں کم ترین سمجھتے تھے اور ہر کام میں دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔ بعض اوقات معاصر علماء ان کی اس عادت پر تنفید بھی کرتے تھے مگر وہ باز آنے والے نہ تھے۔ بڑائی وتکبر آپ کو چھو کر بھی نہیں گزراتھا۔ آپ اپنی سخاوت وفراخدلی کی وجہ سے اردگرد کے لوگوں میں مثال تھے۔
تنگدستی کے باوجود آپ مہمانوں کو ان کے مقام وشان کے مطابق اکرام فرماتے تھے۔ آپ کی مجلسیں فرحت وسرور کا نمونہ تھیں، آپ دینی معارف واحکام کو انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ بیان فرماتے تھے۔ جو آپ کی مجلس میں بیٹھتا ہرگز تھکاوٹ محسوس نہ کرتا اور ان کے مخصوص اندازِبیان سے لطف اندوز ہوکر حظ محسوس کرتا۔
مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد آپ کے پاس آتے رہتے اور اپنے مسائل کے حل کیلیے آپ سے رجوع کرتے تھے۔ تنقید سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا لیکن آپ رحمہ اللہ صراحت کلام وحق گوئی کے باوجود اپنے اعمال واقوال کا بہت خیال رکھتے تھے تا کہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔
مولانا کی عادت تھی کہ اہل علم کی خبرگیری کرکے حسب استطاعت ان سے تعاون فرماتے تھے، اہل خیر حضرات کے تعاون اکٹھے کرکے علماء کے اہل خانہ پر خرچ کرتے تھے۔ مگر آپ خود سادہ بود وباش کے دلدادہ تھے اور ہرگز جائیداد رکھنے کے درپے نہ ہوئے، یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی ملکیت میں صرف 60ہزار تومان (تقریباً 57ڈالر) تھا۔ مزید برآں آپ بیت المال کے حوالے سے انتہائی حساس تھے اور ذاتی کاموں کے لیے ہرگز مدرسے کی گاڑی استعمال نہیں کرتے تھے۔

آپ کی فقاہت، قضاوت اور خطابت
مولانا عبدالستار کرد رحمہ اللہ کو فقہ میں غیر معمولی مہارت حاصل تھی، اس کے باوجود آپ تواضعاً کم ہی فتوا دیتے تھے اور اکثر سائلین کو دیگر علماء کے پاس بھیج دیتے تھے۔ فتوا دیتے ہوئے یاشرعی فیصلہ کے وقت آپ شریعت کا حکم سنانے پر اکتفا کے بجائے نصیحت ورہنمائی سے بھی کام لیتے تھے۔ فیصلہ سنانے سے پہلے طرفین کو شرعی حکم قبول کرنے کی نصیحت فرماتے تھے۔ چنانچہ فیصلے کے بعد دونوں پارٹی راضی وخوش مجلس قضا سے اٹھتے تھے اور آپ کے فیصلے پر رضامند تھے۔
جب ایک پارٹی کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا تو دوسرے فریق کو گذشت اور جوانمردی کی ترغیب دیتے تھے تا کہ اپنے حق کا کچھ حصہ متضرر فریق کو بخش دے، ان کی سفارش اکثر قبول کی جاتی تھی۔ اسی وجہ سے آپ (رح) تمام لوگوں کے دلوں میں مقبول ومحبوب تھے اور سب تنازعات کے تصفیے کیلیے آپ ہی کے پاس آتے تھے۔
اس کے علاوہ آپ زبردست خطیب تھے اور مشکل سے مشکل مسائل کو بہت ہی آسان اسلوب میں سمجھاتے تھے۔
آپ (رح) علماء کو نصیحت کرتے تھے کہ حق کڑوا ہے، آپ اسے میٹھا بنا کر لوگوں کے منہ میں ڈالیں۔

اتحاد ویکجہتی کے لیے کاوش
خاش کے ممتاز عالم دین مولانا کرد رحمہ اللہ کی پوری زندگی عوام کے مختلف طبقوں کو متحد رکھنے اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں گزری۔ عوام کی مشکلات کو متعلقہ حکام تک پہنچانے کا کام آپ ہی کرتے تھے۔ آپ علماء کی صلاحتیوں کو مرکزیت دینے کے لیے کوشش کرتے تھے، اس لیے ’’مخزن العلوم‘‘ کی بنیاد رکھ کر آپ نے تمام علماء کو یہاں آنے کی دعوت دی۔ جب انہیں نئے مدرسے کی تاسیس کا مشورہ دیا جاتا تو آپ فرماتے ’’نئے مدرسے کے بجائے آپ موجود مدرسہ کو تقویت کریں‘‘۔ مرحوم مولانا عبدالستار نے اپنی بابرکت عمر کے آخری ایام میں خاش کے تمام مسلمان عوام کو عیدین وجمعہ ایک ہی مقام پر پڑھنے کے لیے کوششیں تیز کردیں اور اکثر خطباء وائمہ کو راضی کرنے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن ان کی خواہش پوری ہونے سے پہلے ان کی زندگی کے ایام پورے ہوئے۔

’’مخزن العلوم‘‘ کا سنگ بنیاد
1392ھ۔ق (1972ء) میں مولانا عبدالعزیز ملازادہ (سابق خطیب اہل سنت زاہدان ودینی پیشوا) کے مشورے پر مولانا عبدالستار کرد نے خاش شہر میں ایک دینی ادارے کی تاسیس کا عزم کیا اس مقصد کے لیے متعدد اہل خیر حضرات نے اپنی زمینوں کو پیش کردیا، قرعہ اندازی و مشورت کے بعد مدرسے کا سنگ بنیاد ڈالا گیا اور فوراً درس گاہ وآرام کے کمروں کی تعمیر کا کام مکمل ہوا۔ مولانا عبدالستار نے متعدد علماء کو اپنی خدمات اس مدرسے میں پیش کرنے کی دعوت دی۔ مدرسے کے اولین اساتذہ مولانا عبدالرحمن شہنوازی، مولانا درمحمد روحانی اور مولانا محمد ریکی متعین ہوئے۔ مولانا کرد نے ’’مخزن العلوم‘‘ کے ظاہری وباطنی ترقی کے لیے دن رات ایک کردیے۔ کچھ عرصے کے بعد مدرسے کے ساتھ ایک شاندار جامع مسجد بھی تعمیر کی گئی۔ مولانا کے انتقال کے بعد مولانا یار محمد مدرسے کے سرپرست اور مولانا محمدگل ’’مفتی‘‘ متعین ہوئے۔ مولانا یارمحمد انتہائی مخلص اور محنتی عالم دین تھے۔ آپ کے دور اہتمام میں بنات کے لیے مدرسہ خدیجہ الکبری کی تاسیس 1398ھ۔ق (1978ء) میں ہوئی جو مخزن العلوم کی شاخ ہے۔ مولانا یارمحمد کے انتقال کے بعد مولانا محمدگل مہتمم مقرر ہوئے جنہوں نے مدرسے کی ترقی وآبادی کے لیے کافی محنت کی تھی۔ آپ نے شعبہ دارالتحفیظ کا اضافہ کیا۔ عوام کے مسائل کے حل کے لیے شعبہ دارالافتاء بھی قائم کیا جاچکا ہے جس میں نوجوان علماء بیٹھ کر عوام کے شرعی سوالوں کو جواب دیتے ہیں۔ مخزن العلوم کے طلبہ وطالبات کی تعداد سات سو سے اوپر ہے جبکہ ملازمین کی تعداد چالیس کے لگ بھگ ہے۔

سانحہ وفات
کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ مولانا عبدالستار کرد کا سانحہ انتقال اس قدر اچانک رونما ہوتاہے۔ آپ کے وجود سے لوگوں نے بہت ساری امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں لیکن اللہ تعالی کو کچھ اورہی منظور تھا۔
آپ کے دست مبارک پر عجیب قسم کی بیماری کے آثار نمودار ہوئے۔ آپ نے علاج معالجے کی بہت کوشش کی۔ ڈاکٹروں سے مشاورت کے بعد بالاخر تہران کے ’’مسیح دانشوری‘‘ ہسپتال میں آپریشن کے ذریعے آپ کی کلائی کاٹ دی گئی۔ اس کے بعد آپ روبہ صحت ہوئے لیکن جب آپ تہران چھوڑ رہے تھے اور بظاہر آپ کی طبیعت بالکل ٹھیک تھی اچانک جمعہ کے روز 2ربیع الاول 1415ھ۔ق (1994ء) کو فجر کی نماز کی دوسری رکعت کے دوران آپ اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ (رح) کے جسد خاکی تہران سے خاش منتقل کردیا گیا جہاں خاش کے مضافات میں ’’خسروآباد‘‘ کے قبرستان میں آپ کو دفنا دیا گیا۔ آپ (رح) کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کرکے ان کے عظیم مقام کو سلامی پیش کیا۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ واسکنہ فسیح جناتہ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں