“عراقی چرچ پر حملہ دو قبطی خواتین کو چھڑانے کے لیے”

“عراقی چرچ پر حملہ دو قبطی خواتین کو چھڑانے کے لیے”
iraq-kanisaبغداد(ایجنسیاں) مصری اورعراقی انٹیلی جنس حکام نے انکشاف کیا ہے کہ اتوارکو بغداد کے وسط میں کیتھولک عیسائی فرقےکے چرچ پر القاعدہ کا حملہ مصر میں دو نو مسلم قبطی خواتین کی رہائی کے لیے کیا گیا ہے۔ دونوں خواتین دو عیسائی پادریوں کی بیویاں ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر کے القاعدہ سے اپنے روابط قائم کر لیے تھے۔

العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق کامیلیا شحاتہ اور وفاء قسطنطین نامی ان دو قبطی خواتین کے تنظیم القاعدہ کے ساتھ تعلقات کا پتہ چلا ہے اور بغداد میں چرچ میں درجنوں افراد کو یرغمال بنانے میں ان کا کردار سب سے اہم ہے۔ انہوں نے مصر اور عراق میں گرفتار تنظیم کے ارکان کی رہائی کے لیے چرچ میں موجود مسیحی عبادت گذاروں کو یرغمال بنایا تھا۔
عراقی پولیس کے مطابق یرغمالیوں کے حملے اور فوج کی جوابی کارروائی میں چرچ میں موجود عیسائی اقلیت کے 37 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ بعض ذرائع ہلاکتوں کی تعداد کم ازکم 52 بتارہے ہیں۔ مجموعی یرغمالیوں کی تعداد کم وبیش 100 بیان کی جاتی ہے۔
عراقی وزارت داخلہ کے سیکرٹری حسین کمال نے پیر کو بغداد میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ چرچ پر حملہ آٓور القاعدہ کا مطالبہ تھا کہ مصری اور عراقی جیلوں میں موجود ان کے ساتھیوں کو رہا کر دیا جائے۔ انہوں نےکہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور امریکی فوج نے ان کے مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے ان کے خلاف طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیا۔ آپریشن میں تمام حملہ اورہلاک جبکہ 40 کےلگ بھگ یرغمالی بھی مارے گئے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 67 ہے جنہیں علاج کے لیے مختلف اسپتالوں میں داخل کیاگ یا ہے۔ ان میں بعض کی حالت خطرے میں بتائی جاتی ہے۔
العربیہ نے امریکا میں اسلامی ویب سائیٹوں کی نگرانی کرنے والے ایک ویب پورٹل”سائیٹ” کے حوالے سے بتایا ہے کہ القاعدہ کے مطالبات سامنے آنے کے فوری بعد کے قاہرہ میں مرکزی کیتھولک چرچ کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ “ادیرہ” جیل میں قید تمام مسلمان خواتین کو 48 گھنٹوں کے اندر اندر رہا کرنے کا اعلان کرے تاکہ بغداد میں چرچ میں یرغمال عیسائی باشندوں کو زندہ بچایا جا سکے۔
القاعدہ کے بغداد میں چرچ پرحملے کے فوری ردعمل میں مصرمیں موجود تمام چرچوں کی سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ مصری پولیس کی بھاری نفری چرچوں کے گرد تعینات ہے اور کسی بھی شخص کو جامہ تلاشی لینے کے بعد چرچ میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔ جبکہ چرچوں کے سامنے کسی شخص کو گاڑی پارک کرنے کی بھی اجازت نہیں۔
رپورٹ کے مطابق القاعدہ کی جانب سے ایک ریکارڈڈ ویڈیو پیغام بھی نشر کیا گیا ہے جس میں خودکُش حملہ آوروں کے ایک گروہ کو دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو پیغام میں دھمکی دی گئی کہ اگر “ادیرہ” جیل میں زیر حراست””کامیلیا شحاتہ” اور “وفا قسنطنطین” کو رہا نہ کیاگیا تو مصر میں موجود چرچوں پرخود کش حملے کیے جائیں گے۔

قبطی خواتین کی شہرت
العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کامیلیا شحاتہ اور وفاء قسطنطین کے اسلام قبول کرنے انکشاف کے بعد عیسائی پادریوں اور مسلمانوں کے درمیان شدید تنازع بھی پیدا ہوا۔ اس تنازع نے دونوں خواتین کو ملک بھر میں مشہور کر دیا اور یہ بات کھل سامنے آ گئی اسلام قبول کرنے کا ارادہ رکھنے یا عملا دائرہ اسلام میں داخل ہونے والی دونوں خواتین مصری قبطی عیسائی پادریوں کی بیویاں ہیں۔ پادریوں نے الزام عائد کیا کہ مصر میں جبری مسلمان کرنے والا ایک گروہ ان کی خواتین کو جبری اسلام قبول کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
دوسری جانب مصری شہریوں کی جانب سے ان الزامات کی تردید کے ساتھ ساتھ پادریوں کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے۔ مظاہرین کاکہنا ہے کہ اسلام قبول کرنے کی خواہشمند قبطی خواتین کو پادری جبرا عیسائیت میں رہنے کے لیے دباٶ ڈال رہے ہیں۔
کامیلیا شحاتہ کو اس سال جولائی میں پولیس نے پادریوں کے کہنے پرحراست میں لیا، حراست سے قبل پانچ روز تک وہ روپوش تھی اور اپنی ایک سہیلی کے ہاں خفیہ طورپر قیام پذیر تھی۔ وہیں سے اس کے قبولیت اسلام کی خبر افشاء ہوئی۔ اس کے بعد اب تک وہ ادیرہ جیل میں قید ہے۔
وفاء قسطنطین کا معاملہ بھی کا شحاتہ سے مشابہ ہے۔ وہ بھی ایک قبطی پادری کی بیوی ہے اور سنہ 2004ء میں اچانک روپ وشی کی زندگی اختیار کر لی تھی۔ تاہم پولیس نے اسے برآمد کر کے مصری چرچ اتھارٹی کےحوالے کر دیا۔ چرچ اتھارٹی نے الزام عائد کیا کہ وفاء کو کچھ لوگ جبرا اسلام کی طرف لے جارہے ہیں۔ اس پر کئی عیسائی پادریوں نے سخت احتجاج بھی کیا۔ تاہم وفاء ابھی تک ادیرہ جیل میں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس نے ابھی تک باضابطہ طور پر اسلام قبول نہیں کیا تاہم وہ مشرف بہ اسلام ہونے کا ارادہ رکھتی ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں