وکی لیکس کے بانی 188 ملکوں کی پولیس کومطلوب

وکی لیکس کے بانی 188 ملکوں کی پولیس کومطلوب
assangeلندن(بى بى سى) وکی لیکس کے بانی جولین اسانش کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ہمیشہ سے شکی اور خبطی ہیں۔ان کے متعلق اس طرح کے خیالات اس سے پہلے بھی تھے جب وہ اتنے مطلوب نہیں تھے۔

امریکہ میں حکومت کے وکلاء جاسوسی کے الزام میں اسانش پر مقدمہ چلانے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔جبکہ یورپی یونین انہیں سویڈن میں جنسی زیادتی کے ایک معاملے میں پوچھ گچھ کرنے کے لیے تلاش کر رہی ہے۔
جاسوسی ایکٹ کے تحت ان پر مقدمہ چلانے میں امریکی آئین کی پہلی ترمیم ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے جو آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کی ضمانت دیتی ہے۔تاہم ایسو سی ایٹڈ پریس نے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسانش پر سرکاری املاک چرانے کا مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے۔افغانستان کے بارے میں دستاویز جاری کرنے کے بعد اسانش سویڈن گئے تھے جہاں انہوں نے رہائش اور کام کرنے کے ویزہ کے لیے درخواست دی تھی۔
سویڈن میں انہیں دو خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام کا سامنا کرنا پڑا جو اب ان کی آزادی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔اسانش اس الزام کی تردید کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے دونوں خواتین کی مرضی سے ہی ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا تھا۔
ان الزامات کے بعد سویڈن نے ان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
منگل کو انٹرپول نے ریڈ نوٹس جاری کر دیا ہے اور افغانستان سے لیکر زمبابوے تک 188 ملکوں کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ اسانش سویڈن کی پولیس کو مطلوب ہیں۔ حال ہی میں ایکواڈور کے نائب وزیرِ خارجہ نے اسانش کو پناہ دینے کی بات کی تھی لیکن ملک کے وزیرِ اعظم نے اس پیشکش کو فوراً مسترد کر دیا.
اسانش آسٹریلیا میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے پاس آسٹریلوی پاسپورٹ ہے لیکن یہ ان کے لیے محفوظ مقام نظر نہیں آتا۔ آسٹریلیا کی طرح آئس لینڈ اور سوئٹزر لینڈ بھی انٹر پول کے رکن ہیں اور امریکہ کے ساتھ ان کا حوالگی کا معاہدہ بھی ہے۔اب اسناش کسی بھی ملک کا رخ کریں وہاں تک پہنچنا ان کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔
آخری مرتبہ انہیں لندن میں دیکھا گیا تھا اور خیال ہے کہ وہ اب بھی لندن میں ہیں لیکن مسلسل جگہ بدلتے رہتے ہیں۔اگر اسانش کبھی لوگوں کے سامنے آئے تو برطانوی پولیس انہیں سویڈن حکام کی جانب سے جاری ہونے والے وارنٹ کے تحت گرفتار کر کے انہیں سویڈن کے حوالے کر دیگی۔ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا پولیس ان کی تلاش میں نکلی ہے یا نہیں۔
برطانیہ کی سیریس آرگنائزڈ کرائم ایجنسی ( منظم کرائم کی تحقیقاتی ایجنسی) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر اسانش ابھی تک برطانیہ میں ہیں اور منظرِ عام پر نہیں آتے تو ہو سکتا ہے کہ وہ گرفتاری سے بچ بھی جائیں لیکن جب ان کا چھ ماہ کا ویزہ ختم ہو جائے گا توان کے لیے مسائل پیدا ہونگے۔
روزنامہ نیو یارک ٹائمز کے نامہ نگار جان ایف برنز نے اکتوبر میں اسانش کا انٹرویو کیا تھا ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنا موبائل ایسے تبدیل کرتے ہیں جیسے کوئی ہر روز اپنی شرٹ تبدیل کرتا ہو، کریڈٹ کارڈ کے بجائے نقد رقم رکھتے ہیں، دوستوں کے ساتھ یا پھر ہوٹل میں جعلی نام سے رہتے ہیں۔
جب نامہ نگار نے لندن کے ایک ریستوراں میں اسانش سے ملاقات کی تو اسانش خوف کے سبب بہت دھیمے بات کر رہے تھے تاکہ کوئی انہیں سن نہ لے۔
نامہ نگار جان ایف برنز نے بی بی سی کو بتایا کہ حالانکہ اس وقت تک وہ مطلوب بھی نہیں تھے پھر بھی ان کا رویہ اس قدر مشکوک تھا کہ ایک معمولی اور سیدھا سا سوال سن کر وہ ایسے دیکھ رہے تھے کہ جیسے پوچھ رہے ہوں کہ آپ یہ کیوں جاننا چاہتے ہیں۔
اپریل میں اسانش نے واشنگٹن میں نیشنل پریس کلب میں ایک ویڈیو بھی دکھائی تھی جس میں 2007 میں بغداد میں ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر سے بارہ عراقیوں کو ہلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا جن میں رائٹرز کے دو صحافی بھی شامل تھے۔
جولائی میں ان کے لیے حالات اس وقت غیر محفوظ ہونے شروع ہو ئے جب وکی لیکس نے افغانستان کی جنگ پر 77 ہزار امریکی فوجی دستاویز شائع کیے۔اور اس کے بعد اکتوبر میں عراق جنگ پر چار لاکھ خفیہ دستاویز جاری کیے گئے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں