وکی لیکس کے انکشافات :دنیا بھر میں کھلبلی، امریکا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی

وکی لیکس کے انکشافات :دنیا بھر میں کھلبلی، امریکا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی
wikileaksواشنگٹن(خبررساں ادارے) امریکی ویب سائٹ وکی لیکس کے انکشافات نے جہاں دنیا بھر میں کھلبلی مچائی ہے وہیں امریکا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ویب سائٹ کے مالک پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کردیا۔ کینیڈا کے ماتھے پر بھی بل پڑ گئے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان رابرٹ گبس کے مطابق سفارتی دستاویزات کے منظر عام پر آنے سے امریکی سفارت کاروں، انٹیلی جنس اہل کاروں اور دیگر عام افراد کی زندگی خطرے میں پڑسکتی ہے۔انھوں نے اسے لاپرواہی اور خطرناک فعل قرار دیا ہے۔
کانگریس کے رکن پیٹر کنگ نے امریکی اٹارنی جنرل پر زور دیا کہ وکی لیکس کے بانی جولیان آسانج Julian Assangeپر مقدمہ چلایا جائے۔انھوں نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے وکی لیکس کو غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا۔کانگریس کے ارکان کا کہنا تھا کہ یہ نہ صرف اوباما انتظامیہ کے لیے پریشان کن ہے بلکہ پینٹاگون اور انٹیلی جنس کی ناکامی بھی ہے۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ حساس معلومات محفوظ بنانے کے لیے نئے حفاظتی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ادھر کینیڈا کی بھی وکی لیکس پر تیوریاں چڑھ گئی ہیں۔ کینیڈا کے وزیرخارجہ لارنس کینن Lawrence Cannon نے اسے غیر ذمہ دارانہ اور افسوسناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی رپورٹ سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

سعودی شاہ زرداری کو پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں‘ وکی لیکس

وکی لیکس نے امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے دنیا بھر میں اپنے سفارت خانوں کو بھیجنے جانے والے ڈھائی لاکھ سے زیادہ خطوط شائع کردیی، وکی لیکس نے ان خطوط کی کاپیاں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز، برطانوی اخبار گارڈین اور ایک جرمن نشریاتی ادارے کو اپنی ویب سائٹ پر جاری کرنے سے قبل ہی مہیا کر دی تھیں.
وکی لیکس نے امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک ایسی دستاویزبھی شائع کی ہے جس میں سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور عراقی وزیرِ اعظم نوری المالکی پر طنز کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔اسی سال جاری ہونے والی ایک دستاویز میں شاہ عبداللہ نے صدر آصف علی زرداری کو پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔
نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی اس دستاویز کے مطابق سعودی فرمانروا نے صدر زرداری کا حوالا دیتے ہوئے کہا تھا: ’اگر سر ہی گلا سڑا ہو تو اس کا اثر سارے جسم پر پڑتا ہے۔‘
سعودی شاہ نے امریکاسے ایران پرحملہ کرنے کوکہاتھا، شاہ عبداللہ نے امریکاکوایران پرحملہ کرکے جوہری تنصیبات تباہ کرنے کابھی کہا۔خفیہ دستاویزات کی تعداد ڈھائی لاکھ ہے جس میں پاکستان کے حوالے سے 2220خفیہ معلومات شامل ہیں ،جس کے مطابق امریکا نے پاکستان کے ایٹمی پلانٹ سے افزودہ یورینیم چرانے کی کوشش کی ،2007میںامریکا نے پاکستان کو ایٹمی فیول میں کمی کرنے کو کہا ،2009میں پاکستان نے امریکا کو جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا ،دستاویزات میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹر سن کے خطوط بھی شامل ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان جوہری ایندھن میں کمی کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ان دستاویزات کے مطابق اوباما انتظامیہ ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکی کہ کون سے پاکستانیوں پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور کون سے عناصر پر نہیں۔دستاویزات کے مطابق اوباما انتظامیہ القاعدہ کے خلاف پاکستان میں نئے پراعتماد دوستوں کی تلاش میں ہے اس پیغام میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لاہور میں امریکی قونصل خانے کے باہر گھومنے والے رکشہ ڈرائیور کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا وہ اپنے کرائے کا انتظار کر رہا ہے یا قونصل خانے کی طرف جانے والی سڑک کی نگرانی کر رہا ہے۔
دستاویزات کے مطابق گزشتہ برس افغان نائب صدر اپنے دورہ عرب امارات میں 52ملین ڈالر ساتھ لے کر گئے ۔اسی دستاویز میں عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے بارے میں بھی شاہ عبداللہ سے ایسے کی کلمات منسوب کیے گئے ہیں۔ اس دستاویز کے مطابق شاہ عبداللہ نے ایک عراقی اہلکار سے کہا تھا کہ وہ ان سے اور عراق سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن نوری المالکی کے بارے میں ان کے دل میں ایسے کوئی جذبات نہیں ہیں۔
دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ نائن الیون کے حملوں کو تقریباًدس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی امریکا کے باقی دنیا کے ساتھ تعلقات میں دہشت گردی کا سایہ بہت گہرا ہے۔
گزشتہ دسمبر میں جاری کیے جانے والے ایک اور امریکی پیغام میں کہا گیا ہے کہ سعودی باشندے اب بھی القاعدہ کی طرح کی شدت پسند تنظیموں کے سب سے بڑے مالی سرپرست ہیں۔ اسی طرح ایک اور پیغام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خلیجی ریاست قطر کے کردار کو خطے میں بدترین قرار دیا گیا ہے۔پیغام کے مطابق قطر کے خفیہ ادارے معروف شدت پسندوں کے خلاف بھی کارروائی کرنے سے ہچکچاتے ہیں تاکہ ان پر امریکا کا ساتھ دیتے کا الزام نہ لگایا جا سکے اور انہیں نتائج نہ بھگتنے پڑیں۔
وکی لیکس نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ امریکا نے 2008 میں مختلف ملکوں میں اپنے سفارتکاروں کو ایسی خفیہ معلومات جمع کرنے کی ہدایات جاری کیں جن سے سفارتی اور جاسوسی فرائض میں فرق غیر واضح ہوکر رہ گیا۔
امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے دستاویز کے مطابق سفارت کاروں کو بان کی مون سمیت اقوام متحدہ اور دوسرے ملکوں میں اہم شخصیات کے کریڈٹ اور بزنس کارڈز کی تفصیلات جمع کرنی، ان کے اوقات کار اور دوسری ذاتی معلومات جمع کرنے کی بھی ہدایات جاری کی گئیں۔تاہم مشرق وسطیٰ، مشرقی یورپ، لاطینی امریکا اور اقوام متحدہ میں امریکی مشن کو جو پیغامات ارسال کیے گئی، ان میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ امریکی سفارت کاروں نے دوسرے ملکوں کے خفیہ قومی معلومات چرانے کی کوشش کی جو عموماً ملک کی انٹیلیجنس ایجنیسیاں کرتی ہیں۔
افغانستان، الجیریا اور بحرین میں سابق امریکی سفیر رونلڈ ای نومین ایک دستاویز میں یہ شکوہ کرتے ہوئے پائے گئے کہ واشنگٹن ان سے دیگر ملکوں کے بارے میں مسلسل وسیع پیمانے پر معلومات بھیجے کا تقاضا کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ ناقابل فہم ہے کہ مختلف شخصیات کے کریڈٹ کارڈز کے نمبر وغیرہ جمع کرنے کا مطالبہ فارن سروس کے افسران سے کیوں کیا جارہا ہے جن کے پاس اس طرح کی خفیہ معلومات جمع کرنے کی تربیت نہیں ہے۔’سب سے پہلے میری تشویش یہ ہے کہ آیا سفارت کار ذمے دارانہ طریقے سے اور کسی مشکل میں پھنسے بغیر ایسا کرسکیں گے یا نہیں، اور دوسرے یہ کہ ایسا کرنے میں ان کا جو وقت صرف ہوگا اس سے ان کے اپنے معمول کے فرائص انجام دینے میں کتنا حر ج ہوگا۔‘اسی طرح مارچ دو ہزار آٹھ میں لکھے گئے ایک اور خط میں پیراگوئے میں تعینات ایک سفارت کار سے پیراگوئی، برازیل اور ارجنٹائین کے سرحدی علاقے میں القاعدہ، حز ب اللہ اور حماس کی موجودگی کے بارے میں دریافت کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق خفیہ معلومات کے اجراءکے بعد امریکی حکومت اور انتظامیہ میں ہل چل مچی ہوئی ہے اور خاصی گھبراہٹ پائی جاتی ہے ۔

ویکی لیکس کیا ہے…!!!!!

انٹرنیٹ پر خفیہ معلومات جاری کرنے والی ویب سائٹ وکی لیکس عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کے واقعات اور انٹیلیجنس رپورٹس پر مبنی خفیہ معلومات منظر عام پر لانے کی وجہ سے ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔
افغانستان، عراق، پاکستان، امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے حوالے سے لاکھوں خفیہ دستاویزات شائع کرنے کے بعد اس ویب سائٹ نے صحافتی اور حکومتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔
اس ویب سائٹ کی جانب سے اپریل 2010ء میں ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ 2007ء میں عراقی دارالحکومت بغداد میں ایک امریکی اپاچی ہیلی کاپٹر نے برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے دو صحافیوں سمیت 12/ افراد کو ہلاک کیا تھا۔ اکتوبر 2009ء میں ان لوگوں کے نام اور پتے کی فہرست جاری کی تھی جن کے بارے میں اس کا دعویٰ تھا کہ ان کا تعلق برٹش نیشنل پارٹی سے ہے۔
بنیادی طور پر ویکی لیکس ایک ایسی ویب سائٹ ہے جہاں امریکی سفارت کاری اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے متعلق خفیہ معلومات شایع کی جا رہی ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں