‘کامیاب دعوت’ اچھے اعمال اورتواضع سے مشروط ہے

‘کامیاب دعوت’ اچھے اعمال اورتواضع سے مشروط ہے
molana_13جمعہ رفتہ میں خطیب اہل سنت زاہدان نے دعوت الی اللہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے داعیوں کے بارے میں فرمایا ’’ومن أحسن قولاً ممّن دعا الی اللہ‘‘ اس کا مطلب ہے دعوت الی اللہ کی سے بہتر کوئی بات نہیں۔ البتہ ’’بہترین بات‘‘ کی کچھ شرائط بھی ہیں۔ دعوت الی اللہ کی بہترین مثال ’’اذان‘‘ ہے۔ آیت 33:41 بھی دراصل مؤذن حضرات کے بارے میں نازل ہوئی تھی البتہ ’’موذن‘‘ کی تصریح نہیں ہوئی تا کہ یہ فضیلت سارے دعاۃ کو شامل ہوجائے۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزید کہا اذان دعوت کی بہترین مثال ہے۔ اذان کی ابتدا اللہ کی بڑائی کے اعتراف اور توحید سے ہوتی ہے۔ اذان کی انتہا بھی توحید کے اقرار سے ہوتی ہے۔ لہذا عام دعوت بھی توحید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اعتراف پر مشتمل ہونی چاہیے جس میں کامیابی کی جانب لوگوں کو بلایا جاتاہے۔ دعوت کا انداز یہی ہے۔
دعوت الی اللہ کی بعض شرائط کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: قرآن پاک کی رو سے حقیقی دعوت کی پہلی شرط ’’عمل صالح‘‘ ہے۔ جو دوسروں کو دعوت دیتا ہے مگر خود عمل نہیں کرتا تو اس کی دعوت میں کوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہی بات سورت البقرۃ کی آیت نمبر ۴۴ میں آئی ہے۔
’’تواضع‘‘ کو کامیاب دعوت کی دوسری اہم شرط قرار دیتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: داعی کو متواضع اور کبر وتکبر سے دور ہونا چاہیے۔ داعی مطیع وفرمانبردار بندہ ہوکر کامیابی حاصل کرسکتاہے۔ قرآن میں آتا ہے: ’’وقال اننی من المسلمین‘‘ ، داعی کو صحیح مسلمان ہونا چاہیے۔
عصر حاضر میں مسلم معاشروں میں معاصی وفساد کے پھیلاؤ کو ’ترک دعوت‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا سب سے پہلے اہل علم اور با اثر افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دعوت کے کام کو آگے بڑھائیں، اس کے بعد عام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی مہم کو چلائیں۔ آج اگر مسلم معاشروں میں زنا، چوری، رہزنی، ربا، ترک صلاۃ، قتل ودیگر گناہ عام ہوچکے ہیں تو اس کی وجہ ترک دعوت ہے۔ علمائے کرام کی دعوت جمعہ وعیدین کے مواعظ تک محدود ہے۔ علمائے کرام ہر مجلس میں دعوت الی اللہ کی مہم پر رہیں اور عام مسلمان بھی دعوت کو اپنا کام سمجھ لیں تو معاشرہ برائیوں سے پاک ہوگا۔

شیعہ برادری کی مذہبی تقریبات میں اہل سنت کی مقدسات کی توہین نہیں ہونی چاہیے

اپنے بیان کے دوسرے حصے میں ہزاروں فرزندان توحید سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا تمام مذاہب ومسالک کے پیروکار اپنی مذہبی تقاریب اس انداز میں منعقد کرائیں کہ دیگر مسالک کی مقدسات کی توہین نہ ہو۔ خاص طور پر شیعہ حضرات اپنی دینی تقاریب سوچ سمجھ کر منعقد کریں اور اہل سنت کی مقدسات کی گستاخی سے گریز کریں۔
خطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے اہل سنت اور اہل تشیع کو دو اہم مسلک قرار دیتے ہوئے کہا جس طرح ان دو مسلکوں کے درمیان بہت سارے مشترکات پائے جاتے ہیں اسی طرح بعض امور میں اختلاف رائے بھی ہے۔ جو مسائل اختلافی ہیں تو وہ متعلقہ مسلک والوں کے ساتھ خاص ہیں۔ ہمیں مشترکہ امور پر زور دینا چاہیے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا: جو مسائل اور تہوار کسی مسلک کے ساتھ خاص ہیں وہ انہی مسلک کے ماننے والوں کے لیے اہم ہیں دوسروں کے لیے نہیں۔ جیسا کہ اٹھارہ ذوالحجہ کو شیعہ برادری ’’عید غدیر خم‘‘ کے عنوان سے مناتے ہیں۔ میری نصیحت یہ ہے کہ جو تہوار مخصوص ہیں ان کا انعقاد اس طرح ہونا چاہیے کہ دیگر مسالک کے پیروکاروں کی دل آزاری نہ ہو۔
زاہدان کی جامع مسجد مکی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تاکید کی کہ ایسی مجلسوں اور جلوسوں میں صحابہ کرام اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی نہیں ہونی چاہیے، اہل سنت کی مقدس شخصیات کی عزت واحترام کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔ ان کی شان میں بے حرمتی وگستاخی بہت سنگین جرم اور غلطی ہے۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں