روزے کی حالت میں کرنے اور نہ کرنے کے بعض کام

روزے کی حالت میں کرنے اور نہ کرنے کے بعض کام
ramadan-amal“روزہ ڈھال ہے جب تک اس کو نہ پھاڑا جائے” عن ابی عبیدة رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: الصیام جُنّة ما لم یخرُقہا (رواہ النسائی)؛ ترجمہ: حضرت ابو عبیدة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ روزے ڈھال ہیں بشرطیکہ ان کو نہ پھاڑا جائے۔

عام طور پر ہمارے مسلمان بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ روزہ طلوع صبح صادق سے لے کر پھر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی کے قریب جانے سے اپنے آپ کو روکے رکھنے کانام ہے ، حالانکہ شریعت مطہرہ میں روزہ رکھنے کامقصد یہ نہیں بتایا گیا ہے بلکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے: لعلّکُم تتّقون (شاید تم تقویٰ حاصل کرو) یعنی انسان کے جسم کامکمل طور پر روزہ ہونا چاہیے ظاہراً اورباطناًاپنے آپ کو اللہ کے پسندیدہ اُمورمیں مصروف رکھنا اور ہر اُس چیز سے اپنے کو بچاناجواللہ کی نافرمانی کی جانب لے جانے والی ہوں ،اللہ ربّ العزت نے اس عظیم فریضہ کو اس لئیے انسانوں پرلازم کردیا ہے کہ یہ انسان اللہ جلّ شانہ کا زیادہ سے زیادہ قُرب حاصل کرے اورشیطانی افکار و خیالات سے محفوظ رہے،تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد کے مطابق روزہے کے ذریعے انسان اپنی حفاظت کرتاہے نفسانی اور شیطانی افکار وخیالات کے تلواروں سے ، لیکن روزے کے ڈھال ہونے کے لیے چند شرائط ہیں ،اسی لئے علمائے حدیث اس حدیث کی شرح فرماتے ہیں کہ اگر روزے کے اصل مقصد یعنی تقویٰ ، پرہیزگاری اور خداخوفی کو حاصل کرنا ہے تو چھ (6) آداب کا خیال رکھنا ضروری ہوگا:

(1)آنکھوں کی حفاظت
حدیث میں آتاہے کہ نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے، لہذا اس عظیم عبادت کو ادا کرتے وقت اپنی آنکھوں کی مکمل نگرانی کرنی چاہیے تاکہ کہیں غفلت میں شیطان کا شکار نہ ہوجائے، کیونکہ شیطان سب سے پہلے نظر کو غلط استعمال کرواکے پھر دماغ میں اُس کے خیالات اورتصوّرات کو لانا شروع کردیتاہے، پھرزبان سے اُس کی مدح سرائی کرواتاہے ، پھرہاتھ، پھیر اور کانوں کو غلط استعمال کرواتاہے ، اس طرح سے وہ انسان بہک جاتاہے۔

(2)زبان کی حفاظت
زبان کو بیہودگی ، فحش گوئی ، جھوٹ، غیبت اور بہتان تراشی سے محفوظ رکھناعا م طور پر ہمارے ہاں یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ غیبت اور بیہودگی وغیرہ کو ہم اپنی مجلسوں کا حصّہ بنا تے ہیں اور ایسا کرنے پر فخر بھی کرتے ہیں حدیث شریف میں آتاہے کہ غیبت ، زناسے بڑھ کر گناہ ہے۔

(3)کانوں کی حفاظت
روزے کی حالت میں ہمیں اپنی کانوں کی بھی حفاظت کرنی چاہیے ، کوشش کریں کہ اچھی باتیں، تلاوت ، نعت یا کسی معتبر عالم کی تقریر وغیرہ سننے کی عادت ڈالیں ، تاکہ ہمیشہ ترقی کی منزلیں طے کرتے رہنے والے بن جائیں، ہماری مجلسوں میں جب کوئی غیبت کرنے لگ جاتاہے پہلے تو اس کو روکنے کی کوشش کریں اگر وہ نہ رُکے تو ہم خو د اس کی بات سننے سے بائی کاٹ کریں اور اس مجلس سے اُٹھ کرعملی طور پر اس پر یہ آشکارا کریں کہ ہم آپ کے گنا ہ میں شریک ہونا نہیں چاہتے۔
اور یہ بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح غیبت کرنا بڑا جُرم بالکل اسی طرح غیبت سننا بھی اس کے برابر عظیم جُرم ہے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

(4)دیگر اعضاء وجوارح کی حفاظت
پاﺅں کو حرام چیز کی جانب لے جانے سے ، ہاتھوں کو حرام چیز پکڑنے سے،  ذہن کو غلط سوچنے سے ، دل کو اللہ کے غیرسے محفوظ رکھنا خصوصاً پیٹ کو حرام مال سے بچانا کیونکہ عبادات اور دعاﺅں کی قبولیت کا مدار حلال مال کے کھانے پر ہے ۔

(5)حلال مال بھی بقدر ضرورت کھانا چاہیے
یہ ایک نہایت ہی ضروری امر ہے کہ سحری کے وقت اور افطار کے وقت کھاناکھانے میںاحتیاط سے کام لینا چاہیے نہ اتنا کم کھائیں کہ عبادات یا دیگر دنیوی معاملات میں کمزوری محسوس ہونے لگے اور نہ اتنا زیادہ ہو کہ روزے کا مقصد ہی فوت ہوجائے کیونکہ روزے کے دو(2) بڑے مقاصد ہیں:[1] شہوات نفسانیہ کے زور کو توڑنا[2] دیگر فقیر اور غریب ہمسایوں اور نادار بیواﺅں کے ساتھ مدد کرنے کا احساس دل کے اند ر پیدا ہونا

[1]شہوات نفسانیہ کے زور کو توڑنا:
حدیث شریف میں آتا ہے کہ شیطان انسان کے اند ر اس طرح تیزی سے دوڑتاہے جس طرح خون انسان کے رگوں میں گردش کرتاہے، تم لوگ بھوک سے اس کے راستے کو روک دو؛ لہذا ہمیں چاہیے کہ بقدر ضرورت اتنا کھائیں کہ اصل مقاصد کے پوراکرنے میں کوتاہی نہ آجائے۔

[2]فقراءاور ناداروں کے ساتھ مدد کرنے کا احساس پیدا ہونا:
جب بھوک لگے گی تو دل کے اند رایک احساس خود بخود پیدا ہوجاتاہے کہ میرے نادار بھائی اور بہنیں جب غربت کی وجہ سے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا تو وہ کس طرح اس کو برداشت کرتے ہیں ۔اس احساس کے کئی فوائد ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ فقراء، ناداروں اور غریبوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اظہار ہمدردی ہوجاتی ہے ، اسی طرح ان کے ساتھ مدد کرنے کا جزبہ بیدار ہوتاہے، اس طرح سے ایک انسان کے اندر اصل انسانیت پیدا ہوجاتی ہے، جو کہ ہماری ساری عبادات کا اصل مقصد ہے۔

(6) عبادت کے مقبول ہونے کی دعا کرنا
ہرعبادت میں نیّت کا خالص ہونا لازمی ہے یعنی عبادت کرکے ہم تکبر میں نہ آئیں بلکہ اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور عاجزی کے ساتھ یہ التجاء کریں کہ وہ عظیم ذات ہماری اس ٹوٹی پوٹی عبادت کو اپنی بارگاہ عالی شان میں مقبول ومنظور فرمادیں، نیز اس بات کو ہم بار بار اپنے دل میں تازہ کریں کہ یا اللہ یہ نیک عمل میں نے تیرے لیے کیا ہے تو اس کو شرف قبولیت بھی نصیب فرمادیں۔
حضرت مولینا محمد الیاس رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہر نیک عمل کے ابتداء، درمیان اور آخرمیں نیت کو خالص کرنے کو تازہ کیا کریں کیونکہ شیطان بڑا ظالم ہے پہلے تو وہ نیکی کے لیے چھوڑتا نہیں ہے ، بالفرض اگر وہ عمل آپ نے شروع کردیا تو پھر وہ ظالم آپ کی نیت کو بھگاڑنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔

پوری جسم کا روزہ ہونا چاہیے
قرآن کریم میں ارشاد ربّانی ہے : {یاایھاالذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون} اس آیت کریمہ میں روزے کا مقصد تقویٰ بتایا گیاہے جس کامعنی ہے پرہیزگاری اور ظاہر سی بات ہے کہ صرف منہ کو کھانے ،پینے اور نفسانی خواہشات سے روکنے سے تقویٰ حاصل نہیں ہوتا جب تک ہم اپنی پُوری جسم میں ظاہراً وباطناً اللہ جلّ شانہ کے پسندیدہ امور کو لاگُو نہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ امور سے اجتناب نہ کریں۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور اللہ تعالیٰ ماہ رمضان المبارک کو ہم سب کے لیے خیر وبرکت، گناہوں کی مغفرت اور جہنّم سے آزادی کاذریعہ بنادے ۔امین ثم ّامین

سنی آن لائن۔اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں