’ایسی تباہی پہلے نہیں دیکھی، بےمثال امداد ضروری‘

’ایسی تباہی پہلے نہیں دیکھی، بےمثال امداد ضروری‘
ban_ki_moon_zardariاسلام آباد (بى بى سى) اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ پاکستان میں آئے سیلاب کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اسی مناسبت ہی سے کرنی ہو گی۔ یہ بات انہوں نے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہی۔

بان کی مون نے کہا کہ انہوں نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہے اور ’جو میں نے آج دیکھا ہے وہ میں کبھی نہیں بھولوں گا‘۔ انہوں نے کہا کہ ہر دس پاکستانیوں میں سے ایک پاکستانی اس سیلاب سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہوا ہے۔ ’پاکستان کا پانچواں حصہ متاصر ہوا ہے۔‘
انہوں نے عالمی برادری سے درخواست کی کہ وہ دل کھول کر پاکستان کی مدد کریں۔
اقوام متحدہ کے سیکریڑی جنرل نے کہا کہ لوگ سیلاب کے پانی میں پھنسے ہوئے، دلدل میں گھرے اور اپنے گھروں کی باقیات یا کھنڈرات پر ببیٹھے ہیں اور وہ گندہ پانی پیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بہت سارے لوگوں نے اپنے عزیز اور دوست کھو دیے ہیں اور بہت سارے لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ ان کے اپنے پیارے اور ان کےبچے ان حالات میں زندہ نہیں رہ سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ’ یہ نہ ختم ہونے والی تباہی ہے ، بارشیں اب بھی ہورہی اور یہ صورت حال ہفتوں جاری رہ سکتی ہے اور ڈیمز کے پھٹنے کا بھی خطرہ ہے’
بان کی مون نے کہا آج کا دن ان کے لیے اور ان کے وفد میں شامل لوگوں کے لیے دل ہلا دینے والا دن ا تھا ۔‘
نیوز کانفرنس کا آغاز پر اقوام متحدہ کے سیکریڑی جنرل نے ابتدائی کلمات اردوں میں کہے ’میرے پیارے بہنوں اور بھائیوں سیلاب کی تباہی کی وجہ سے مجھے بہت دکھ ہوا۔ اقوام متحدہ اس مشکل گھڑی میں آپ کے ساتھ ہے۔‘
ان دو جملوں بعد انہوں نے اپنا خطاب انگریزی میں شروع کیا۔
عالمی ادارے کے سربراہ نے کہا کہ ’ میں تین وجوہات کی سبب پاکستان آیا ہوں، ایک تو یہ ہے کہ میں اس مشکل گھڑی میں پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کروں، دوسرا یہ کہ میں خود دیکھوں کہ کیا کچھ کیا جارہا ہے اور پھر یہ بھی کہ اقوام متحدہ اور اقوام عالم سے مزید کیا درکار ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں اس لیے بھی آیا ہوں کہ دنیا کو یہ بتاؤں کہ وہ پاکستان لئے اپنی فراخدلانہ مدد میں اضافہ کریں۔‘
بان کی مون نے کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری بہت تیزی سے متاثرین کو امداد پہنچانے کے لیے حکومت پاکستان کی مدد کر رہی ہے اور اقوام متحدہ اور غیر سرکاری تنظیمیں اپنی استعداد کو تیزی سے وسعت دے رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں کو خوراک، شیلڑ، صاف پانی اور ادویات کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریڑی جنرل کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں متاثرہ علاقوں میں اسہال اور قہ اور پانی سے پیدا ہونے والی دوسری بیماریوں کی وبا پھوٹنے پر تشویش ہے۔
انہوں نے اس موقع پر اقوام متحدہ کی طرف سے مزید ایک کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا اور اس طرح اقوام متحدہ کی متاثرین کے لیے کل امداد دو کڑوڑ ستر لاکھ ڈالر ہوگئی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریڑی جنرل نے مزید کہا کہ جونہی پانی کی سطح کم ہوگی ’ہمیں فوری طور پر متاثرین کو تعمیر نو اور ان کی اپنی زندگیوں کو پھر سے یکجا کرنے میں مدد کرنا ہوگی۔‘
انہوں نے کہا کہ کسانوں کو بییچ اور کھاد کی ضرورت ہوگی، تعلیم ، صحت اور خوراک کے ذرائع فوری طور پر بحال کئے جانے چاہیں اور طویل مدت میں انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے شدید نقصان کی مرمت کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ’ میں نہ صرف اس مشکل وقت گھڑی میں اپنی اور اقوام متحدہ کی جانب سے مدد کا واعدہ کرتا بلکہ مستقبل کے طویل سفر میں بھی پاکستان خود کو تہنا نہیں پائے گا
اس سے قبل اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اتوار کے روز پاک فضائیہ کے جہاز پر اسلام آباد پہنچے۔ انہوں نے ہوائی اڈے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس مشکل گھڑی میں پوری دنیا پاکستان کے ساتھ ہے۔
’میں پاکستان کی عوام سے اظہارِ حکجہتی کے لیے پاکستان آیا ہوں۔ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ امدادی سرگرمیاں تیز کی جائیں۔‘
بان کی مون صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی اور متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔

سکھر، گڈو پر سیلابی ریلا
ہمارے نامہ نگار ریاض سہیل نے بتایا کہ جیکب آباد میں سیلابی ریلا داخل ہو گیا ہے۔
حکام کے مطابق جیکب آباد شہر کے علاقے سبھائیو میں پانی داخل ہوا ہے۔ اس علاقے میں لگ بھگ پانچ سو گھرانے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ سبھائیو میں ایک فٹ سے زیادہ پانی داخل ہوا ہے۔
صوبائی وزیر برائے آبپاشی جام سیف اللہ نے ایک پریش کانفرنس میں کہا کہ حکام نے کوئٹہ بائی پاس پر جیکب آباد کو بچانے کے لیے کٹ لگایا تھا تاہم ان کو اندازہ نہیں تھا کہ اتنا پانی آئے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پانی جیکب آباد شہر کی جانب تین سمت سے داخل ہو رہا ہے۔
انہوں نے جیکب آباد شہر میں موجود بچے کھچے افراد سے شہر خالی کرنے کی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ شکارپور کو سیلابی ریلے سے بچا لیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سپر فلڈ چند روز مزید جاری رہے گا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق گڈو اور سکھر بیراج سے انتہائی اونچے درجے کا سیلابی ریلا گزر رہا ہے۔
اس سیلابی ریلے سے سندھ کے آٹھ شہروں کو خطرہ ہے۔ ان شہروں میں خیرپور، جیکب آباد، گھوٹکی، سکھر، لاڑکانہ، نوابشاھ، حیدر آباد اور نوشہرو فیروز شامل ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق گڈو کے مقام پر پندرہ سے سترہ اگست کے درمیان دس لاکھ سے گیارہ لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا گزرے گا۔ اور سکھر بیراج کے مقام سے پندرہ اور اٹھارہ اگست کے درمیان دس اور گیارہ لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا گزرے گا۔
دوسری جانب نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ ندیم احمد نے بی بی سی لائف لائن پروگرام کو بتایا کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے علاقے لوئر دیر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس کا زمینی راستہ دیر بالا سے کٹ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوئر دیر کے لیے اس وقت مہمند اور باجوڑ سے جایا جا رہا ہے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ چکدرہ پل کی مرمت جلد سے جلد ہو جائے تاکہ کم از کم چھوٹے ٹرکوں کی آمد و رفت شروع ہو سکے۔
دوسرا مسئلہ کالام کا ہے جہاں زمینی راستہ بند ہے۔ وہاں پر لوگوں نے اپنی مدد آپ اور کچھ فوج مدد کر رہی ہے کہ راستہ کھل سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہاں چند پلوں کی ضرورت ہو گی اور یہ پل باہر سے منگوانے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔

نصیر آباد اور جعفر آباد
دریائے سندھ سے سیلابی پانی کا ایک بڑا ریلا بلوچستان کے ضلع جعفر آباد سے گزر رہا ہے جس کے باعث جعفر آباد کے مرکزی شہر ڈیرہ اللہ یار اور جھٹ پٹ زیر آب آ گئے ہیں اور ان علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں افراد نے بلوچستان کے دوسرے شہروں کا رخ کیا ہے۔
جیکب آباد شہر جس میں شہباز فضائی اڈہ بھی واقع ہے کو بچانے کے لیے کوئٹہ بائی پاس سے بند کو کاٹا گیا جس کے باعث سیلابی ریلا نصیر آباد اور جعفر آباد میں داخل ہو گیا۔ اس سیلابی ریلے نے ڈیرہ اللہ یار اور جھٹ پٹ شہروں تباہی پھیلاتے ہوئے دوسرے علاقوں کارخ کرلیا ہے۔
سندھ سے ملحقہ بلوچستان کے دو اضلاع نصیر آباد اور جعفرآباد سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی جاری ہے۔ یہ نقل مکانی جمعہ کی رات کواس وقت شروع ہوئی جب کمشنر نصیر آباد ڈویژن شیر خان بازئی نے نصیر آباد ڈویژن میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ڈیرہ اللہ یار کے شہریوں کو فوری طور پر شہر خالی کرنے کا حکم دیا۔ جس کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈیرہ مراد جمالی، سبی اور بلوچستان کے دیگرعلاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کی۔
کمشنر نصیر آباد ڈویژن شیر خان بازئی نے ٹیلی فو ن پر کوئٹہ میں بی بی سی کے نمائندے ایوب ترین کو بتایا ہے کہ اس وقت ڈیرہ اللہ یار، روجھان جمالی اور اوستہ محمد شہر مکمل طور پر پانی میں ڈوب چکے ہیں اور گزشتہ دو دنوں میں ڈیڑھ لاکھ آبادی ان شہروں سے ڈیرہ مرادجمالی اور سبی کی طر ف منتقل ہوچکی ہے۔
شیر خان بازئی کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک ان شہروں میں پھنسی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا ان افراد کو نکالنے کے لیے آرمی کا ایک ہیلی کاپٹر اور کچھ کشتیاں کام کر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر جعفر آباد ڈاکٹر سعید جمالی نے بی بی سی کو بتایا کہ متاثرہ افراد کو شہر سے نکالنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر جعفر آباد اور سبی کے درمیان ٹرین چلانے کے علاوہ سرکاری سطع پر عام لوگوں کو ٹرانسپورٹ کا اننتظام کیا گیا ہے۔
تاہم جعفر آباد کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت کی جانب سے کوئی ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کی گئی اور اکثر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ڈیرہ اللہ سے دوسرے محفوظ مقامات پر جارہے ہیں۔
نصیر آباد کے ایک مقامی صحافی فدا احمد نے بتایا کہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ پیدل ڈیرہ مراد جمالی کی طرف جارہے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاؤں میں جوتے تک نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہفتے کی شام کو دریائے سندھ سے سیلابی پانی کا ریلا ڈیرہ اللہ شہرمیں داخل ہوا اور رات گئے تک دو سو سے زیادہ مکانات گر چکے تھے اور اس کے علاوہ شہر میں بجلی اور ٹیلی فون کا نظام درہم برہم ہے۔
رات گئے جعفرآباد سے ملنے والی اطلاع کے مطابق چھ سے آٹھ فٹ تک پانی کاریلا ڈیرہ اللہ یا ر سے گذر کر سابق وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی کے علاقے روجھان جمالی کی طرف بڑھ رہا تھا
علاقے میں موجود ایک اور صحافی شریف منگی نے بتایا کہ کمشنر نصیر آباد کی جانب سے ایمرجنسی کا اعلان رات کو دیر سے کیا گیا جس کے باعث اکثر لوگوں کو بر وقت اطلاع نہیں ملی سکی۔
رات گئے جعفرآباد سے ملنے والی اطلاع کے مطابق چھ سے آٹھ فٹ تک پانی کاریلا ڈیرہ اللہ یا ر سے گذر کر سابق وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی کے علاقے روجھان جمالی کی طرف بڑھ رہا تھا جس کے باعث ان علاقوں سے بھی لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہونا شروع ہوئے۔
واضح رہے کہ سنیچر کو جیکب آباد کی مقامی انتظامیہ اور وفاقی وزیر برائے کھیل اعجاز جاکھرانی کوئٹہ بائی پاس پر کٹ لگانے کے لیے موقع پر پہنچے تھے لیکن دوسری جانب سے ظفر اللہ جمالی محافظوں سمیت موقع پر پہنچ گئے اور کٹ لگانے سے منع کیا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں