تنقید اور تنقیص

تنقید اور تنقیص
questionآپ کسی محفل میں چلے جائیں کسی تقریب میں شرکت کریں سیاسی اور سماجی حوالے سے کسی اجتماع کے مقررین کو سنیں حتیٰ کہ مذہبی اور روحانی اجتماعات میں کسی مقرر کا حفظ سماعت فرمائیں کسی پیر اور شیخ طریقت کے ارشادات گرامی پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہر جگہ ایک ہی موضوع یکساں ہے۔ اور وہ ہے تنقیص یعنی دوسروں کے نقص نکالنا۔ ان کے عیب بیان کرنا جہاں تک تنقید کا تعلق ہے یہ ایک صحت مند عنصر ہے۔ اس سے دوسروں کو اپنے احوال درست کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اپنی اصلاح کے لئے غور فکر کرنے کا سامان مہیا ہوتا ہے۔

لیکن ”تنقیص“ اس سے علیحدہ چیز ہے۔ اس کا مقصد اور لب لباب دوسروں کے عیب بیان کرنا ہوتا ہے۔ کبھی واضح کبھی پوشیدہ کبھی کھل کر کبھی اشاروں کنایوں اور استعاروں کی زبان میں۔ اس میں دوسروں کی اصلاح کی بجائے اپنی برتری اور اپنی بڑائی بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ آپ کسی مقرر کو وقت کی پابندی پر لیکچر دیتے ہوئے سنیں تو ہر دوسرے تیسرے فقرے میں آپ کو مقرر کی گفتگو میں اشارہً یا کنایہ یہ بات ضرور ملے گی کہ الحمد للہ میں تو ایسا نہیں کرتا۔ میں اس غلطی سے بالکل پاک اور صاف ہوں لیکن سامعین ہی اس لعنت میں گرفتار ہیں۔ اس مقرر صاحب کی پابندی اوقات کا پتہ آپ کو اس وقت چلے گا جب اس کے ساتھ واسطہ پڑے گا۔ ان کے چاہنے والے خود ہی توجیہات او توضیحات کا ایک نہ ختم ہونے والا لیکچر آپ کو سنا دیں گے۔ یہ ان لوگوں کے معمولات ہوتے ہیں جو صرف اپنی پروجیکشن چاہتے ہیں اور ہر وہ چیز جو دوسروں کے لئے غیر شرعی اور نامناسب ہوتی ہے وہی اپنے لئے مناسب اور شریعت کے عین مطابق بتائی جاتی ہے اور اس کا جواز تلاش کر لیا جاتا ہے۔
ان تمام رویوں کے پس منظر میں دیکھیں تو ایک ہی جذبہ محرکہ نظر آتا ہے۔ اور وہ ہے ”میں“جی جی … ”میں“ یعنی جو لوگ اپنے آپ کو ”مسٹر پرفیکٹ“ سمجھتے ہیں اور اپنے علاوہ دوسروں کی تنقیص کرنا ان کا پسندیدہ موضوع ہوتا ہے ان کے فکرو فلسفہ کے پس منظر میں ”میں“ یعنی انانیت کا جذبہ بنیادی عنصر ہوتا ہے۔ میں اور میرا فلسفہ، میں اور میرا نظریہ، ”میں میں“ کی گردان کبھی ختم نہیں ہوتی اور زندگی بھر جاری رہتی ہے۔ یہ سراسر شیطانی اور خواہشات نفسانی کی جادوگری ہے۔
الحمد للہ اس فقیر کے جدامجد حضرت فتح محمد قادری رحمة اللہ علیہ اپنے دور کے بہت بڑے شیخ طریقت تھے۔ وہ اپنی زبان سے لفظ ”میں“ ادا کرنے سے ہر ہیز کرتے تھے۔ ہمیشہ اپنے آپ کو ”فقیر“ کہتے تھے۔ مرید نے محبت سے اپنے شیخ کا تذکرہ ایک محفل میں کیا تو خواہشات اور تکبر کے امیر ایک شخص نے چیلنج کیا کہ وہ ان سے ”میں“ کہلوا کے چھوڑے گا۔
مرید صادق نے یہ چیلنج قبول کیا اور اسے اپنے شیخ کے پاس لے گیا۔ نماز کا وقت قریب تھا۔ اپنے زمانے کا درویش اور صوفی چٹائی پر بیٹھا تھا۔ آنے والے نے دعا سلام کے بعد جلدی سے سوال داغ دیا۔ شیطان کو کسی وجہ سے رب تعالیٰ نے لعنت کا مستحق بنا کر اپنی بارگاہ سے نکال دیا تھا“۔ درویش نے ایک نظر اٹھا کر سوال پوچھنے والے کی باطنی کیفیت کو دیکھا اور فرمایا ”پہلے نماز پڑھ لو پھر فقیر اس سوال کا جواب دے گا“ نماز ادا کرنے کے بعد حضرت نے دریافت فرمایا ”سوال کرنے والا بھائی کون تھا؟“ وہ شخص فوراً بول اٹھا ”میں“ فرمایا اسی وجہ سے شیطان مردود بنا تھا۔ سوال کرنے والا خاموش ہوکر بیٹھ گیا اور پھر درویش کے حلقہ طریقت میں شامل ہوگیا۔
جو لوگ نیکی اور تقریٰ کا لبادہ اوڑھ کر دوسروں کو تلقین کرتے اور تنقید سے بڑھ کر تنقیص تک جاپہنچتے ہیں ان کے معمولات کا جائزہ لیں تو وہ اپنے لئے ہر وہ چیز جائز اور دوا سمجھتے ہیں جو دوسروں کے لئے فخر و تکبر کا سبب گردانتے ہیں۔ جبکہ درویش کی اپنی ہی دنیا ہوتی ہے۔ درویش وہ ہوتا ہے جو صرف سادگی کا درس ہی نہیں دیتا بلکہ سادگی کا مظہر ہوتا ہے۔ وہ سادگی کی تشہیر نہیں کرتا، سادگی کی تصویر ہوتا ہے۔ ایسے درویش ہی حقیقی اولیاء اللہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دراصل سید الاولین والآخرین رحمت اللعالمین سرور کائنات فخر موجودات سید الوجود سیدنا محمدالرسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر ہوتے ہیں۔ ان کے ایک ایک عمل گفتگو کے ایک فقرے اور وعظ و نصیحت کے ایک ایک جملے سے سیرت پاک کا عکس جمیل نظر آتا ہے۔ سید الکونین باعث تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے صحابہ کرام سے ارشاد فرمائیں کہ جس کسی کے ساتھ میں نے کبھی بھی ناروا سلوک کیا ہو وہ مجھ سے زندگی میں بدلہ لے لے۔ اور آج کل کے رہنمایان کرام خواہ وہ سیاسی ہوں سماجی ہوں یا مذہبی اور روحانی ہوں اپنے آپ کو ہر غلطی سے مبرا اور پاک سمجھیں اور صرف اپنے سامعین کو ہی غلطی کا پلندہ تصور کریں۔ ایسے لوگ فیضان نبوی سے اپنے آپ کو مستفید اور مستفیض نہیں کرسکتے۔
اگر کسی کو اس حقیقت میں کسی قسم کا شک و شبہ ہو تو وہ کسی سیاسی سماجی مذہبی اور روحانی رہنما کے کارکنوں چاہنے والوں اور عقیدت مندوں کے سامنے اصلاح احوال کے لئے کوئی ایسی تجویز دے جس کی زد میں ان کا لیڈر آتا ہو ان کا مذہبی اور روحانی امیر آتا ہو پھر دیکھیں کیا سلوک ہوتا ہے۔ اگر سیاسی جماعت ہے تو رکنیت برخاست اگر قائد محترم ہیں تو بے دخل اور معطلی حضرت پیر صاحب ہیں تو جنت کے دروازے آپ کے لئے بند کردیئے جائیں گے۔ اقبال نے سچ کہا تھا۔
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ سلطانی بھی عیاری ہے درویشی بھی عیاری

سردار احمدقادری
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں