قرآن پاک روح انسانی کی غذا ہے، مولانا عبدالحمید

قرآن پاک روح انسانی کی غذا ہے، مولانا عبدالحمید
molana22خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے سورہ بقرہ کی بعض آیات کی تلاوت کے بعد انسان کی ماہیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو ایک لحاظ سے حیوان ہے مگر دوسری طرف فرشتہ ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ” ونفخت فیہ من روحی“ ؛ انسان کے وجود میں اللہ نے ملکوتی روح پھونکی ہے۔ منطقی لوگ کہتے ہیں ” انسان حیوان ناطق ہے“۔ در اصل منطقیوں نے انسان کی حقیقت نہیں سمجھا ہے۔ انسان فرشتہ صفت مخلوق ہے۔ انسان بولنے والا اور ملکوتی صفات کی حامل ہے۔ انسان اور حیوان کے درمیان بنیادی فرق ”عقل“ کی بناپر ہے۔ میرے خیال میں اگر اہل منطق یہ کہتے کہ ’انسان حیوان عاقل ہے‘ تو بہت بہتر ہوتا چونکہ نطق (بولنے کی صلاحیت) ہمیشہ عقل والوں کو حاصل ہے۔
جامع مسجد مکی کے خطیب نے مزید کہا انسان کی حیوانی صفت اسے زمین اور نیچے کی طرف کھینچتی ہے جبکہ روحانی اور ملکوتی صفت اسے آسمان کی راہ دکھاتی ہے، جنت اور کامیابی کی منزل تک اسے پہنچاتی ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے لکھا ہے انسان کی دو روحیں ہیں: ایک روح حیوانی اور دوسری روح ربانی ہے۔ یہ دونوں بالکل ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ روح حیوانی آدمی کو کھانے پینے کی دعوت دیتی ہے اور روح ربانی انسان کو تقویٰ، طہارت اور تزکیہ کی جانب لیجانا چاہتی ہے۔ ان کے درمیان ہمیشہ کشمکش جاری رہتی ہے۔

مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا تمام انبیاءعلیہم السلام کی تعلیمات خاص کر سیدالمرسلین و خاتم النبیین صلی الله علیه وسلم کی احادیث، احکامات اور تعلیمات کا مقصد یہی ہے کہ آدمی کے اندر ربانی روح کو تقویت ملے اور انسان رذائل اور برائیوں سے دور ہو۔ انسان پرواز کرکے فرشتوں کے قریب ہوجائے، اللہ کا محبوب بن کر اس کی روح ”علیّین “ میں جا بسے۔ مگر جو انسان سرکشی کرتا ہے، خواہشات کی پیروی میں قتل وغارتگری اور اغواکاری جیسے گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے، حتی کہ رمضان کی بھی کوئی وقعت اس کے دل میں نہیں تو وہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتاہے۔
مہتمم دارالعلوم زاہدان نے روزے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا جس شخص کے سینے میں قرآن ہو اور وہ روزہ رکھتا ہو تو وہ آدمی فرشتہ صفت ہوجاتا ہے اس لیے کہ ملائکہ بھی کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں۔ رمضان میں قرآن تمہاری روح کی غذا ہے۔ ذکر وتسبیح اور تلاوت سے اپنی روح کو غذا دینی چاہیے۔ اس مبارک مہینے میں اعمال صالحہ کی پابندی کے ساتھ ساتھ بدزبانی اور لڑائی جھگڑوں سے سخت اجتناب کرنا چاہیے۔ آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایا جب تم روزہ رکھتے ہو تو گناہ سے بچو، اگر کسی نے لڑائی کا ارادہ ظاہر کیا تو اس سے کہو ”انی صائم“ میرا روزہ ہے۔ رمضان میں پیاس اور بھوک محسوس کرکے غریبوں کو یاد کریں۔ نادار لوگوں، مدارس اور مستحقین کے ساتھ تعاون کرکے اس ماہ کی برکات سے بہرہ مند ہوجائیے۔ دعاءکرنی چاہیے اللہ تعالی ہمیں خوش نصیبوں میں شمار کرے۔
اس ماہ میں بدحال اور سست نہیں ہونا چاہیے۔ رمضان چست وچالاک ہونے کا مہینہ ہے۔ رمضان عبادات، قیام وصلاة کا ماہ مبارک ہے۔ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ بعض لوگ رمضان کی آمد کے باوجود دنیا سے لگے ہوئے ہیں اور انہیں عبادت واحتساب کی فرصت یا پرواہ نہیں۔ رمضان آیا ہے تا کہ ہمیں دنیا سے دور کرکے آخرت، اللہ اور جنت کے قریب کردے۔
نماز تراویح کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے اپنے بیان کے ایک حصے میں کہا تراویح کو کم مت سمجھیں۔ یہ بہت عظیم رمضانی عبادت ہے۔ ایک خاتون نے تہران سے فون کرکے پوچھا کہ کیا عورتوں کو بھی تراویح پڑھنی چاہیے؟ میں نے کہا جس حدیث میں رمضان میں قیام کی بات آئی ہے: [من قام رمضان ایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدم من ذنبہ] اس میں مرد و عورت کی تفریق نہیں اور حکم سب کے لیے آیا ہے۔ اگر خواتین کے لیے مساجد میں آنا ممکن نہ ہو تو انہیں گھروں ہی میں نماز تراویح ادا کرنی چاہیے۔ ورنہ مسجد جاکر علماءسے استفادہ بھی کریں۔
تراویح کی تاریخ پر اجمالی نظر ڈالتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین رات مسلسل مسجد میں تراویح ادا کی۔ چو تھی رات آپ صلی الله علیه وسلم نے اکیلے تراویح پڑھی۔ جب صحابہ رضی الله عنهم نے وجہ پوچھی تو آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایاکہ مجھے خوف ہے کہیں یہ تم پر فرض نہ ہو جائے۔
خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر رضی الله عنه کے دور میں صحابہ کرام مسجد النبی اور گھروں میں متعدد جماعات کی شکل میں تراویح پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی الله عنه نے اپنے عہد میں سب کو ایک ہی امام کے پیچھے جمع کرایا اور ابی بن کعب (رضی الله عنه کو امام مقرر فرمایا۔ اس طرح خلیفہ ثانی نے آپ صلی الله علیه وسلم کی سنت کو رسمی وسرکاری شکل دیدی۔
انہوں نے مزید کہا بیس رکعات نماز تراویح سنت موکدہ ہے۔ حضرت عثمان وعلی رضی الله عنهما نے بھی یہ نماز پڑھی ہے اور آج تک یہ نماز قائم ہے۔ حرمین شریفین میں شروع ہی سے بیس رکعت تراویح ادا کی جاتی ہے۔ بعض لوگ تراویح کے درمیان مسجد چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ یہ بالکل نامناسب کام ہے۔ صبر سے کام لینا چاہیے، پاوں اور کمر کی پرواہ مت کریں۔

اپنے خطبہ جمعہ کے ایک دوسرے حصے میں مولانا عبدالحمید نے حاضرین کو ٹریفک قوانین کی پابندی واحترام کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ان قوانین کا احترام ہم سب پر لازمی ہے۔ دیر پہنچنا کبھی نہ پہنچنے سے بہتر ہے۔ نہ صرف ٹریفک قوانین بلکہ تمام قوانین کا احترام اور ان پر عمل درآمد ضروری ہے۔ ہمیں قانون کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر عوام، حکام اور ذمہ دار حضرات کا فرد فرد قانون پر عمل کرے تو معاشرے کے سارے مسائل ختم ہوجائیں گے۔ پھر اہل سنت ایران بھی مشکلات سے نجات حاصل کرتی۔ اہل سنت برادری کے فریاد وآہوں کی وجہ یہی مسئلہ ہے کہ قانون پر عمل نہیں ہوتا۔
اغواءبرائے تاوان کے بڑھتے ہوئے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا اغوا نے ناسور کی شکل اختیار کی ہے۔ گزشتہ رات اطلاع آئی کہ بعض لوگوں نے ایک بچہ کو اغوا کیا تھا اور اسی دوران اس معصوم بچے کا انتقال ہوا ہے۔ سبحان اللہ! یہ کس قدر ظالم لوگ ہیں، اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگ در حقیقت اسلام کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ پیسے کی خاطر بچوں اور بوڑھوں تک کو معاف نہیں کرتے۔ آپ دیکھ لیں پاکستان میں جہاں تبلیغ کا کام ہوتا ہے، علماءموجود ہیں مگر خدا کا عذاب سیلاب کی صورت میں آیا ہے۔ اس کی وجہ یہی نافرمانی اور ظلم وگناہ ہے۔ دعا کریں اللہ تعالی اس سیلاب کو پاکستانیوں کے لیے رحمت میں تبدیل کرے۔
خطبہ جمعہ کی آخری حصے میں حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے پولیس حکام اور سیکورٹی اداروں کو مخاطب کرکے کہا آپ کو معلوم ہے یہاں (سیستان وبلوچستان) عوام کی اکثریت بے روزگاری کی وجہ سے سخت مالی مشکلات سے دوچار ہے اور غربت وناداری کا شکار ہے۔ چنانچہ مجبور ہوکر بعض لوگ پیٹرول وڈیزل کی اسمگلنگ کرتے ہیں۔ ان کا مقصد زراندوزی نہیں بلکہ وہ اپنے اور اپنے گھروالوں کے پیٹ پالنے کے لیے اس کام پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس لیے ان لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کرنا ہرگز مسئلے کا حل نہیں بلکہ دیگر مسائل کا باعث ہے۔ لوگوں کے پاس کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہے۔
میں اس عمل کا جواز پیش نہیں کرتا البتہ جو مجبور ہوکر پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ کرتے ہیں ان کے ساتھ قانون کے مطابق برتاو کیا جائے۔ ایران سمیت دنیا کے کسی ملک کے قانون میں جائز اشیاءکے اسمگلر کو گولیوں کا نشانہ بنانے کا حکم یا جواز نہیں آیا ہے۔ پولیس کی ذمہ داری لوگوں کی جان ومال کی حفاظت ہے نہ کہ معمولی بہانے پر ان کی جان لے لینا جو بعض اوقات چند بچوں کو یتیم اور گھرانوں کو لاوارث بنانے کا باعث ہوتا ہے۔
پولیس اور عدلیہ کے ماتحت اداروں کو چاہیے اپنی ذمہ داری کی سنگینی کا احساس کریں، عوام کی شکایات کو دور کرکے ان کی درخواستوں کو جواب دیں۔ بعض کیسز طویل مدت تک الماریوں میں پڑے رہتے ہیں اور کوئی نمٹانے کی زحمت نہیں کرتا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ جلد انصاف کی فراہمی متعلقہ محکموں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں