جامعہ الازہر: قبطی پادری کی قرآن سے متعلق ہرزہ سرائی پر شدید مذمت

جامعہ الازہر: قبطی پادری کی قرآن سے متعلق ہرزہ سرائی پر شدید مذمت
bishopقاہرہ(العربیہ۔نیٹ) مصر کی جامعہ الازہر نے ہفتے کے روز ایک بیان جاری کیا ہے جس میں ایک سرکردہ قبطی عیسائی پادری کے اس ہرزہ سرائی کی شدید مذمت کی گئی ہے، جس میں اس نے کہا تھا کہ اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کے مکمل نزول کے بعد اس میں بعض آیات کا اضافہ کیا گیا تھا۔
قاہرہ میں جامعہ الازہر کے اسلامی تحقیقی مرکز کے ارکان کا شیخ الجامعہ الشیخ احمد الطیب کی سربراہی میں ہفتے کے روز ہنگامی اجلاس ہوا جس میں مصر کے قبطی پادری کے اشتعال انگیز ریمارکس پر غور کیا گیا اور اسے انتہائی انتہائی غیر ذمے دارانہ قرار دیا گیا۔

ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”اس غیر ذمے دارانہ رویے سے سب سے پہلے تو ہمارے قومی اتحادکے لیے خطرات پیدا ہو گئے ہیں حالانکہ اس وقت ہمیں اس اتحاد کے تحفظ اور اس حمایت کی اشد ضرورت ہے”۔
قبطی چرچ ہولی صناد کے سیکرٹری بشپ بیشوئی نے گذشتہ ہفتے اپنی جہالت کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے یہ ہرزہ سرائی کی تھی کہ مسلمانوں کی الہامی کتاب قرآن مجید میں بعض آیات کو پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چند سال بعد شامل کیا گیا تھا۔اس طرح اس پادری نے اپنی لاعلمی کی بنا پر تدوین قرآن کے مرحلے کو تصنیف قرآن سے گڈ مڈ کرنے کی کوشش کی تھی۔
جامعہ الازہرکی جانب سے العربیہ کو موصول ہونے والے بیان کے مطابق:”اس غیر ذمے دارانہ رویے کا مقصد اسلام ،مسلمانوں ،ان کی ثقافت اور تہذیب کے خلاف دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرنا ہے۔جو لوگ یہ ہرزہ سرائی کر رہے ہیں، انہیں کم سے کم قومی سطح کی ذمے داری تک ہی بلند ہو جانا چاہیے، انہیں اپنے بیانات پر نظرثانی کرنی چاہیے اور خود کو اپنے ہوش وحواس میں ہونے کا ثبوت فراہم کرنا چاہیے”۔
جامعہ الازہر نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ”اگر دنیا کے عالی دماغ لوگ مغرب میں بعض لوگوں کی جانب سے قرآن مجید کی توہین کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں تو مصر کے مسلم اور عیسائی دانشوروں کو بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے کسی بھی مذہب کی توہین کی ناپاک جسارت کا منہ توڑ جواب دینا چاہیے اور اس کی مذمت کرنی چاہیے”۔
واضح رہے کہ قبرص میں مصری سفیر کے ساتھ ایک حالیہ ملاقات کے دوران پادری بیشوئی نے یہ ہرزہ سرائی کی تھی کہ قرآن مجید کی بعض آیات عیسائی عقیدے کے خلاف ہیں اور وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ آیات قرآن مجید میں بعد میں خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور میں شامل کی گئی تھیں۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کی حفاظت کی ذمے داری اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے اس میں کسی مقام پر بھی کسی زیر،زبروپیش کی کمی وبیشی نہیں کی جاسکتی۔اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے جلیل القدر فرشتے حضرت جبریل علیہ السلام زبانی شکل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرتئیس سال کے عرصے میں لے کرآئے تھے۔جوں جوں قرآن مجید نازل ہوتا رہا،اس کوکتابی شکل بھی دی جاتی رہی اور پیغمبراسلام کے اس دنیا سے جانے تک یہ مکمل کتابی شکل میں موجود تھا۔بعدمیں خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دورمیں اس کی کاتبین وحی کی مدد سے موجودہ شکل میں ترتیب دی گئی تھی اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورمیں اسے قریش عرب کے لہجے کے مطابق مدون کیا گیا تھا۔

مسلمانوں کا شدید ردعمل

قبطی پادری کے ان توہین آمیز ریمارکس پر مسلم اور عیسائی لیڈروں۔۔۔۔۔۔ دونوں نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیداہوسکتی ہے۔اس پر بیشوئی نے بدھ کو ایک لیکچر کے دوران کہا تھا کہ ان کے ریمارکس کے حوالے سے ایک غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے۔
مصری روزنامے المصری الیوم میں شائع ہونے والے ایک بیان کے مطابق پادری بیشوئی نے قاہرہ کے جنوب میں واقع فایوم کے مقام پرایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”میرایہ سوال کہ قرآن مجید کی بعض آیات پیغمبراسلام کی وفات کے بعدشامل کی گئی تھیں،ایک تنقید یا الزام نہیں ہے بلکہ یہ بعض آیات کے حوالے سے ایک سوال ہے جن کے بارے میں میراعقیدہ ہے کہ وہ عیسائی عقیدے کے منافی ہیں”۔
بیشوئی کا کہنا تھا کہ ”میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ بیان اسلام پر حملہ کیسے ہوسکتا ہے”۔لیکن اس پادری نے ان آیات کا کوئی حوالہ نہِیں دیا جو ان کے خیال میں عیسائی عقیدے کے منافی ہیں اور جنہیں بعدمیں قرآن میں شامل کیا گیا تھا۔البتہ پادری کا اصرارہے کہ ان کے ریمارکس کو سیاق وسباق سے ہٹ کرلیا گیا ہے۔
مگراپنی ہرزہ سرائی کی الٹی منطق پیش کرنے والے پادری نے اس حوالے سے کچھ نہیں کہا کہ اس سے بڑااسلام پر اور کیاحملہ ہوسکتا ہے ہے کہ مسلمانوں کی کتاب ہدایت پرانگلی اٹھائی جارہی ہے اور اسے وہ تنقید بھی نہیں سمجھتے۔
مصر کی مذہبی اوقاف کی وزارت کے نائب وزیرسالم عبدالجلیل نے بھی پادری کے بیان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔حزب اختلاف کے اخبار الوفد میں شائع ہونے والے بیان کے مطابق نائب وزیرنے کہا کہ ”مسلمانوں کا عقیدہ ایک سرخ لکیرہے اوراس پرکسی بھی طرح اورکسی بھی انداز میں کوئی غیرمسلم بحث نہیں کرسکتا۔بالکل اسی طرح جس طرح ہم غیر مسلموں کے عقیدے کے بارے میں کوئی بحث نہیں کرتے”۔
مصری آئین کے تحت آزادی اظہارکی ضمانت دی گئی ہے لیکن مذہبی معاملات کے حوالے سے بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کیونکہ مصر میں متعدد مرتبہ مسلمانوں اورعیسائیوں کے درمیان مذہبی کشیدگی کے نتیجے میں پُرتشدد واقعات رونما ہوچکے ہیں۔
اس وقت تین مسلمانوں کے خلاف مصر کے جنوبی شہر نجاہ حمادی میں چھے قبطی عیسائیوں کو قتل کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا جارہا ہے۔قبطی عیسائی مصر کی کل آٹھ کروڑ آبادی کا چھے سے دس فی صد ہیں اور وہ حکام کی جانب سےمنظم طریقے سے خود کودیوارسے لگانے کی جائزوناجائزشکایات کرتے رہتے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں