امریکی مسلمانوں کا ایک عظیم اجتماع

امریکی مسلمانوں کا ایک عظیم اجتماع
usa-isnaرپورٹ(VOA News) “اسنا” یا “اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ” امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی سب سے بڑی اور پرانی تنظیم ہے۔  اس کا مقصد امریکہ میں رہائش پذیر مسلمانوں کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ انہیں درپیش مسائل کے حل میں مدد فراہم کرنا ہے۔

پچھلے 47 برسوں سے ہر سال “اسنا” امریکہ کے مختلف شہروں میں اپنا سالانہ کنونشن منعقد کرتی ہے۔ اس سال یہ کنونشن شکاگو میں ہوا  جس میں تنظیم کے دعویٰ کے مطابق لگ بھگ تیس ہزار افراد نے شرکت کی۔
اس سال ہونے والے کنونشن میں مختلف موضوعات کو پروگرام کا حصہ بنایا گیا تھا جن میں خواتین کے حقوق، دوسروں کے ساتھ رحمدلی اور رواداری کا برتاؤ، نوجوانوں کی نمائندگی، بین المذاہب مکالمہ، بزرگوں کا احترام اور ان کی دیکھ بھال اور کمیونٹی میں فلاح و بہود جیسے موضوعات شامل  تھے۔
“اسنا” کے جنرل سیکریٹری صفا  ضرضور کا کہنا ہے کہ  اسنا کنونشن ان امریکی مسلمانوں کیلیے زیادہ اہمیت رکھتا ہے  جو شاید اپنے شہروں اور مقامی آبادیوں میں اکیلے مسلمان گھرانے ہوں۔
اس کنونشن میں عام امریکی مسلمانوں کے علاوہ  امریکہ کی مختلف ریاستوں سے آنے والے تقریباً 400 کے قریب ایسے کاروباری  اور فلاحی اداروں نے بھی شرکت کی  جنہیں مسلمان چلا رہے ہیں۔ کنونشن میں ان اداروں کی جانب سے 600 سے زیادہ اسٹالز بھی لگائے گئے تھے تاکہ امریکی مسلمان  امریکہ میں خدمات انجام دینے والے مختلف مسلمان کاروباری اداروں کے بارے میں نہ صرف جان سکیں بلکہ  ان کی خدمات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مصنوعات بشمول کتابیں، کھانے پینے کی اشیاء، آڈیو وڈیو سی ڈیز اور ملبوسات وغیرہ بھی خرید سکیں۔
اس حوالے سے “اسنا” کایہ کنونشن  مسلمان صارف  اور کاروبار، دونوں کو فائدہ پہنچانے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔
“عزیزہ میگزین” امریکہ میں مسلمان خواتین کیلیے شائع ہونے والا واحد جریدہ ہے جو گزشتہ 10 سالوں سے امریکی  مسلمان خواتین کی شخصیت اور آواز کو امریکی معاشرے میں نمایاں کررہا ہے۔
کنونشن میں لگے ایک اسٹال پر  ایک خاصی مختلف چیز کی نمائش بھی کی گئی ۔ یہ چیز تھی “آئی کور” کے نام سے چھپنے والا پہلا امریکی میگزین جس میں حجاب پہننے والی امریکی مسلمان خواتین کی شخصیت کے مضبوط  اور مثبت پہلووں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میگزین کی روحِ رواں صدف سید نے اس جریدے پہ کام کے سلسلے میں گزشتہ دو سال کے عرصے کے دوران  امریکہ کے کئی شہروں کا سفر کیا۔
کنونشن کے ایک اور اسٹال پر “ایڈمز ورلڈ” نامی پپٹ شو یعنی پتلی تماشے کی نمائش بھی کی گئی۔ تاہم یہ وہ پتلی تماشا نہیں  جو عموماً  ہماری نظروں سے گزرتا ہے۔  یہ بچوں کیلیے تیار کیا جانے والا امریکہ کا پہلا مسلمان پتلی تماشا ہے، جس کا نام “آدم کی دنیا” رکھا گیا ہے۔
“آدم کی دنیا ” بنانے والے ادارے ساؤنڈ اینڈ ویژن سے وابستہ مجاہد خان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں وقت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے ہر مسلمان بچہ اسلامی اسکول نہیں جا پاتا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے پروگرامات امریکہ میں مسلمان بچوں کو اسلامی تہذیب اور طورطریقے سکھانے میں مدد گار ہوتے ہیں۔
مجاہد خان کے مطابق  نہ صرف امریکی مسلمان “ایڈمز ورلڈ” سے مستفید ہورہے ہیں بلکہ امریکہ سے باہر دیگر ممالک میں مقیم مسلمان بھی اپنے بچوں کی اسلامی  خطوط پہ تعلیم و تربیت کیلیے  ان کے ادارے کی تیار کردہ مصنوعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
“اسنا” کی سیکریٹری جنرل  صفا ضرضور کا  کہنا ہے کہ اس  وقت آدھی سے زیادہ امریکی مسلمان  آبادی  نوجوانوں پر مشتمل ہے  اور آگے بڑھنے کیلیے ان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
اسی مقصد کے تحت “اسنا” کے اس 47 ویں سالانہ کنونشن میں نوجوانوں اور بچوں کیلیے لیکچرز اور مختلف ایونٹس کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس میں کئی مسلمان دانشوروں نے شرکت کی اور نوجوانوں اور انہیں درپیش مسائل کے حوالے سے گفتگو کی۔
امریکہ میں رہنے والے مسلمان بچے اپنے والدین اور بزرگوں کا کس طرح احترام کر سکتے ہیں ، اس حوالے سے بھی کنونشن میں ایک سیمینار منعقد کیا گیاتھا۔ سیمینار میں بزرگوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں کے نمائندوں اور سماجی فلاح و بہبود کے کاموں سے وابستہ کارکنوں  نے شرکت کی۔  
اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے یونیورسٹی آف کینٹکی کے احسان باغبے کا کہنا تھا کہ بزرگوں کا خیال رکھنا  ایک زمانے میں امریکی ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ ورجینیا سے آنے والے ایک ماہر اقبال یونس کا کہنا تھا کہ بچوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے والدین کا خیال رکھیں۔ شکاگو  سے تعلق  رکھنے والی افشاں احمد نے کہا کہ بچوں پر خود اپنی اور پھر اپنی اولادکی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں تاہم  اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے والدین کو بھول جائیں۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے آکلینڈ یونیورسٹی  میں شعبہ اسلامی تعلیم کے بانی حشمت صالح نے  کہا کہ بچوں اور بزرگوں دونوں کو ساتھ بیٹھ کر یہ فیصلہ کرناچاہیے کہ وہ کس طرح مل کر والدین کا خیال رکھ سکتے ہیں۔
“اسنا” کے اس کنونشن میں پاکستان سے بھی کچھ مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا جن میں معروف ویب سائٹ “الرحمن الرحیم” کے بانی بابر چوہدری بھی شامل تھے۔  اس سوال کے جواب میں کہ ان کا امریکہ کے دورے کا یہ تجربہ کیسا رہا، مسٹر چوہدری کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں  کو پاکستان سے کس طرح کی مدد بہم پہنچائی جا سکتی ہے۔بابر چوہدری کے ساتھ پاکستان کے فلم اور ڈرامہ آرٹسٹ  اور آج کل “الرحمن الرحیم” سے وابستہ فرحان علی آغا بھی امریکہ آئے ہیں۔
بابر چوہدری کہتے ہیں کہ مسلمان نوجوانوں کو ، چاہے وہ امریکہ میں ہوں یا پاکستان میں،  میڈیا، صحافت اور ان جیسے دیگر شعبوں کی طرف آنا چاہیے تاکہ مسلمان  ان بااثر شعبوں میں زیادہ سرگرمی سے حصہ لے سکیں۔
جیکب بینڈر یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے  ایک امریکی فلم ساز ہیں جو اپنی نئی دستاویزی فلم “قرطبہ کے باہر” کی نمائش کے سلسلے میں”اسنا” کنونشن میں شریک تھے۔ جیکب نے اپنی فلم میں اس زمانے کی تصویرکشی کی ہے جب مسلم اسپین میں مسلمان اور یہودی سائنس، ریاضی اور دیگر علوم پر ایک ساتھ کام کیا کرتے تھے۔
جیکب چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی فلم دیکھنے کے بعد ماضی پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ اس زمانے میں کس طرح مسلمان اور یہودی  یورپ میں ایک ساتھ رہتے ہوئے کام کررہے تھے۔ ان کے خیال میں یہ دونوں قوموں کے سائنسدانوں اور دانشوروں کے اشتراکِ عمل کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا ان کی تحقیق سے فائدہ اٹھارہی ہے۔
ڈاکٹر انگرڈ میٹیسن کہتے ہیں کہ اس سال “اسنا” کے کنونشن میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں  کے علاوہ مسلمان نوجوانوں  نے بھی بھرپور شرکت کی ہے اور انہیں امید ہے کہ آنے والے برسوں میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں