انفرادی واجتماعی زندگی میں خاتم الانبیاء کی پیروی کرنی چاہیے، مولاناعبدالحمید

انفرادی واجتماعی زندگی میں خاتم الانبیاء کی پیروی کرنی چاہیے، مولاناعبدالحمید
molana27دارالعلوم زاہدان کے سرپرست اعلی اور خطیب اہل سنت زاہدان نے جمعے رفتہ میں قرآنی آیت «لقد كان لكم فی رسول الله اسوة حسنة لمن كان یرجوا الله و الیوم الآخر و ذكر الله كثیرا» {احزاب:21} کی تلاوت کرتے ہوئے اخلاق نبوی کے اپنانے پر زور دیکر فرمایا: اللہ تعالی نے اپنے محبوب اور مقرب بندے کو قیامت تک ہمارے لیے قابل تقلید اسوہ اور مثالی شخص قراردیاہے۔ خالق کائنات نے نبی کریم صلی اللی علیہ وسلم کے ظاہر کو خوبصورت خلق فرمایاتھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے باطن کو ظاہر سے زیادہ جمیل اور حسین بنایا۔ ظاہری جمال اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے۔ جبکہ تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ خوبصورت اور حسین انسان ہے۔ ارشادخداوندی ہے: ”لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم“، اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے بندوں میں سب سے زیادہ حسن وجمال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔

بات آگے بڑھاتے ہوئے مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے کہا ظاہری حسن احسان الہی ہے، جسے اللہ چاہے عطا فرماتاہے۔ جب بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتاہے اس کی ظاہری ساخت اور حسن بنائی جاتی ہے۔ سو انسان کو یہ جمال حاصل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ البتہ باطنی حسن وجمال یا وہ جسے اخلاق باطنی، اعمال وافعال اور کردار کہاجاتاہے انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ ان چیزوں کو انسان خوبصورت بناسکتاہے۔ اللہ تعالی نے سرورِ کونین محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو آئیڈیل قرار دیاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہر امر میں ضروری ہے۔ اس لیے ہر کوئی اپنے باطنی جمال کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے باطنی حسن سے نزدیک کرنے کی کوشش کرے۔
انہوں نے مزید کہاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، اعمال وافعال اور عادتیں ہمارے لیے بہترین اسوہ ہیں۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ تمام انبیاءعلیہم السلام قوموں کیلیے نمونہ واسوہ تھے، ان کے عظیم اخلاقیات کی تکمیل ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور بنی نوع انسان کو ایک عظیم تحفہ دیا۔
حضرت ام المونین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا معروف جملہ: ”کان خُلُقہ القرآن“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصف میں سب سے بلیغ، جامع اور واضح جملہ ہے۔ اس خوبصورت اور جامع تصویرکشی سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فقاہت، مہارت اور علمیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
قرآن پاک میں اخلاقی مباحث ومضامین کی جامعیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مزیدکہا: جب قرآن مجید اخلاق سے بات کرتاہے تو آدمی حیران رہ جاتاہے۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کے عملی نمونہ تھے، قرآن کے حرف بہ حرف پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا۔ ارشاد باری تعالی ہے: ؛ اس آیت سے پتہ چلا اللہ کے بندوں کو زیب نہیں دیتا کہ جب انہیں غصہ آئے تو فورا انتقام لینے پراتر آئیں۔ بلکہ اللہ کے خاص بندے عفو ودرگذر سے کام لیتے ہیں۔ یہ پسندیدہ عمل خالق حقیقی کے حکم کو لبیک کہنے کی بہترین مثال ہے۔
انہوں نے مزید کہا اللہ تعالی نے مذکورہ آیت میں اپنے بندوں کی ایک اور خصوصیت بیان کرکے فرمایا: وامرہم شوری بینہم؛ یہ لوگ آپس میں مشورہ کرتے ہیں۔ تو یہ بندے جن کی اتباع ہونی چاہیے صرف اپنے اوپر بھروسہ نہیںکرتے بلکہ دوسروں کی آراءبھی معلوم کرتے ہیں۔ متکبر اور مستبد آدمی دوسروں کی آراءکی قدر نہیںکرتا۔ انسان جب بھی دنیا میں آگے نکلے اور بڑائی کا اظہار کرے تو اس سے خطا سرزد ہونے کاقوی خطرہ ہوتاہے۔ ظاہرسی بات ہے ایک عقل سے چار عقلیں بہتر ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی عادت تھی کہ اپنی رائے ترک کرکے دوسروں کی آراءپر عمل کرتے تھے۔ یاجب کسی کی رائے زیادہ صحیح اور مفید معلوم ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی طرف رجوع فرماتے تھے۔
خطیب جامع مسجد مکی نے بات آگے بڑھاتے ہوئے مزیدکہا اگر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معنوی حسن وجمال سے قریب ہونا ہو تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شب وروز کس طرح گزاردی، کس طرح اپنے صحابہ سے مشورہ لیتے تھے اور اللہ کی راہ میں خرچ فرماتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہوں کی طرح نہیں بیٹھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لباس و پوشاک اور شکل میں اس قدر سادگی اختیار فرماتے تھے کہ اگر کوئی پہلی دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتا تو اس کیلیے یہ تمیز کرنا ناممکن ہوتا کہ ان میں کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو استقبال کیلیے آنے والے اکثر مدینہ والوں نے پہلی مرتبہ کیلیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور انہیں معلوم نہ ہوا کون صدیق اکبر اور کون نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں! یہاں تک کہ سایہ اٹھ گیا اور صدیق اکبر نے اپنی چادر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے سایہ بنایا تو لوگوں کو پتہ چلا ان دو میں سے کون آخری نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم فرمایاتھا؛ ایک حصہ عبادت کیلیے، ایک آرام اور اہل خانہ کے ساتھ گزارنے کیلیے اور تیسرا حصہ عوام کے مسائل سننے اور حل کرنے کیلیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہت سادی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام دہ اور عالیشان تختوں پر آرام نہیں کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت یہ تھی کہ آپ اپنے عیال و اولاد کے ساتھ وقت گزارنے کیلیے ایک ٹائم مختص فرماتے۔ گھر سے باہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مسائل حل کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبائل کے سرداروں اور بڑے لوگوں کی عزت واکرام کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے ساتھ ان کے مقام کے مطابق سلوک فرماتے تھے، چنانچہ اسلام کاحکم ہے: ”انزل الناس منازلہم“، (لوگوں کے ساتھ ان کے مقام ورتبہ کے مطابق سلوک کرو) اور ”اکرم کریم قوم“، (کسی قبیلہ/قوم کے بڑے کا اکرام کرو۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں کوئی اونچی آواز سے نہیں بولتا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی بات درمیان میں بند کراتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بولتے تھے تو سب خاموش ہوکر غور سے سنتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صابر اور بہادر تھے، لوگوں کے مسائل اور دیگر امور کو انتہائی وقار اور صبر ومشورے کے ساتھ حل فرماتے تھے۔
اس جمعے کے خطبے کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ہر لمحہ ہمارے لیے سبق آموز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق وسیرت تمام مسلمانوں کیلیے بہترین نمونہ ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ ہمارے پاس ایسی قیمتی تعلیمات ہیں اور ہم ان سے غافل ہیں۔ حسن اخلاق بہت ضروری اور اہم ہے، اس لیے ہمیں اپنے اخلاق کی اصلاح کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنی چاہیے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں