’سنی آن لائن‘ کا تاجک طلبہ کے وطن بلاوے کے بارے میں مولانا عبدالحمید سے خصوصی گفتگو

’سنی آن لائن‘ کا تاجک طلبہ کے وطن بلاوے کے بارے میں مولانا عبدالحمید سے خصوصی گفتگو
shaikh-abdolhameed-interviewنوٹ: کچھ عرصہ قبل تاجکستانی حکومت نے باہر ملکوں میں زیرتعلیم طلبہ کو واپس تاجکستان آنے کا حکم دیا۔ دیگر مسلم ممالک کے علاوہ ایران کے صوبہ سیستان وبلوچستان کے دینی مدارس میں زیر تعلیم تاجک طلبہ کی بھی بڑی تعداد اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہوئی، ان تشنگانِ علم کو حال ہی میں ایران سے ڈی پورٹ کردیا گیا۔ اسی حوالے سے ’’سنی آن لائن‘‘ نے اتحاد مدارس دینیہ اہل سنت سیستان وبلوچستان کے سربراہ شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید سے گفتگو کرتے ہوئے مسئلے کے مختلف پہلووں کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس انٹرویو کامتن پیش خدمت ہے۔

سنی آن لائن: سیستان وبلوچستان کے دینی مدارس میں تاجک طلبہ کے تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں قارئین کو آگاہ کردیجیے۔

مولانا عبدالحمید: سابق سوویت یونین کے قبضے میں متعدد اسلامی ممالک تھے۔ ان ملکوں کے لاچار مسلمان ستر برس تک اپنے ابتدائی دینی وسیاسی حقوق سے محروم رکھے گئے تھے، قابض ریاست نے مسلمانوں کو ان کے عقائد ومقدسات سے بیگانہ کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ جب کئی عشروں کے بعد مقبوضہ مسلم ریاستیں آزاد ہوگئیں تو لوگوں نے اپنے بچوں کو دینی علوم کے حصول کے لیے بعض اسلامی ملکوں کی جانب روانہ کردیا۔ متعدد تاجک نوجوانوں نے ایران کا انتخاب کیا خاص طور پر ایرانی بلوچستان اور زاہدان کے مدارس میں تاجک طلبہ کی بڑی تعداد نے داخلہ لیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی اور مسلکی لحاظ سے تاجک اور بلوچ ’’سنی حنفی‘‘ ہیں اور وہ بلوچستان کے دینی مدارس میں اپنے ہی مسلک اور فقہ کی تعلیم بآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ اصحاب مدارس نے بھی کھلے دل سے ان کا استقبال کیا چونکہ تاجک عوام قابض کمیونسٹ ریاست سے آزادی حاصل کرچکے تھے اور ہر جہت سے ہمدردی وتعاون کے مستحق تھے۔

سنی آن لائن: سیستان وبلوچستان کے مدارس سے دسیوں تاجک طلبہ کو نکالا گیا؛ آپ کے خیال میں بیک وقت تمام طلبہ کو ڈی پورٹ کرنے اور پھر ان کی وطن واپسی پر اصرار کرنے کی وجہ کیا ہے؟

مولانا عبدالحمید: جب سے تاجکستانی طلبہ اس صوبے میں آئیں تو انہوں نے ہرگز حکومت یا عوام کیخلاف کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا۔ یہ طلبہ انتہائی صابر اور بے ضرر لوگ ہیں۔ ایرانی اساتذہ وطلبہ بھی ان سے راضی ہیں اور ان کی مہمان نوازی کرتے چلے آرہے ہیں۔
گزشتہ برس سے ایرانی حکام نے دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ سیستان وبلوچستان میں زیر تعلیم تاجکستانی طلبہ چونکہ بغیر تعلیمی ویزا کے یہاں رہائش پذیر ہیں اس لیے انہیں اخراج کرکے واپس تاجکستان بھیجنا چاہیے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب سے یہ طلبہ یہاں آئے ہیں ہم نے تحریری اور زبانی طور پر نیز وفود بھیج کر اعلی حکام سے رابطہ کردیا ہے تا کہ تاجکستانی طلبہ کو تعلیمی ویزا یا حصول تعلیم کی سرکاری اجازت مل جائے۔
گزشتہ تعلیمی سال کے آغاز میں اصحاب مدارس کو مزید دباؤ میں رکھا گیا۔ لیکن ہمارے مدارس کے ذمہ داروں نے مزاحمت کی اور حکومت سے کہا گیا کہ جس طرح قم کے ’’جامعۃ المصطفی‘‘ اور مشہد و اصفہان اور گرگان میں زیر تعلیم تاجکستانی طلبہ کو تعلیمی ویزا مل چکا ہے اسی طرح ہمارے مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کو دینی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ اسی وجہ سے بعض علمائے کرام کو پسِ دیوار زنداں ڈال دیا گیا۔ ہمارے علماء نے جیل جانے کو جان ودل سے قبول کیا تا کہ زیر تعلیم مہمان طلبہ کی تعلیم پوری ہوجائے۔ یہ طلبہ علم کے حصول کے لیے آئے ہیں، علم کی راہ ان کے لیے بند نہیں ہونی چاہیے۔ تاجکستان کئی عشروں تک مسلم امہ سے دور رہا ہے اور اس کے عوام شرعی علوم کے محتاج ہیں۔
ہماری کوششیں جاری تھیں یہاں تک کہ تاجک حکومت نے فیصلہ کیا نوجوان طلبہ کو تاجکستان واپس بلائے، طلبہ کے گھر والوں پر دباؤ ڈالا گیا۔ چنانچہ تاجک طلبہ ٹولوں کی شکل میں واپس وطن جارہے ہیں۔ ۱۲۰ طلبہ حال ہی میں ہمارے مدارس سے کوچ کرکے تاجکستان چلے گئے، اس سے قبل بھی بعض طلبہ جاچکے ہیں۔

سنی آن لائن: تاجکستان کے صدر نے دعوا کیا ہے کہ باہر ملک کے دینی مدارس تاجکستان میں انتہا پسندی کے فروغ اور طلبہ کو شدت پسند بنانے میں ملوث ہیں، آپ کے خیال میں یہ دعوا کس حد تک منطقی اور درست ہے؟

مولانا عبدالحمید: جو بات ہمارے لیے واضح ہے وہ یہ ہے کہ تاجک حکومت کو غلط معلومات اور رپورٹس پہنچائی گئی ہے کہ بلوچستان کے مدارس میں تشدد اور انتہا پسندی کا رجحان پایا جاتاہے اور ممکن ہے تاجک طلبہ اسی رجحان سے متاثر ہوجائیں! حالانکہ ہم پورے وثوق واطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ حصولِ علوم نبویہ کیلیے بہترین اور سب سے زیادہ مناسب تاجکستانی طلبہ کے لیے سیستان وبلوچستان ہی کے دینی مدارس ہیں، چونکہ مذہبی لحاظ سے ان مدارس کا تعلق اہل سنت اور فقہ حنفی سے ہے، ان کا مزاج اعتدال، افراط و تفریط سے دوری اور قانون کے احترام پر مبنی ہے۔ تشدد سے ان کا کوئی تعلق ہے نہ ہی اب تک ایسا کوئی واقعہ پیش آچکاہے کہ علمائے کرام اور مدارس کے اساتذہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوں یا شدت پسندی پر رضامند ہوں، نہ ہی یہاں کے علماء فرقہ واریت اور اسلامی مسالک وقومیتوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے والے ہیں۔ لیکن دیگر علاقوں میں جہاں تاجک طلبہ زیر تعلیم تھے، کے بارے میں میرے پاس مصدقہ معلومات نہیں ہیں۔

سنی آن لائن: مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوچکا ہے کہ تاجکستانی طلبہ کی بڑی تعداد قم، گرگان، مشہد و دیگر شہروں میں اہل تشیع کے حکومتی مدارس میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں خاص طور پر ’’جامعۃ المصطفی‘‘ میں، کیا وطن واپسی کا حکم ان مدارس کے طلبہ پر بھی لاگو ہے؟

مولانا عبدالحمید: میری معلوم کے مطابق صرف سنی دینی مدارس کے تاجک طلبہ کو ایران سے نکال دیا گیا ہے، شیعہ مدارس میں زیر تعلیم تاجکستانی طلبہ کو یہ آرڈر شامل نہیں ہوچکاہے! یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے۔

سنی آن لائن: اس حوالے سے جمہوریہ تاجکستان کے حکام کو آپ کا پیغام کیا ہے؟

مولانا عبدالحمید: ہماری دلی تمنا رہی ہے کہ تاجکستان جو فاشسٹ کمیونسٹوں کے قبضے سے آزاد ہوچکا ہے دینی ودنیوی لحاظ سے ترقی کرے، اس بارے میں ہم نے سرا اور علانیہ طور پر دعا کی ہے۔ ہماری دوسری دلی خواہش یہ ہے کہ تاجک قوم متحد رہے اور اختلاف وانتشار کا شکار نہ ہو۔ ہم نے اپنے شاگردوں کو بھی تاکید کی ہے کہ تاجکستان کی قومی وحدت واتفاق کے لیے کوشش کریں اور انتشار پھیلانے کا ذریعہ مت بنیں۔ افسوس کی بات ہے کہ تاجک حکام نے بغیر کسی تحقیق کے طلبہ کو تعلیم مکمل کرنے نہیں دیا تا کہ علم کے سرچشموں سے فیض یاب ہوکر یہ طلبہ اپنے ملک واپس چلے جائیں۔ یقیناً ان کی تعلیم سے سوفیصد تاجک قوم کو فائدہ پہنچتا۔ اب تاجک حکام خاص طور پر تاجک صدر سے ہماری درخواست ہے کہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور فیصلہ سے قبل مکمل تحقیق کریں۔
مسٹر امام علی عبدالرحمان، صدر تاجکستان جو بہت سمجھدار اور دانش پسند آدمی ہیں جن کے سر ’’عالمی کانفرنس امام اعظم ابوحنیفہ‘‘ کا سہرا جاتا ہے، کو ہماری خیرخواہانہ نصیحت ہے کہ اپنے ملک میں جمہوری تقاضوں کے پیش نظر آزادی کی صورتحال کو یقینی بنائیں۔ خاص طور مذہبی آزادی سب کو حاصل ہونی چاہیے، جیسا کہ ادائے نماز، مدارس کی تاسیس اور تبلیغ دین کیلیے تاجک مسلمانوں کو آزادی فراہم کریں تا کہ عوام کو دینی لحاظ سے مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے؛ چونکہ ماہرین کا خیال ہے جس ملک میں امتیازی سلوک اور نا انصافی عام ہو، خاص کر دیندار طبقے پر دباؤ ہو اور ان کی آزادی مسلوب ہو تو وہ ملک انتشار اور بدامنی کے بحران سے دوچار ہوجائے گا۔
ہماری دعا ہے تاجکستان مادی ومعنوی میدانوں میں ترقی حاصل کرکے بدامنی واختلاف کے مسائل سے محفوظ رہے۔

سنی آن لائن: اپنا قیمتی وقت ہمیں دینے کے لیے بہت بہت شکریہ


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں