مہمند: دو خودکش دھماکے، چالیس سے زائد ہلاک

مہمند: دو خودکش دھماکے، چالیس سے زائد ہلاک
mohmand-blastاسلام آباد(بى بى سى) پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں حکام کے مطابق پولیٹکل انتظامیہ کے دفتر کے باہر دو خودکش دھماکوں میں چالیس سے زائد افراد ہلاک جبکہ سو کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں۔

مہمند ایجنسی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ دھماکے مہمند ایجنسی کے علاقے غلنئی میں واقع پولیٹیکل انتظامیہ کے دفتر کے باہر ہوئے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ دو حملہ آوروں میں سے ایک نے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر کے باہر اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا ہے جبکہ دوسرے کو سکیورٹی اہلکاروں نے گیٹ پر روکا جہاں اس نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا۔
ہمارے نامہ نگار عزیز اللہ خان نے بتایا کہ پولیٹیکل ایجنٹ مہمند ایجنسی امجد علی خان نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں حملہ آوروں نے خاصہ داروں کی یونیفارم پہنی ہوئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مرتبہ بارودی مواد کے ساتھ چھروں کی بجائے گولیاں ڈالی گئی تھیں اور یہ گولی جس کو لگی ہے وہ موقع پر ہلاک ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ حملہ دوپہر دو بجے کیا گیا ہے اور اس وقت مقامی قبائل کا ایک جرگہ ہو رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں روایات کے مطابق ہر ایک کی جامہ تلاشی لینا مشکل کام ہے ۔
مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں دو صحافی اور دو قبائلی رہنما شامل ہیں جبکہ ایک اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ زخمی ہوئے ہیں۔
دریں اثنا تحریک طالبان پاکستان کے مہمند ایجنسی کے سربراہ عمر خالد نے نامعلوم مقام سے ٹیلیفون پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ یہ کارروائی چند ماہ پہلے ان کے عرب ساتھیوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے آپریشن اور ان کی گرفتاری کے خلاف کی گئی ہے۔
یاد رہے چند روز پہلے مہمند ایجنسی کی تحصیل صافی میں سکیورٹی فورسز پر حملے کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے حملے جاری رہیں گے۔
دھماکے کے فوری بعد ایک سرکاری افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے بیس سے پچیس افراد کو گرے ہوئے دیکھا لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ لوگ ہلاک ہو گئے تھے یا زخمی۔
مقامی لوگوں نے کہا کہ پہلے دھماکے میں اتنا نقصان نہیں ہوا لیکن دوسرے دھماکے میں نقصان زیادہ ہوا کیونکہ اس وقت بھگدڑ مچی ہوئی تھی اور لوگ گیٹ کی طرف ہی بھاگ رہے تھے ۔
دھماکے میں زخمی ہونے والے کوئی تیس افراد کو پشاور میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال لایا گیا ہے۔ صوبہ خیبر پختوخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے ہسپتال کے دورے کے دوران صحافیوں سے ات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں لیکن جب تک افغانستان میں نیٹو اور افغان فوسرز دت پسندوں کا خاتمہ ہ کردین اور یہاں پاکستان ان شدت پسندوں کا خاتمہ نہ کرے تب تک دہشت گردی تم نہیں ہو سکتی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان اور امریکہ کے درمیان عدم اعتماد کی فضا کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کو روکنا مشکل ہے۔
میاں افتار حسین نے کہا کہ ملک کی بہتر صورتحال کا حل نکالنا ضروری ہے وگرنہ پیشن گوئی یہی ہے کہ یہ سلسلہ چودہ سالوں تک جاری رہے گا اور ان چودہ سالوں میں پھر کیا حال ہوگا اللہ بہترجانا ہے۔
آج صبح کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل آصف یاسین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پچاسی فیصد قبائلی علاقوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ دیگر قبائلی علاقوں کی نسبت ان دنوں مہمند ایجنسی میں حالات زیادہ کشیدہ بتائے گئے ہیں جہاں سکولوں اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کی اطلاعات آئے روز موصول ہوتی رہتی ہیں۔
یاد رہے اس سال اگست کے مہینے میں ایک خود کش دھماکے میں ایک سو کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں