اسلام میں پردہ کی اہمیت

اسلام میں پردہ کی اہمیت
neqabبسم اللّٰہ الرحمن الرحیم. ”وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج الجاھلیة الا ولیٰ واقمن الصلوٰ ة وآتین الزکوٰة واطعن اللّٰہ ورسولہ “(الاحزاب آیت نمبر 33). ”اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو ۔ اور سابق دورجاہلیت کی سی سج دھج (بناو ،سنگار، زیب و زینت )نہ دکھا تی پھرو ۔ نماز قائم کرواور زکوٰةدو ، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ۔“

تفسیر :
۔ اصل میں لفظ ”قرن “استعمال ہوا ہے ۔ بعض اہل لغت نے اسکو ”قرار“سے ماخوذبتایا ہے ۔ اور بعض نے ”وقار“سے ۔ اگر اس کو قرار سے لیا جائے تو مطلب ہو گا ۔ سکون سے رہو “”چین سے بیٹھو“۔ دونو ں صورتوں میں آیت کا منشاءیہ ہے کہ عورت کا اصل دائر ہ عمل اس کا گھر ہے اس کو اس دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہئیںاور گھر سے باہر بضرورت ہی نکلنا چاہئے۔یہ منشاءخود آیت کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی احادیث اس کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں ۔حافظ ابو بکر بزاز حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے حضور صلى اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ساری فضیلت تو مرد لو ٹ لے گئے ، وہ جہاد کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں ہم کیا عمل کیا کریں کہ ہمیں بھی مجاہد ین کے برابر اجر مل سکے ، جواب میں فرمایا!”من قعد ت منکن فی بیتھا فانھا تد رک عمل المجاھدین“”یعنی جو تم سے گھر بیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پا لے گی “۔
مطلب یہ ہے کہ مجاہد دل جمعی کے ساتھ اسی وقت خدا کی راہ میں لڑسکتا ہے جب کہ اسے اپنے گھر کی طرف سے پورا اطمینان ہو۔اس کی بیوی اسکے گھر اوربچوں کو سنبھا لے بیٹھی ہو اور اسے کوئی خطرہ اس امر کا نہ ہو کہ پیچھے کوئی گل کھلا بیٹھے گی ۔ےہ اطمینان جو عورت اسے فراہم کرے گی وہ گھر بیٹھے اسکے جہاد میں برابر کی حصہ دار ہو گی ۔
ایک اور روایت جو بزاز و ترمذی نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے اس میں حضور نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد بیان کرتے ہیں کہ:
”ان المراة عورة فاذاخرجت استشرفھا الشیطان واقرب ماتکون برحمة ربھا وھی فی قعر بیتھا “
”یعنی عورت مستور پوشیدہ رہنے کے قابل چیز ہے جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے اور اللہ کی رحمت سے قرےب تر وہ اس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر ہو ۔
قرآن مجید کے اس صاف اور صرےح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوںکی ممبر بنیں ،بیرون خانہ کی سوشل سر گرمیوں میں دوڑتی پھریں ،سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں ،کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائےں ،مردانہ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمت انجام دیں ، ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں ”مسافر نوازی “کیلئے استعمال کی جائےں اور تعلیم و تر بیت کیلئے امریکہ وانگلستان بھیجی جائےں۔ عورت کے بیرون خانہ سرگرمیوںکے جواز میں بڑی سے بڑی جودلیل پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے جنگ جمل میں حصہ لیا تھا۔ لیکن یہ استدلال جو لو گ پیش کر تے ہیں ا نہیں شا ید معلوم نہیں ہے کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا اپنا خیال ا س بات میں کیا تھا۔عبد اللہ بن احمد بن حمل نے ”زوائدالزھد“اور ابن المنذر،ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مسروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب تلاوت قرآن مجید کرتے ہو ئے اس آیت (وقر ن فی بیوتکن )پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دو پٹا بھیگ جا تا تھا ۔
آیت نمبر 2: ”قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذلک ازکیٰ لھم ان اللّٰہ خبیر بما یصنعون ۔ وقل للمومنٰت یغضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ما ظھر منھا ولیضربن بخمر ھن علیٰ جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن او اٰبائھن او اٰبائبعولتھن او ابنآئھن او ابنآءبولتھن او اخوٰانھن او بنی اخوانھن او بنی اخوٰا تھن او نسآءھن او ما ملکت ایمانھن او لتٰبعین غیر اولی الاربةمن الرجال او الطفل الذین لم یظھر واعلیٰ عورت النسا ٓء ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن ط وتوبواالی اللّٰہ جمیعاًایہ المومنون لعلکم تفلحون۔“
”اے نبی مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ،یہ ان کےلئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے با خبر رہتا ہے ۔ او راے نبی مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں ، اور اپنی شرمگاہو ں کی حفاظت کریں او ر اپنا بناو  سنگھار نہ دکھا ئیں ۔ بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جا ئے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں اور اپنا بناو سنگھا ر ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے شوہر ، باپ ، شوہروں کے باپ ، اپنے بیٹے ، شوہروں کے بیٹے ، بھائی اور بھائیوں کے بےٹے اور بہنوں کے بیٹے ، اپنے میل جول کی عورتےں ، اپنے مملوک (غلام )وہ زبر دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پو شیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں ،وہ اپنے پاو ¿ںزمین پر مارتی ہو ئی نہ چلا کر یں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپارکھی ہو اس کا لوگوں کو علم نہ ہو جائے اور اے مومنو! سب مل کر اللہ سے توبہ کرو توقع ہے کہ فلاح پاو گے ۔
تفسیر :۔ ”غیض وبصر“یعنی نگاہوں کو بچا کر رکھنا اور نیچی رکھنے کا حکم تو مرد اور عورت دو نوں کیلئے ہے ۔لیکن مرد کے عورت کو دیکھنے کی بہ نسبت عورت کے مرد کو دیکھنے کے معاملہ میں احکام تھوڑے سے مختلف ہیں ۔حدیث میں ہمیں یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا او ر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہانبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں ، اتنے میں حضرت ابن ام مکتوم آگئے ۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے دونوں بیویوں کو فرمایا !”احتجبامنہ “”ان سے پردہ کرو ۔“بیویوں نے عرض کیا یارسو ل اللہ : ”الیس اعمیٰ لا یبصرنا ولا یعرفنا “”یا رسول اللہ کیا یہ اندھے نہیں ہیں ، نہ ہمیں دیکھیں گے اور نہ پہچانیں گے۔“فرمایا!”افعمیا وان انتما ،الستما تبصرانہ۔“”کیا تم دونوںبھی اندھی ہو ، کیا تم انہیں نہیںدیکھتےں۔“حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا تصریح کرتی ہیں کہ ذلک بعد ان امر بالحجاب ، یہ واقعہ اس زمانے کا ہے جب پر دے کا حکم آچکا تھا ۔(احمد ، ابو داود،ترمذی )
اور اس کی تائید ”مو ¿طا “کی یہ روایت کرتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک نابینا آدمی آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا ،کہا گےا کہ آپ اس سے پردہ کیوں کرتی ہیں یہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا جواب میں ام المو ¿منین نے فرمایا !”الکنی انظر الیہ“میں تو اسے دیکھ سکتی ہو ں ۔
ان احکام قرآنی کے نزول اور قرآن کی روح کے مطابق نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اسلامی معاشرے میں تعلیمات رائج فرمائےں۔
آپ نے محترم رشتہ داروں کی غیر موجود گی میں دوسرے لوگوں کو خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ں کسی عورت سے تنہا ملنے اور اس کے پاس تنہا بیٹھنے سے منع فرما دیا ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا !”لاتلجو ا علیٰ المغیبات فا ن الشیطان یجری من احدکم مجری الدم “یعنی جن عورتوں کے شوہر باہر گئے ہوئے ہیں ان کے پاس نہ جاﺅ، کیونکہ شیطان تم میں سے ایک شخص کے اندر خون کی طرح گردش کر رہا ہے ، (ترمذی)
انہی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت ہے حضور صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!”من کان یومن باللّٰہ والیوم الاٰخرفلا یخلون بامرا ¿ةٍ لیس معھا ذو محرم منھا فان ثالثٰھما الشیطان“”یعنی جو شخص اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ کبھی کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے جب تک کہ ا سکے ساتھ اس عورت کا محرم نہ ہو ،کیونکہ تیسرا اس وقت شیطان ہوتا ہے “(احمد )
آپ نے اس کو بھی جائز نہیں رکھا کہ کسی مرد کا ہاتھ کسی غیر محرم عورت کے جسم کو لگے ۔چنانچہ آپ مردوں سے بیعت تو ہاتھ میں ہاتھ لےکر کرتے تھے لیکن عورتوں سے بیعت لینے کا یہ طریقہ کبھی بھی اختےار نہیں فرمایا۔ (ابو داود ، کتاب الجزاء)
آپ نے عورت کو محرم کے بغیر تنہا یا غیر محرم کے ساتھ سفر کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمادیا ۔بخاری و مسلم میں ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور صلى اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں ارشاد فرمایا !”لا یخلون رجل بامراة الا ومعھا ذومحرم ولا تسافر المراة الا مع ذی محرم “”یعنی کوئی مرد کسی عورت سے خلوت میں نہ ملے جب تک کہ اس کے ساتھ اس کا کوئی محرم نہ ہو اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک اس کا کوئی محرم اس کے ساتھ نہ ہو ۔“
آپ نے عورتوں اور مردوں کے اختلاط کو روکنے کی عملاً بھی کو شش فرمائی اور قولاًبھی اس سے منع فرمایا۔ اسلامی زندگی میں جمعہ اور جماعت کی جو اہمیت ہے کسی صاحب علم سے پوشیدہ نہیںجمعہ کو اللہ نے خو د فرض کیا ہے اور نماز باجماعت کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص بلاعذرمسجد میںحاضر نہ ہو اور اپنے گھر میں نماز پڑھے تو نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق اس کی نماز مقبول نہیں ہو تی لیکن حضور صلى اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جمعہ کی فرضیت سے مستثنیٰ قرار دیا اور نماز با جماعت میں نہ صرف یہ کہ عورتوں کی شرکت لازم نہیں رکھی بلکہ اس کی اجازت ان الفاظ میں دی کہ اگر آنا چاہیں تو انہیں روکو نہیں۔پھر اس کے بعد یہ تصریح فرما دی کہ ان کے لئے گھر کی نماز مسجد کی نماز سے افضل ہے ۔
حضرت ابن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حضور صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !”لا تمنعو اما ءاللّٰہ مساجد اللّٰہ۔ “”یعنی اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجد وں میں آنے سے منع نہ کرو ۔“
دوسر ی روایت میںحضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے ان الفاظ اور ان سے ملتے جلتے الفاظ میں ہے ۔”ائذنوا اللنساءالی المساجد با للیل “”یعنی عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں آنے کی اجازت دو ۔“
اور ایک اور روایت ان الفاظ میں ہے ۔”لا تمنعو النسائکم المساجد و بیوتھن خیرلھن “”یعنی اپنی عورتوں کو مسجد وں میںآنے سے روکو نہیں ،اگر چہ ان کے گھر ان کے لئے زیادہ بہتر ہیں ۔“
ام حمیہ ساعد یہ کہتی ہیں کہ یا رسول اللہ ! مجھے آپ کے پیچھےنماز پڑھنے کا بڑا شوق ہے فرمایا تمہا را اپنے کمرے میں نماز پڑھنا برآمدے میں پڑھنے سے زیا دہ بہتر ہے اور تمہا را اپنے گھر میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے زیا دہ بہتر ہے اور تمہا را اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا جا مع مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے ۔
”قریب قریب اس مضمون کی روایت ابو داو ¿د میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں ۔“
”خیر مساجد النسآءقعر بیوتھن “
”یعنی عورتوں کے لئے بہترين مسجد ان کے گھروں کے اندر ونی حصے ہیں ۔“لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دوربنی اُمیہ کی حالت دیکھ کر فرماتی ہیں ”اگر نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم عورتوں کے یہ رنگ ڈھنگ دیکھتے جو اب ہیں تو ان کا مسجدوں میں آنا اسی طرح بند فرمادیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کا بند کیا گیا تھا ۔“
مسجد نبوی میں حضور صلى اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے داخل ہو نے کےلئے ایک الگ دروازہ مخصوص کر دیا تھا اور حضرت عمررضی اللہ عنہ اپنے دور حکومت میں مردو ں کو اس دروازے سے آنے جانے کی سخت ممانعت فرماتے ۔
جماعت میں عورتوں کی صفیں مردوں سے پیچھے رکھی جاتی تھیں اور نماز کے خاتمے پر حضور صلى اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد کچھ دیر توقف فرماتے تھے تا کہ مردوں کے اُٹھنے سے پہلے عورتیں اُٹھ کر چلی جائیں ۔
آپ کا ارشاد تھا کہ مردوں کی بہترین صف سب سے آگے کی صف اور بدتریں صف سب سے پیچھے (یعنی عورتوںکے قریب )کی صف اور عورتوں کی بہترین صف سب سے پیچھے کی صف اور سب سے بد ترین صف سب سے آگے کی(یعنی مردوں کی صف)ہے ۔
عید کی نماز میں عورتیں شریک ہوتی تھیں مگر ان کی جگہ مردوں سے الگ تھی اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم خطبے کے بعد عورتوںکی طرف جا کے ان سے الگ خطاب فرماتے تھے ۔
ایک مرتبہ مسجد نبوی کے باہر آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ راستے میں مرد اور عورت سب گڈ مڈ ہو گئے ہیں اس پر آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا !”استاخر ن فانہ لیس لکن ان تحتضن الطریق علیکن بجانبا ت الطریق ۔“”یعنی پھر جا و،تمہارے لئے سروں کے بیچ میں چلنا درست نہیں ۔ کنارے پر چلو۔“یہ ارشاد سنتے ہی عورتیں کنارے ہو کر دیوار کے ساتھ ساتھ چلنے لگیں ۔
ان احکام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں اور مردو ں کی مخلوط مجلس اسلام کے مزاج سے کیسی سخت مغائر ت رکھتی ہے ۔ جو دین خدا کے گھر میں عبادت کے موقع پربھی دونوںصنفوں کوخلط ملط نہیں ہو نے دیتا اس کے متعلق کون تصور کر سکتا ہے کہ وہ عور ت کو وزیر اعظم ، وزیر ،چیف جسٹس بننے کی اجازت دے گا اور اسمبلیوں ،پارلیمنٹوں ،ملک غیر ملک میں مسلمان تو در کنار کافروں سے مصافحہ کرنے ، ہاتھ ملانے ، تنہائی میں بیٹھ کر باتیں کرنے جیسے کہ کہا جا تا ہے کہ فلاں فلاں وزیر یاصدر نے ایک گھنٹہ تک تخلیہ میں باتےں کیں۔ جبکہ کوئی دوسرا اس مجلس میں شریک نہیں تھا اور کا لجوں میں ،دفتروں میں،کلبوں میں اور جلسوں میں اسی اختلاط کو جائز رکھے گا ۔
آیت نمبر 3:”یٰنساءالنبی لستن کاحد من النساءان تقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولاًمعروفا۔“ ”اے نبی کی بیویو ! تم دوسری عورتوںکی طرح نہیں ہو اگر اللہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کیا کرو کہ وہ شخص تمہارے بار ے میں کچھ طمع کرنے لگے ۔ جس کے دل میں روگ ہو ۔ ہا ں اچھی بات کرو ۔
طریق استدلال :۔ یہاں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی پاک بیویوں اور ازواج مطہرات سے فرمایا جا رہا ہے کہ اگر پردے کے پیچھے سے بھی کسی مرد سے بات کرنا پڑ جا ئے تو ایسے سخت اور کرخت لہجے میں بات کیاکرو کہ دل کے بیمار اور غلط آدمی اپنی کوئی غلط اُمید نہ باند ھ سکے اور تمہا رے لہجے میں نزاکت نہ آئے اور بات میں لچک نہ ہو ۔
اب دیکھئے کہ یہاں با ت نبی پاک صلى اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی ہو رہی ہے اورپھرپردے کے پیچھے سے گھر میں با پردہ ہو نے کی حالت میں اگر با ہر سے کوئی مرددروازے پر آجائے اور اس سے ضروری کوئی بات کرنی پڑجائے تو ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ اس حالت میں بھی تمہارا لہجہ سخت ہو نا چاہیے۔اسی کی روشنی میں دیکھ لیجئے کہ کیا کسی آج کل کی جوان عورت کو وزیریا مشیر بن کر غیر محرموں سے نرم نرم باتیں کرنے کی اسلام میں کسی گنجائش کا تصور کیا جا سکتا ہے ۔ مذکورہ بالا قرآنی دلائل پڑھ کر موجودہ دورکی آزاد سوچ عورتوں کو اللہ تعالیٰ راہ ہدایت نصیب فرمائے ۔آمین !

تحریر۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے
بہ شکریہ ادارہ اردوپاورنیٹ ورک


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں