یمن:القاعدہ کے خلاف جنگ کے لیے قبائیلیوں کی بھرتی

یمن:القاعدہ کے خلاف جنگ کے لیے قبائیلیوں کی بھرتی
yemen-troops1صنعا(ایجنسیاں) یمنی حکومت القاعدہ کے خلاف جنگ میں ایک نیا تجربہ کر رہی ہے اور وہ قبائل کو اس جنگ میں جھونکنے اور القاعدہ کے جنگجوٶں کی تلاش کے لیے رقوم اور اسلحہ مہیا کر رہی ہے۔

یمنی حکومت کا یہ حربہ عراق میں امریکی فوج کی پالیسی کے مشابہ ہے جس کے دوران حملہ آورفوج نے القاعدہ کے مبینہ مزاحمت کاروں کی سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے سنی قبائل کو”بیداری کونسلوں” کے نام سے منظم کیا تھا اور اس سے القاعدہ کے جنگجوٶں پر قابوپانے میں امریکی اور عراقی فورسزکو نمایاں مددملی تھی لیکن یمن میں یہ عمل خاصا مشکل ہوگا کیونکہ وہاں طاقتور قبائل اکثراپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے مشہورہیں اوران کی بعض شاخیں القاعدہ کے جنگجوٶں کی بھی حمایت کرتی ہیں۔
حکومت کی اس پالیسی کے مخالف یمنیوں نے خبردارکیا ہے کہ اس سے صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے اور قبائل کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔یمن میں القاعدہ کے وابستگان جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے نام سے جانے جاتے ہیں.اس تنظیم کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے سیکڑوں کارکنان ہیں جو ملک کے پہاڑی علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں اور وہ اپنی کمین گاہوں سے نکل کر آئے دن مختلف علاقوں میں یمنی سکیورٹی فورسز اورغیرملکی تنصیبات پر حملےکرتے رہتے ہیں۔
یمن نے جزیرۃ العرب میں القاعدہ نامی تنظیم کے خلاف گذشتہ دسمبر میں کرسمس کے موقع پرامریکا کے ایک مسافر طیارے کو ڈیٹرائٹ ائیرپورٹ پربم دھماکے سے اڑانے کی ناکام کوشش کے بعد سے کارروائی تیز کررکھی ہے۔نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے عمرفاروق عبدالمطلب کے اس ناکام حملے کی جزیرۃ العرب میں القاعدہ نے ذمے داری قبول کی تھی۔
سوموار کو صوبہ شیبوۃ کے گورنرعلی حسن الاحمدی نے ایک تقریر میں اعلان کیا ہے کہ فوجیوں اور قبائل سے تعلق رکھنے والے جنگجوٶں کی ایک مشترکہ ٹیم پہلی مرتبہ صوبے کے ایک پہاڑی علاقے میں القاعدہ کےجنگجوٶں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔
گورنر کا کہنا ہے کہ العولقی قبیلے نے گذشتہ ہفتے ایک اجلاس میں القاعدہ کے جنگجوٶں کے خلاف تعاون سے اتفاق کیا ہے۔واضح رہے کہ العولقی صوبے کے بڑے قبائل میں سے ایک ہے اور اس کی متعددشاخیں ہیں۔یمنی نژاد نوجوان امریکی عالم دین انورالعولقی کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔
انورالعولقی نے کچھ عرصہ قبل خبردار کیا تھا کہ براک اوباما نے یمن میں امریکی فوج بھیجی تواسے افغانستان جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوں نے امریکی طیارے میں بم دھماکے کی کوشش کرنے والے عمرفاروق عبدالمطلب اور فورٹ ہڈ ٹیکساس میں ایک مسلمان فوجی افسرکے ہاتھوں امریکی فوجیوں کے قتل کی تعریف کی تھی۔
گورنرکا کہنا ہے کہ العولقی قبائل نے القاعدہ کے خلاف ہونے کا یقین دلایا ہے اورکہا ہے کہ اگران کے علاقے میں اس تنظیم کے کوئی عناصر نظرآئے تووہ ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔انورالعولقی کا نام یمن کو مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہے اور اس کا یہ مطلب یہ ہے کہ قبائل ان کی تلاش میں بھی مدددیں گے۔
یمن کے سکیورٹی حکام اور العولقی قبیلے کے متعددارکان نے بتایا ہے کہ ”حکومت القاعدہ کے جنگجوٶں کی تلاش میں مدددینے کے لیے قبیلے کے جنگجوٶں کو ماہانہ وظائف اور اسلحہ دے رہی ہے”۔
صوبہ شیبوۃ میں حکومت کی اس پالیسی کے مخالف العولقی قبیلے کی ایک شاخ کے سربراہ حسن بنان نے امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا ہے کہ القاعدہ کے جنگجوٶں کی تلاش کے لیے ڈھائی ہزار سے زیادہ قبائیلیوں کو ٹولیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ایک اور قبائلی عواد العولقی نے بتایا کہ صوبے کے قصبے السعید میں ان کے قبیلے کے ایک سواسی ارکان میں کو ایک ایک سو گولیاں تقسیم کی گئی ہیں اور انھیں روزانہ پچاس ڈالرز مشاہرہ دیا جارہا ہے۔
حسن بنان کا کہنا ہے کہ ”حکومت کی اس پالیسی سے قبائل کے درمیان افراتفری پھیلے گی اور خانہ جنگی کوہواملے گی اور اب ایک قبیلہ پالیسی کے حامیوں اور مخالفین میں بٹ چکا ہے”۔انہوں نے پالیسی کے بارے میں حکومت کی سنجیدگی پربھی عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور حکومت پرامریکیوں کو دھوکا دینے کا الزام عاید کیا ہے جو اس سال کے دوران یمن کو فوجی اور انسانی امدادکی مد میں پندرہ کروڑ ڈالرز کی امداددے رہا ہے۔
یمن کی بڑی اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے اس پالیسی کے خلاف ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت عراق میں صحوۃ کونسلوں کی تقلید کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن دوسرے ممالک کے تجربات کی نقالی شیبوۃ میں بارودی سرنگیں نصب کرنے کے مترادف ہوگی۔اس سے تباہی کے سواکچھ حاصل نہیں ہوگا اور اس کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
یادرہے کہ فروری میں امریکی وزیردفاع رابرٹ گیٹس نے یمن کے لیے مالی سال 2010ء کے دوران سکیورٹی کی مد میں امداد کے طور پر پندرہ کروڑ ڈالرز دینےکی منظوری دی تھی۔تب امریکی حکام نے بتایا تھا کہ اس رقم کو یمن کی خصوصی آپریشنز فورسزکی صلاحیت میں اضافے کے لیے استعمال کیا جائے گا تا کہ وہ القاعدہ تنظیم کے خلاف موثر اندازمیں کارروائیاں کرسکے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں