رمضان المبارک، سیلاب اور دعائیں- – – سچ تو یہ ہے

رمضان المبارک، سیلاب اور دعائیں- – – سچ تو یہ ہے
ramadan3رمضان المبارک رحمتوں ،برکتوں اور مغفرتوں والا مہینہ ہے،یہ مہینہ اسلامی تقویم (کیلنڈر) میں بہت اہم مہینہ ہے کیونکہ اسی مبارک مہینے میں قرآن مجید جیسی اعلیٰ، متبرک، محترم اور مقدس کتاب کے نزول کاآغاز ہوا تھا ۔ بہت سارے دوسرے اہم واقعات کے علاوہ اسی مہینے میں مقدس شہر مکةالمکرمہ بھی فتح ہوا تھا ۔

اس مہینے کی اہمیت کے پیش نظر ہر مسلم اس کی آمد پر بے انتہا خوشی کا اظہار کرتا ہے، ساتھ ہی اپنے مسلم بھائیوں اور بہنوں کو مبا رک باد بھی دیتا ہے۔سبھی اہل اسلام کی طرح سے میرا دل بھی یہی چاہتا ہے کہ میں اپنے سبھی جاننے والوں اور اپنے قارئین کو رمضان المبارک کی آمد پر مبارک باد کے پیغام دیتا اور انتہائی خوشی کا اظہار بھی کرتا ۔
سردست میں اپنے سبھی قارئین اور خیر خواہوں کو رمضان المبارک کی آمد پر مبارک باد دیتا ہوں اور یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ کریم ہم سب اہل اسلام کی نیکیوں اور عبادات کو منظور مقبول فرمائیں اور سبھی اہل اسلام پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرمانے کے ساتھ ساتھ ہم سب زندوں اور ہم سے پہلے گذر گئے مسلمین کی مغفرت فرمائیں ؛آمین ثم آمین!!!
جہاں تک خوشی کے اظہار کی بات ہے سچ تو یہ ہے کہ گذشتہ دوسال کی طرح سے میں اس سال بھی پریشان ،رنجیدہ اور اداس ہوں ۔میری یہ رنجیدگی، اداسی اور پریشانی ذاتی نہیں ہے، بلکہ قومی و ملی رنجیدگی ،اداسی اور پریشانی ہے ۔ اس سال رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی پوراملک سیلابی ریلوں کی زد پر ہے۔ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق اس وقت تک سوا ءکروڑ پاکستانی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جب کہ سرکاری اطلاعات کے مطابق ڈیڑھ ہزار سے زائد لوگ سیلاب کے سبب ہلاک ہوئے ہیں ۔مگر سرکاری اعداد وشمار پر یقین کرنے کو دل نہیں چاہت اکیونکہ تیسری دنیا کے ممالک میں اگر کوئی حکومت کوئی اچھا کام کرے تو اسے اصل سے کئی گنابڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے ۔
اگر کسی قدرتی آفت یا کسی انسانی غفلت کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان ہو جائے تو اصل حقیقت پر پردے ڈال کرجھوٹے اعداد و شمار کا ڈرامہ رچا یا جاتا ہے اور اصل اعداد کو کئی گنا گھٹا کر بیان کیا جاتا ہے۔ پاکستانی حکومت بھی یقینا ایسا ہی کر رہی ہے، تاکہ عوام کو گمراہ کیا جا سکے ۔
اس وقت لاکھوں لوگ کسی امداد سے محروم بھوکے اورپیاسے ہیں ۔ان کی بے بسی اور بے سرومانی ناقابل بیان ہے۔ ان کے سروں پر نہ تو کوئی سائبان ہے اور نہ ہی وہ کسی محفوظ مقام پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔پاکستان میں جب بھی کوئی بڑی آفت اور مصیبت آتی ہے تو حکومتی نمائندوں اور حکومتی اداروں کا دور دور تک نام ونشان نظر نہیں آتا ، البتہ کچھ مذہبی اور فلاحی تنظیمیں کام کرتی نظر آتی ہیں یا پھر فوج دکھائی دے جاتی ہے جو کہ امدادی کام کررہی ہوتی ہے یا متاثرین کو خوراک وغیرہ پہنچانے کا کام کررہی ہوتی ہے۔ ہمار ا سرکاری میڈیا جوکہ اندھا اور جانبدار ہے ،اس کو ایسے وقت میں صرف فوج نظر آتی ہے یا پھر چند ایسی تنظیمیں جن کا کام تصاویر کھینچوانا ، کانفرنسیں کرنااور غیر ملکی امداد حاصل کرنا ہوتا ہے ۔
جہاں تک فوج کا تعلق ہے اس کے کردار کو بھی کچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا کر اور ایسے انداز میں بیان کیا جاتا ہے، جیسے کہ وہ عوام پر کوئی احسان کر رہی ہے ۔ حالانکہ ہماری فوج ہمارے ملک کا نصف بجٹ ڈکار لئے بغیر ہضم کرجاتی ہے مگر جب کسی حقیقی دشمن سے نبردآزمائی کا وقت آتا ہے تو نوے ہزار کی تعداد میں ہتھیار ڈال دیتی ہے یا سواتی اور بلوچی مسلمانوں جیسے پر امن اور معصوم لوگوں پر چڑھائی کر دیتی ہے یا پھر لال مسجد اور اس سے ملحقہ مدرسے جامعہ حفصہ کو گولہ بارود اور فاسفورس بموں سے جہنم بنا دیتی ہے ۔
آزاد پاکستانی میڈیا کے مطابق سیلاب زدگان کی اکثریت کی حالت زار نہایت ہی افسوس ناک ہے کیونکہ ان کے پاس نہ تو کھانے کو روٹی ہے اور نہ ہی پینے کو صاف پانی ہے ۔سیلاب زدگان کی صورت حال یہ ہے کہ وہ کئی کئی دن کے بھوکے اور پیاسے ہیں اور دودھ پیتے بچے بھوک اور پیاس سے بلک رہے ہیں ۔ایسے میں سیلاب سے متاثرہ افراد پوچھ رہے ہیں کہ کہاں ہے سرکاری امداد اور کہاں ہیں وہ سرکاری نمائندے جن کی لائیو کوریج ہرروزٹی وی چینل پر کی جارہی ہے ؟ سیلاب میں گھرے ہوئے بھوکے پیاسے اور نیم عریاں لوگ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ کہاں ہے امریکہ سے آنے والا پکا پکایا کھانا جس کا اعلان پاکستان میں متعین امریکن وائسرائے این ڈبلیو پیٹرسن نے کیا تھا؟؟؟
آزاد مغربی میڈیا جسے ایونجیکل اور صہیونی میڈیا کہنا زیادہ مناسب ہے شور مچا رہا ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد میں جہادی تنظیمیں پیش پیش ہیں وہ ہر جگہ کام کرتی نظرآرہی ہیں۔ ایونجیکل اور صہیونی میڈیاکا کہنا ہے کہ جہادی تنظیمیں اس جگہ بھی کام کرتی نظر آرہی ہیں جہاں پر فوج بھی نہیں پہنچ پائی ہے ۔ ایونجیکل اور صہیونی میڈیا کو یہی ڈر اور خوف ہے کہ انہوں نے اپنے پاکستانی غلاموں کے ساتھ مل کر جہادی تنظیموں کے خلاف جو جھوٹا تاثر پاکستانی عوام کے ذہنوں میں قائم کیا ہے۔
سیلاب زدگان میں امدادی کام کرنے کے نتیجے میں وہ جھوٹا اور غلط تاثر زائل ہو جائے گا ۔یہی وجہِ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک کے لیڈر اورمنتخب عوامی نمائندگان ،پاکستانی لیڈروں سے پوچھ رہے ہیں” کہاں ہیں وہ این جی اوز جو کہ پاکستانی انتظامیہ کے چھتر چھایا میں کام کرتی ہیں اور ہر سال کروڑوں ڈالر ہضم کر جاتی ہیں ؟“
پچھلے سال سے پچھلے سال میں اس لئے اداس، پریشان اور رنجیدہ تھا کیونکہ پاکستان کے دارالحکومت میں، جس کااصل نام تو اسلام آباد ہی ہے، مگر گذشتہ دس برسوں سے صہیونیوں اوران کے ایجنٹوں کے قبضے کے بعد عملاً کفر آباد بن چکا ہے ۔ مسلم اکثریت رکھنے والے اس بھرے پورے شہر میں سینکڑوں معصوم انسانوں کو گولا بارود اور آگ برسا کر کوئلہ بنا دیا گیا تھا، ان بے چاروں کا قصور صرف اتناتھا کہ وہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو اسلامی مملکت بنانا چاہتے تھے۔
لال مسجد اور اس سے ملحقہ جامعہ حفصہ کو کسی جنگی قلعے کی طرح سے باقاعدہ گھیرے میں لے کر،ان کا پانی و بجلی بند کر نے کے بعد ، نہتے ،بے بس اور کم عمر بھوکے پیاسے طلبا وطالبات اور ان کے اساتذہ پر جس قسم کا جارحانہ حملہ ہمارے ملک کی فوج نے کیا تھا ،اس بدترین قسم کے ظالمانہ عمل کی مثال تو کسی غیر مسلم معاشرے میں بھی نہیں ملتی ہے ۔ اس وقت بھی میں نے پاکستانی عوام سے یہی اپیل کی تھی کہ ہمیں اس فاشزم اور بے دینی کے طوفان کے آگے بند باندھنا چاہئے۔ افسوس صد افسوس!!! اس وقت میری درخواست کسی نے بھی نہ سنی تھی ۔
گذشتہ برس میں اس لئے رنجیدہ ،اداس اور پریشان تھا کہ پچیس، تیس لاکھ معصوم اور بے گناہ سواتی مسلمان امریکہ کے حکم پر محض اس لئے بے گھر کر دیے گئے تھے کہ انہوں نے اپنے علاقے میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا تھا ۔ یادرہے کہ جب ہندوستان پر برٹش راج تھا، اس دور میں بھی ریاست سوات میں اسلام کا نظام ِ عدل وانصاف قائم تھا ۔یاد رہے کہ سوات پر حکمرانی کرنے والے سبھی والی (حکمران)عوام دوست ، رحمدل اور عادل حکمران تھے ۔ سواتی والیوں کا دور ایک مثالی اور سنہرادور تھا ۔ ظلم کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد، ہمارے ملک کے نام نہاد مسلمان حکمرانوں نے سواتی مسلمانوں سے یہ اعلیٰ وارفع نظام چھین لیا تھا ۔
جن لوگوں نے پاکستان بننے سے قبل کی تاریخ ِ سوات کا مطالعہ کیا ہوا ہے یا جو لوگ اپنے ہوش و حواس میں کبھی سوات گئے ہیں وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ ریاست سوات میں چوری، زنا اور دیگر اخلاقی جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ نوے کی دہائی تک سوات کے سب سے بڑے شہر منگورہ میں اس قدر امن اور چین تھا کہ گلیوں اور محلوں کے رہنے والے لوگ باگ جب اپنے گھروں سے باہر جاتے تھے اور گھر میں کوئی فرد نہ ہوتا تھا تو وہ اپنے گھر کو تالہ نہ لگاتے تھے،صرف اپنے بیرونی دروازے کو کنڈی لگا کر اوراپنے پڑوسی کو اطلاع دے کر چلے جاتے تھے۔
گذشتہ برس جب ایک معاہدے کے تحت سوات میں اسلام کا نظام ِعدل و انصاف قائم کرنے کا معاہدہ ہواتھا تو معاہدے کو ناکام بنانے کے لئے، معاہدے کے فوراً بعد ہی صہیونیوں کے ایجنٹوں نے اپنے آقاؤں کے حکم پرسوات کے امن و امان کو تہہ وبالا کر دیا تھا ۔ اس کے بعد کیا ہوا تھا؟ سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ میں بیٹھے ہوئے ایونجیکل حکمرانوں نے سوات پرحملے کا حکم دیا تھا، جسے ہمارے ملک کے صہیونی حکمرانوں اور قادیانی جرنیلوں نے بلا پس و پیش قبول کر لیا تھا ۔ اس کے بعد تو سواتی مسلمانوں پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی تھی ۔
سبھی کو یاد ہی ہوگاکہ جو سواتی بھائی اور بہنیں گذشتہ برس اپنے گھروں سے زبردستی بے دخل کئے گئے تھے، ان کو ناقابل برداشت گرمی اور شدید حبس میں ایک ایسی ذلالت کا سامنا کرنا پڑا تھا ، جس کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہی ہے ۔ گذشتہ برس میں نے صہیونی لابی کی سازشوں کا پردہ بھی فاش کیا تھا اور سواتی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر احتجاج بھی کیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ ہم سبھی پاکستانیوں کو ایک آواز ہو کر ان مظالم کے خلاف اپنی آواز اٹھانی چاہئے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ میری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی تھی۔
میں جو محسوس کرتا ہوں لکھ دیا کرتا ہوں ۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نیک اور پارسا مسلمان نہیں ہوں ۔مجھے یہ بھی اقرار ہے کہ میں اس دنیا کا سب سے زیادہ بدکار اور گناہ گار شخص ہوں مگر پھر بھی میں یہ دیکھ رہا ہوں اور محسوس بھی کر رہا ہوں کہ ہم پاکستانی مسلمان ایمان کی جس سطح پر آج سے دوسال قبل تھے ، پچھلے سال ایمان کی اس سطح سے نیچے آچکے تھے اور ایمان کی جس سطح پر پچھلے سال تھے، موجودہ سال ایمان کی اس سطح سے بھی نیچے آچکے ہیں ۔ میرے پاس مثالیں تو ان گنت ہیں مگر اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے، میں صرف ایک شعبے سے دو مثالیں دوں گا۔
(۱) پچھلے ایک برس کے دوران اگر کسی ایم پی اے ،ایم این اے یا سینِٹر کی ڈگری جعلی نکلی ہے اور ڈگری کے جعلی ہونے پر ایسے جھوٹے اور ڈاکو شخص کو اپنی سیٹ سے مستعفی ہونا پڑا ہے تو وہی شخص اسی سیٹ سے عوام کے ووٹوں سے دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی میں آگیا ہے ۔ ایسے شخص کو میں تو جھوٹا اور ڈاکو ہی لکھوں گا کیونکہ اگر وہ شخص جعلی ڈگری لے کر نہ آتا تو وہ انتخاب میں حصہ نہ لے سکتا، یوں اس کی بجائے ایک اصل ڈگری ہولڈر شخص منتخب ہو کر اسمبلی پہنچتا۔ آپ ہی بتائیں کہ جعلی ڈگری پیش کرنا جھوٹ نہیں ہے تو کیا ہے؟
جعلی ڈگری رکھنے والا ڈاکو یوں ہوا کہ اس نے جعلی ڈگری( جھوٹ) کی بنیاد پر انتخاب لڑا۔ منتخب ہونے کے بعد غریب عوام پر لگائے جانے والے بھاری ٹیکسوں سے حاصل شدہ رقم سے مراعات حاصل کیں ۔ جن مراعات کا حقیقت میں وہ شخص مستحق نہ تھا ۔ یہ گھناؤنا عمل کرکے ،درحقیقت اس جھوٹے اور ڈاکو نے ہماری جیبوں پر ڈاکہ ڈالا ہے ۔
(۲)اخبارات میں ایسی خبریں بڑے ہی تواتر سے چھپتی رہتی ہیں کہ فلاں عوامی نمائندے کے فلاں عورت یا اپنی پارٹی کی رکن یا اسمبلی ممبر سے جنسی تعلقات ہیں اخبارات اس کے ثبوت بھی فراہم کر دیتے ہیں مگر وہ بدذات زانی یا زانیہ، جب کسی اجلاس میں شرکت کرتا ہے توایسے بدکار شخص سے اظہار نفرت کرنے کی بجائے اس کی راہ میں نہ صرف دیدہ ودل بچھائے جاتے ہیں بلکہ اس کے لئے زندہ باد کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں ۔
جو لوگ قرآن مجید فرقانِ حمید کا علم رکھتے ہیں وہی بتائیں کہ جھوٹوں، ڈاکوؤں اور زانیوں کو اپنا لیڈر منتخب کرنے والے عوام، کیا اللہ قہار کے عذاب سے بچ سکتے ہیں ؟
سبھی کو یاد ہوگا کہ دوسال قبل لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فوجی آپریشن کے نتیجے میں سینکڑوں معصوم لوگ شہید ہوئے تھے، جبکہ ہزاروں لوگ متاثر ہوئے تھے ۔ ایک سال قبل سوات پر فوجی حملے کے نتیجے میں ہزاروں معصوم جانیں شہید ہوئی تھیں لاکھوں لوگ متاثر ہوئے تھے ۔
جن بد بختوں کے پاس قلم تھا ،ان بدبختوں نے قلم کے ساتھ اور جن ظالموں پاس کسی قسم کا کوئی بھی اختیار تھا ،ان ظالموں نے اپنے اختیار ات کے ساتھ حکومت کے غلط اقدامات کی حمایت کی تھی ۔جو لوگ نہ تو قلم رکھتے تھے اور نہ ہی کسی قسم کا اختیار رکھتے تھے وہ لوگ زبان سے تو اس ظالمانہ عمل کی مخالفت کر سکتے تھے ۔اگر وہ زبان سے کچھ کہنے کا حوصلہ اور ہمت نہ رکھتے تھے، کم از کم اپنے دل میں تو اس ظلم کو ظلم اور برائی کو برائی سمجھ سکتے تھے اور وقت آنے پر، اپنے ووٹوں کی طاقت سے اپنی نفرت اور رائے کا اظہار کرسکتے تھے ۔
رنج اورافسوس تو اس بات پر ہے کہ مذکورہ دونوں مواقع پر ہمارے ملک کی اکثریت نے نہ صرف خاموشی اختیار کی ہے بلکہ الٹاچوروں، ڈاکوؤں اور زانیوں کو اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیج کر یہ ثابت کردیا ہے ،وہ ان کی اخلاقی برائیوں اور انسانیت سوز مظالم کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر پاکستان کے عوام کی اکثریت نے حکمرانوں کو ملکی خزانے کی لوٹ مار اور اہل ایمان کو پکڑنے ،ان پر ظلم ستم کرنے اور ان کو ناجائز قتل کرنے کا مینڈیٹ جاری کردیا ہے ۔
پاکستان کے عوام یہ بات یاد رکھیں کہ اللہ مالک و خالق ایک ایسی کافر حکومت کو تو برداشت کرسکتے ہیں، جس کافر حکومت تحت ملک میں عدل وانصاف قائم ہو مگر ظلم و ستم اوربے انصافی کرنے والے نظام ِحکومت کو برداشت نہیں کرتے ہیں ۔
اللہ مالک و خالق کسی بھی ظالم شخص یا حکومت کو کچھ عرصہ کے لئے تو چھوٹ دیا کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی اصلاح کر لے،اگر کوئی ظالم شخص یا حکومت اپنی اصلاح نہ کرے توجلد یا بدیر اس پر عذاب کا کوڑا نازل ہوا ہی کرتا ہے ۔
جس مقدس اور مبارک کتاب کی پہلی وحی کا نزول رمضان المبارک میں ہوا ہے ،اسی مقدس اور مبارک کتاب قرآن مجید کو خود ہی پڑھ کر دیکھ لیں کہ اس میں مذکور ہے کہ کسی شخص پر آفت یا مصیبت اس کے اعمال سیاہ کے نتیجے میں نازل ہوا کرتی ہے۔ ورنہ اللہ کریم اتنے ظالم نہیں ہیں کہ بلاوجَہ اپنی مخلوق کو آفت اور مصیبت میں مبتلا فرمائیں۔
قرآن مجید میں ماضی کی مظلوم اور حال کی ظالم قوم بنی اسرائیل کا قصہ متعدد مقامات پر موجود ہے ۔جس مغضوب قوم کا حکم مان کر، ہمارے ملک کے بدکردار حکمران اور قادیانی فوجی جرنیل پاکستان کے مسلم عوام پر ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں اور ان کو بلاوجہِ قتل کیے جارہے ہیں ۔
قرآن مجید میں بڑے واضح الفاظ میں مذکور ہے کہ جب فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے منع کرنے کے باوجود بنی اسرائیل پر ظلم وستم ڈھانے بند نہ کئے تھے تو ابتدا میں ان کی سرزنش( وارننگ) کے لئے چھوٹے موٹے عذاب آئے تھے، تاکہ وہ قومِ اسرائیل پر ستم ڈھانے بند کردیں اور ان کو آزاد کردیں ۔ قرآن کریم میں لکھا ہوا ہے کہ فرعون اور اس کی قوم عذاب دیکھ کر ڈر جاتے تھے اور موسیٰ علیہ السلام سے یہ وعدہ کیاکرتے تھے اگر یہ عذاب ٹل جائے تو وہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے۔
یوں فرعون اور اس کے حواری فریب سے موسی کلیم اللہ سے عذاب کے ٹل جانے کی دعا کرواتے تھے مگر جب عذاب ٹل جایا کرتا تھا تو وہ اپنے وعدے سے مکر جایا کرتے تھے ،پھر اللہ مالک و خالق قوم فرعون پر کوئی دوسرا عذاب نازل کرتے تھے تو فرعون پھر سے موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل کو آزاد کرنے کے وعدے پر عذاب کے ٹل جانے کی دعا کروایا کرتا تھا اورعذاب کے ٹل جانے پر اپنے وعدے سے پھر جا یا کرتا تھا ۔
ایسے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ ہوا تھا مگر جب فرعون اور قوم فرعون نے متعدد بار چھوٹے چھوٹے عذاب آنے پر بھی اپنی اصلاح نہ کی تھی تو اللہ مالک و خالق نے فرعون اور اس کے خاص حواریوں کو غرق کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ سبھی مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ قہار نے فرعون کو اس کی سپاہ سمیت غرقِ نیل کردیا تھا ۔
یہ بات میں نہیں کہتا بلکہ اہل فکر ونظر( موجودہ دور کے باعمل علما اور صوفیاءاکرام) کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے ہاتھوں اور اپنی زبانوں سے اہل اسلام پر ظلم و ستم کیا ہے ان ظالموں اور بدبختوں کو تو اللہ قہار قیامت کے روز جہنم کا ایندھن بنائیں گے ۔ جن لوگوں نے اپنے ہاتھوں اور زبانوں سے اہل اسلام پر ظلم نہیں کیا ہے مگر اپنے دلوں میں بھی برائی کو برائی اور ظلم کو ظلم نہیں سمجھا ہے ،ساتھ ہی خاموشی اختیار کی ہے، موجودہ سیلاب ان کے لئے ایک ہلکی سی سرزنش( وراننگ) ہے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر سکیں ۔اہل فکر ونظر کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی اصلاح نہیں کریں گے تو یقینا عذاب آئے گا اور جب اللہ قہار کا عذاب آجایا کرتا ہے تو پھر کوئی انسانی قوت اس عذاب کو ٹال نہیں سکتی ہے ۔
میں مانتا ہوں کہ میرا دماغ بہت بڑا نہیں ہے اور نہ ہی میری عقل بڑی ہے ۔ میں یہ حقیقت تسلیم کرتا ہوں کہ میرا دماغ بھی چھوٹا ہے، لہٰذا میری عقل بھی چھوٹی ہے ۔میری چھوٹی سی عقل میں یہ بات سما گئی ہے کہ اللہ مالک و خالق جو کہ سب سے بڑی ہستی ہیں ۔سیلاب کی یہ چھوٹی سی سرزنش دے کر کچھ عرصے کے لئے مہلت دیں گے(یہ مہلت دوسال سے لے کر نو سال تک ہو سکتی ہے) تاکہ ہم عقل و فہم سے کام لیں اور یہ غور وفکر کریں کہ ہمارے وطن پاکستان میں بھوک،ننگ ، غربت ، بے روزگاری، لسانی اور علاقائی تعصبات کی بنیاد پر قتل و غارت اور فسادات کے بعد سیلاب کی آفت کیوں کرآئی ہے؟
اگر ہم مسلم بن کرقرآن مجید کی تلاوت کریں اس پر غوروفکر کریں اور پھر ایک مومن کی طرح سے تدبر کریں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اگر ہم اپنی نیتوں کو نیک کر لیں تو ہمارے سبھی اعمال درست ہو جائیں گے ۔اگر ہماری نیتیں نیک ہو جائیں گی اورہمارے اعمال درست ہو جائیں گے تو آسمان سے جو پانی برسے گا اس میں آفت اور مصیبت کی بجائے رحمت اور برکت ہو گی ۔ جب آسمان سے رحمت اور برکت برسے گی تو زمین اپنے خزانے اگل دے گی ، پھر ہمارے وطن میں ہر طرف امن و چین ہی ہو گا ۔انشاءاللہ العزیز!!!
رمضان المبارک کی آمد پر میری دلی دعا یہی ہے کہ اللہ رحمٰن و رحیم ہمیں برائی کو برائی کہنے کی توفیق عطا فرمائیں، حق اور سچ کا ساتھ دینے کی ہمت اور حوصلہ دیں ،ہم سبھی اہل ایمان کو اپنی اصلاح کرنے کی توفیق دیں۔
ہمارے چھوٹے اور بڑے گناہوں کو معاف کردیں ،ہماری نیتوں کو درست فرمائیں اور ہمیں نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ،تاکہ اگلے برس جب رمضان المبارک آئے، تو ہماری نیک نیتوں اور نیک اعمال کے نتیجے میں اللہ مالک و خالق کے اذن سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام میں اسی حقیقی اسلامی نظام کا نفاذ ہو چکا ہو جس اسلامی نظام کا نفاذ اللہ رحیم وکریم کے آخرِی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے مہینے میں مکةالمکرمہ کو فتح کرنے کے بعد مکة المکرمہ کے مقدس شہر اور اس کی مقدس وادی میں کیا تھا ۔ آمین ثم آمین !!!
وما علینا الالبلاغ۔

خادم الاسلام و المسلمین ٭ ڈاکٹر عصمت حیات علوی ٭یکم رمضان المبارک چودہ سو اکتیس ہجری ٭ 12 اگست 2010ء

(بہ شکریہ خبريں انٹرنشنل)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں