مغربی کنارے کے گاٶں میں یہودی آبادکاروں نے مسجد نذر آتش کر دی

مغربی کنارے کے گاٶں میں یہودی آبادکاروں نے مسجد نذر آتش کر دی
burning-quran-palestineرام اللہ (ایجنسیاں) فلسطینی سر زمین میں بسائے گئے انتہا پسند یہودی آباد کاروں نے مغربی کنارے کے ایک گاٶں میں ایک مسجد کو نذر آتش کر دیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کے متعدد نسخے شہید ہو گئے ہیں۔

مغربی کنارے کے گاٶں بیت فجرکی میونسپل کونسل کے رکن علی ثوابتی نے بتایا ہے کہ انتہا پسند یہودی آبادکاروں نے مسجدکو آگ لگا دی جس کے نتیجے میں اس کا قالین جل کر خاکستر ہو گیا اور قرآن مجید کے پندرہ نسخے شہید ہوئے ہیں. حملہ آوروں نے مسجد کی دیواروں پر اشتعال انگیز نعرے بھی لکھ دیے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ گاؤں کے مکینوں نے مسجد میں لگی آگ بجھا دی ہے جبکہ حملہ آور یہودی آبادکار ایک سفید رنگ کی گاڑی میں فرار ہو گئے ہیں۔ مغربی کنارے میں گذشتہ دسمبر کے بعد یہ چوتھا موقع ہے کہ انتہا پسند یہودی آبادکاروں نے کسی مسجد پر حملہ آور ہو کر اسے آگ لگائی ہے۔
مغربی کنارے میں 1967ء سے قابض اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ بیت لحم کے نزدیک واقع گاٶں بیت فجر میں مسجد پر یہودی آبادکاروں کےحملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
یہودی انتہا پسندوں نے مسجد پر ایسے وقت میں حملہ کیا ہے جب اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات ایک مرتبہ پھر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور امریکا ان مذاکرات کو بچانے کے لیے بھرپور سفارتی کوششیں کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تشدد کے واقعات میں اضافے سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے اور اس سے دیرینہ تنازعے کے حل کے لیے کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

کشیدگی میں اضافہ

مقبوضہ بیت المقدس کے مفتی اعظم محمد حسین نے مغربی کنارے میں مسجد کو آگ لگانے کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ” یہودی آبادکار کشیدگی میں اضافہ چاہتے ہیں اور وہ معاملات کو تباہی کے کنارے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں”۔
اسرائیلی فوج کی ایک خاتون ترجمان لیفٹیننٹ کرنل ایویٹال لائیبووٹز نے مسجد میں آتشزدگی کو ایک سنگین واقعہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیلی حکام واقعے کے ذمے دار کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس پر 1967ء کی جنگ میں قبضے کے بعد سے وہاں پانچ لاکھ کے قریب یہودی آبادکاروں کو لا بسایا ہے۔ مغربی کنارے میں انسانی حقوق کی مانیٹرنگ کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب کبھی یہودی بستیوں کے لیے خطرات پیدا ہوتے ہیں تو ان کے مکین یہودی آبادکار فلسطینیوں اور ان کی املاک پر حملے شروع کر دیتے ہیں۔
مئی میں بھی یہودی آبادکاروں نے مغربی کنارے کے ایک گاٶں لبن الشرقیہ میں ایک مسجد کو آگ لگا دی تھی۔ اپریل میں یہودی آبادکاروں نے ایک اور گاٶں حوارا میں ایک مسجد کی دیواروں پر یہود کی علامت ستارہ داٶد بنا دیا تھا اور مسجد کی بے حرمتی کی تھی۔ دسمبر 2009ء میں یہودی آبادکاروں نے مغربی کنارے کے گاٶں یوسف میں ایک مسجد کو آگ لگا دی تھی جس سے اس کے قالین جل گئے تھے اور وہاں رکھے قرآن مجید کے نسخے شہید ہو گئے تھے لیکن اب تک ان میں سے کسی ایک واقعہ میں ملوث ہونے کے الزام میں یہودی آبادکاروں کے خلاف فرد جرم عاید نہیں کی گئی ہے۔

شدید مخالفت

درایں اثناء اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ان میڈیا اطلاعات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جن میں کہا گیا ہے کہ امریکا نے یہودی بستیاں منجمد کرنے کی مدت میں ساٹھ دن کی توسیع کے عوض صہیونی ریاست کو بعض مراعات کی پیش کش کی ہے۔
تاہم امریکا کی جانب سے اسرائیل کو یہودی آبادکاری کے عمل میں توسیع کے لیے آمادہ کرنے کی کوششوں کو انتہا پسند حکمران اتحاد میں شامل سخت گیر وزراء کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کو جاری رکھنے میں یہودی آبادکاروں کے لیے نئے مکانوں کی تعمیر پر پابندی کو بڑی اہمیت حاصل ہے کیونکہ فلسطینی ایک سے زیادہ مرتبہ یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر یہودی بستیوں کو منجمد نہیں کیا گیا تو وہ مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیں گے۔
اسرائیلی اخبار یدیعوت احرنوت میں سوموار کو صہیونی کابینہ سے متعلق شائع ہونے والی ایک سروے رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو امریکا کی جانب سے سکیورٹی سے متعلق پیش کیے گئے مجوزہ معاہدے پر اپنے اتحادیوں کو آمادہ کرنے کے لیے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سروے نتائج کے مطابق اسرائیلی کابینہ میں شامل تیس میں سے پندرہ وزراء یہودی بستیاں جزوی طور پر منجمد کرنے کی مدت میں توسیع کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آٹھ وزراء کا کہنا ہے کہ وہ ایسی کسی تجویز کی حمایت کریں گے جبکہ سات نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
اسرائیل کے وزیر ماحولیات گیلاد ایردان کا کہنا ہے کہ”میں ذاتی طور پر یہودی بستیاں منجمد کرنے کا مخالف ہوں۔ ایسا اقدام یہودیوں کی آبادکاری سے دستبرداری ہو گا حالانکہ ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ یہود کو گھر بسانے کا حق حاصل ہے”۔
یدیعوت احرنوت میں شائع شدہ سروے کے نتائج کے مطابق اسرائیل کی طاقتور پندرہ رکنی سکیورٹی کابینہ میں سے آٹھ وزیر مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے کے لیے کسی بھی اقدام کے مخالف ہیں جبکہ چار اس کے حق میں ہیں اور تین نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ باقی سات اہم وزراء میں سے چار مخالف اور تین یہودی بستیاں منجمد کرنے کے حق میں ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں