علمائے اہل سنت کے بغیرقومی اتحاد وامن کی بقا ناممکن ہے

علمائے اہل سنت کے بغیرقومی اتحاد وامن کی بقا ناممکن ہے
molana-damenخطیب اہل سنت زاہدان مولانا عبدالحمید نے اس جمعے کے خطبے میں ملک میں بڑھتے ہوئے ایک رجحان کی خبر دی جو علمائے اہل سنت کو دباؤ میں رکھ کر قومی دھارے سے انہیں دور رکھنا چاہتا ہے۔ یہ خطبہ بعض حکومتی عناصر کے سنی برادری کے ساتھ حالیہ امتیازی سلوک پر مبنی رویہ کی روشنی میں بیان ہوا ہے۔

انہوں نے اپنے بیان کا آغاز قرآنی آیت: «والذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا و إن الله لمع المحسنین» کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھا جائے تو ہمیشہ مؤمن ودیندار لوگوں نے علم اور دین سے محبت کی وجہ سے علماء کا احترام کیا ہے۔ آج بھی بیشمار لوگ اہل علم سے محبت کرتے ہیں اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی محبت دراصل دین اور علم سے ہے۔ میں خود ایک کسان اور مویشی سے گزارہ کرنے والے کا بیٹا ہوں۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ لوگوں کی محبت مجھ سمیت دیگر علماء سے صرف قرآن پاک اور دین کی وجہ سے ہے۔
حضرت شیخ الاسلام نے مزید کہا تاریخ میں دین دوست حکمرانوں نے علماء کی قدر وعزت کی ہے جو دین کی حرمت کی وجہ سے تھی۔ علماء کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عزت واحترام ان کی ذات کی وجہ سے انہیں حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ قرآن پاک، علم ودین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی برکت سے ان کا احترام کیا جاتاہے۔ علماء کو جو عزت ملی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے جب تک وہ صحیح راستے پر ہوں یہ احترام باقی رہے گا۔ جب بھی کوئی عالم دین غلط راستے پر چلے اللہ تعالی عزت وقدر اس سے واپس لے گا۔
اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد میں علماء کے حالات پر مختصراً تبصرہ کرتے ہوئے نامور سنی عالم دین نے کہا انقلاب سے پہلے جو علماء صحیح راستے پر تھے، صرف اپنی ذات اور بچوں کے لیے فکرمند نہیں تھے بلکہ سب کے درد وغم مین شریک تھے تو ان کا بھی احترام کیا جاتا تھا۔ انقلاب کے بعد چونکہ علماء ہی زیادہ تر کلیدی مناصب پر براجمان ہوئے، اس لیے عوام اپنی مشکلات کے حل کے لیے علماء سے رجوع کرتے چلے آرہے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے تاکید کرتے ہوئے کہا: میں تصریح کرکے کہتا ہوں اہل سنت کے علماء نے تین سے زائد ان عشروں میں نہ صرف سنی مسلمانوں کے مفادات کو مدنظر رکھا ہے بلکہ اہل تشیع، حتی کہ یہودیوں اور عیسائی اقلیتوں کے مفادات کو بھی ملحوظ رکھا ہے جو ایران میں آباد ہیں۔
سیستان وبلوچستان کے اسٹریٹجک لوکیشن کی اہمیت پر نظر ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا ہمارا صوبہ دو ایسے ملکوں کے پڑوس میں واقع ہے جہاں امن وامان کی صورتحال مخدوش ہے، اسی وجہ سے اس صوبے کے لیے بعض مشکلات پیش آتی رہتی ہیں۔ اگر کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے ہم نے اس کی مذمت کی ہے چنانچہ مخالف گروہوں نے ہمیں بھی مذمت کرکے توہین سے بھی دریغ نہیں کیا ہے۔ ہمارا مطمح نظر ہر حال میں ملکی مفادات اور قوم کے مفادات اور فلاح رہا ہے۔ ہم بکے ہوئے لوگ نہیں ہیں۔ ہم صرف اللہ تعالی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ مادی ومعنوی مفادات سے زیادہ اہم ہمارے لیے خالق کی مرضی وخوشنودی ہے۔ ہم صرف شیعہ وسنی کے نہیں بلکہ غیر مسلموں اور زاہدان میں آباد سکھوں کے بھی خیرخواہ ہیں۔ یہ سبق ہم نے اسلام سے سیکھا ہے اور اسلام میں فراخی و وسعت ہے۔
انہوں نے مزید کہا علمائے اہل سنت کی کوشش ہمیشہ یہ رہی ہے کہ نسلی ومذہبی اختلافات کو ختم کیا جائے اور مسلکی ولسانی بنیادوں پر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔ ہمارا طریقہ یہی ہے اور ہماری پالیسی یہی رہے گی۔ کوئی اس پر دہیاں دے یا نہ دے، ہمیں اس کی پرواہ نہیں۔
مولانا عبدالحمید نے حکومت کے سنی علماء کیخلاف حالیہ اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ایسا محسوس ہوتا ہے علمائے اہل سنت کو سائیڈ پر رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ ایک مشکوک رویہ ہے ملک میں بعض عجیب اور غیر معمولی واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہ رجحان بھی انہی میں سے ایک ہے۔
خطیب اہل سنت نے یاد دلانی کی کہ اگر ہم حکومت پر تنفید کرتے ہیں تو دشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ خیرخواہی کی بنیاد پر تنقید کرتے ہیں۔ خیرخواہ کی تنقید اس کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے حکومت یا علماء کا اثر ورسوخ مسلک کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ قومی اتحاد اور امن وامان کی صورتحال علماء کے بغیر مخدوش ہوجاتی ہے۔
بعض حکومتی رویوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا گزشتہ دنوں بعض سنی علمائے کرام کے غیر ملکی اسفار پر پابندی عائد کردی گئی ہے جو افسوسناک بات ہے۔ میری عادت نہیں کہ اپنے ذاتی مسائل اس منبر پر بتادوں لیکن دیگر علماء کے پاسپورٹ کو ضبط کرنا ان کے شہری حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ ایران ’’اسلامی‘‘ ملک ہونے کا دعویدار ہے۔ اسلامی حکومت میں سب کو آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا جتنی کانفرنسز میں، مَیں نے شرکت کرکے بات کی ہے کسی نے مجھ سے خلاف واقع اور اتحاد کو نقصان پہنچادینے والی بات نہیں سنی۔ ہماری کوشش یہی رہی کہ اگر کوئی شکوہ ہو تو اسے ملک کے اندر ہی واضح کریں اور ’’مکی مسجد‘‘ کے منبر سے اپنی بات سب تک پہنچادیں۔ ہم اسلام اور مسلمانوں کی عزت کا خواہاں ہیں۔ صرف ایران کی نہیں بلکہ سب کی عزت چاہیتے ہیں۔ ہم پوری انسانیت کے خیرخواہ ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ ہمیں ابھی تک نہیں پہچان سکے۔
ایران کے ممتاز سنی عالم دین نے امید ظاہر کی حکمران اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرکے قومی اتحاد کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا یہ انتہائی اہم اور بنیادی مسئلہ ہے۔ معاشرے کے افراد اس وقت راضی ہوں گے جب ان کے دینی رہ نماؤں کی عزت کی جائے اور ان کی آزادی سلب کرکے ان کی بے عزتی نہ کی جائے۔
دارالعلوم زاہدان کے استاد حافظ محمداسلام ملازہی کے ساتھ رونما ہونے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس سے قبل بھی شہر میں ایسے واقعات پیش آئے تھے اور بعض علماء کو نامعلوم حملہ آوروں نے چاقو سے مار کر زخمی کردیا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے بعض عناصر شہر کا امن خراب کرکے فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہتے ہین۔ ایسے حالات میں سب خبردار رہیں اور افواہوں کو نظر انداز کریں۔
مولانا عبدالحمید نے آخر میں تاکید کی کہ ہم سب کو تخریب کاری کی کوششوں کو ناکام بنادینا چاہیے۔ اس سلسلے میں سیکورٹی حکام کی دوہری ذمہ داری بنتی ہے کہ اچھی طرح اپنی ذمہ داریوں کو پوری کرکے سب کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ جو شیعہ سنی اختلافات پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کے ہاتھ روکے جائیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں