صومالیہ: مسلح افراد کا ہوٹل پر حملہ، 6 ارکان پارلیمان سمیت 32 ہلاک

صومالیہ: مسلح افراد کا ہوٹل پر حملہ، 6 ارکان پارلیمان سمیت 32 ہلاک
somaliaموغادیشو(ایجنسیاں) صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں مسلح افراد کے سرکاری حکام کے زیراستعمال ایک ہوٹل پر حملے کے نتیجے میں چھے ارکان پارلیمان سمیت بتیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

صومالیہ کے نائب وزیر اعظم عبدالرحمان حاجی ادب ایبی نے مونا ہوٹل میں حملے کے بعد صحافیوں سےگفتگو کرتے ہوئے تیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ان میں چھے صومالی پارلیمان کے ارکان اور چار سرکاری افسر تھے جبکہ بیس عام شہری تھے۔
اطلاعات کے مطابق دو مسلح جنگجو سرکاری سکیورٹی اہلکاروں کے بہروپ میں ہوٹل میں داخل ہوئے اور انہوں نے وہاں موجود ارکان پارلیمان اور دوسرے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ بعد میں انہوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ حملے کے وقت ہوٹل میں بڑی تعداد میں صومالی حکام موجود تھے۔
اس سے پہلے ہوٹل میں موجود ایک رکن پارلیمان محمد حسن نے ٹیلی فون کے ذریعے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا تھاکہ ”حملہ آوروں نے پندرہ ارکان کو ہلاک کر دیا ہے۔ ہم نے ہوٹل کے علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ ہم انہیں پکڑنا چاہتے ہیں اور فوجی دستے بھی ہوٹل کے باہر موجود ہیں”۔لیکن بعد میں صرف چھے ارکان کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔
حملے کے بعد ہوٹل کی عمارت سے بھاگ جانے میں کامیاب ہونے والے ایک ملازم کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں میں ایک خود کش حملہ آور تھا جس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ فائرنگ کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور پولیس ہوٹل میں داخل ہو گئی ہے۔
موغادیشو کی ایمبولینس سروس کے سربراہ علی موسیٰ نے بتایا ہے کہ ”صومالی دارالحکومت میں ہوٹل پر حملہ الشباب کے جنگجوٶں اور سرکاری سکیورٹی فورسز کے درمیان شدید لڑائی کے دو روز بعد کیا گیا ہے۔ اس لڑائی میں کم سے کم چالیس شہری ہلاک اور ایک سو چالیس سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔
سوموار کو یہ لڑائی الشباب کے ایک ترجمان کے خانہ جنگی کا شکار ملک میں ”غیر ملکی حملہ آوروں” کے خلاف اعلان جنگ کے بعد شروع ہوئی تھی۔ ترجمان کا اشارہ افریقی یونین کے امن دستوں کی جانب تھا جو کمزور صومالی حکومت کو تحفظ مہیا کررہی ہے۔
صومالیہ میں القاعدہ سے مبینہ تعلق رکھنے والی اسلام پسند تنظیم الشباب کے جنگجوٶں نے مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف گذشتہ تین سال سے مزاحمتی جنگ برپا کر رکھی ہے۔ ان کے مقابلے کے لیے افریقی یونین کے چھے ہزار تین سوسے زیادہ امن دستے تعینات ہیں لیکن وہ صدر شیخ شریف احمد کے علاوہ ہوائی اڈے اور بندرگاہ ہی کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔
الشباب نے گذشتہ ماہ یوگنڈا کے دارالحکومت میں دو بم دھماکوں کی بھی ذمے داری قبول کی تھی۔ان بم دھماکوں میں چھہتر افراد ہلاک ہو گئے تھے اور الشباب کا کہنا تھا کہ اس نے یہ حملے یوگنڈا کی جانب سے افریقی یونین کے تحت اپنے فوجی صومالیہ بھیجنے کے ردعمل میں کیے ہیں۔
الشباب نے حالیہ برسوں کے دوران ملک میں خودکش حملوں میں بھی اضافہ کردیا ہے۔عراق اور افغانستان کی جنگوں میں حصہ لینے والوں کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ وہ الشباب کے جنگجوٶں کی تربیت میں مدد دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ صومالیہ 1991ء سے خانہ جنگی کا شکار چلا آ رہا ہے اور تب سے وہاں کوئی مضبوط مرکزی حکومت نہیں ہے۔ صدر شیخ شریف احمد کی حکومت کا دارالحکومت موغادیشو کے بعض علاقوں تک ہی محدود کنٹرول ہے جبکہ ملک کے وسطی اور جنوبی علاقوں میں الشباب کے جنگجوٶں نے اپنا کنٹرول قائم کر رکھا ہے۔ موغادیشو میں حالیہ مہینوں کے دوران الشباب کے جنگجوٶں اور سرکاری سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی میں سیکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں اور ہزاروں بے گھر ہو گئے ہیں۔
مغربی سکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ صومالیہ خطے کے دوسرے ممالک میں حملوں کے لئے مسلح جنگجوٶں کی آماجگاہ بن چکا ہے جبکہ شورش زدہ اس ملک کی سرکاری سکیورٹی فورسز جنوبی اور وسطی علاقے میں الشباب اور دوسرے اسلام پسند جنگجوٶں سے نبرد آزما ہیں.صومالیہ میں 2007ء کے بعد سے خانہ جنگی میں بیس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور چودہ لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں