بابری مسجد، رام جنم بھومی کیس کا فیصلہ، اراضی 3 حصوں میں تقسیم

بابری مسجد، رام جنم بھومی کیس کا فیصلہ، اراضی 3 حصوں میں تقسیم
babriلکھنو(ایجنسیاں) بھارت کی ایک اعلیٰ عدالت نےجمعرات کو شمالی شہر اجودھیا میں شہید بابری مسجد اور اس کے آس پاس واقع جگہ کی ملکیت کے بارے میں چھے عشرے پرانے تاریخی مقدمے کا فیصلہ سنا دیا ہے اور مسجد کی اراضی تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے.

بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کی الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی لکھنؤ بنچ نے بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے سنی وقف بورڈ کی حق ملکیت کی اپیل دو ایک سے مسترد کر دی ہے۔ بنچ جسٹس ڈی ای شرما، جسٹس سدھیر اگروال اور جسٹس ایس یو خان پر مشتمل تھی۔
جسٹس ڈی وی شرما فیصلہ سنائے جانے کے بعد ریٹائر ہو گئے ہیں۔ عدالت کے فیصلہ کے تحت بابری مسجد اور اس کے آس پاس کی اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ ان میں سے ایک حصہ ہندووں کو دیا جائے گا۔ا یک حصہ مسلمانوں کے پاس رہے گا اور ایک حصہ تیسرے فریق کو دے دیا جائے گا۔
عدالت نے اس فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے بھارت کی وفاقی حکومت کو تین ماہ کا وقت دیا ہے اور تب تک”جوں کی توں”‘ صورت حال برقرار رہے گی جبکہ سنی وقف بورڈ نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
لکھنو میں الہٰ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے قبل عدالت کے احاطے اور قیصر باغ میں واقع ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ کے دفتر کے آس پاس سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ اس موقع پر ملک بھر سے آئے ہوئے مقامی اور غیر ملکی میڈیا سے وابستہ سیکڑوں صحافی عدالتی فیصلے کی رپورٹنگ کے لیے موجود تھے لیکن انہیں عدالتی کمرے تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور عدالت میں صرف مقدمے کے فریقوں اور ان کے وکلاء ہی کو جانے کی اجازت دی تھی۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کی تین رکنی بنچ بابری مسجد ملکیت مقدمے کا فیصلہ 24 ستمبر کو سنانے والی تھی لیکن اس سے ایک دن پہلے سپریم کورٹ نے ایک درخواست پر ہائی کورٹ کو فیصلے کا اعلان کرنے سے روک دیا تھا۔ تاہم تین روز بعد اسے فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی۔
بابری مسجد ملکیت مقدمے کے فیصلے کے اعلان سے قبل اجودھیامیں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کو تعینات کرکے قلعہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ اجودھیاکے جڑواں شہر فیض آباد میں بھی سیکورٹی فورسز کے ہزاروں اہلکاروں کو امن وامان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے ہائی الرٹ کر دیا گیا تھا۔ ان جڑواں شہروں میں کئی مقامات پر بھاری تعداد میں فورسز تعینات کی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر اجودھیا میں 6 دسمبر1992ء کو ڈیڑھ لاکھ کے قریب انتہا پسند ہندو بلوائیوں نے ایک سیاسی ریلی کے دوران سولہویں صدی میں تعمیر کی گئی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ ہندو تنظیموں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ جگہ بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے اور مغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے 1528ء میں مندر گرا کر اس اراضی پر بابری مسجد تعمیر کرائی تھی۔
اس وقت ریلی کا اہتمام کرنے والی ہندو تنظیموں نے بھارتی سپریم کورٹ میں یہ وعدہ کیا تھا کہ مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے جن کے نتیجے میں دو ہزار کے قریب افراد مارے گئے تھے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں