روزے کی برکت سے تقویٰ حاصل ہوتاہے، مولاناعبدالحمید

روزے کی برکت سے تقویٰ حاصل ہوتاہے، مولاناعبدالحمید
molana35خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے قرآنی آیت: “ياأيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون”، کی تلاوت کے بعد روزے کی اہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا اللہ تعالی نے مذکورہ آیت میں تقوا اور پرہیزکاری کو روزے کا سب سے اہم نتیجہ قرار دیاہے جس کے ذریعے انسان کی اصلاح وہدایت ممکن ہوتی ہے، آدمی اچھی صفات وعادات سے مزین ہوکر برائیوں سے نجات پائے گا یہی امر دخول جنت کا باعث ہے۔ تقوا کی برکت سے کوئی بھی معاشرہ مثالی بن سکتاہے۔ تقوا کے بغیر کامیابی کاحصول ناممکن ہے۔

انہوں نے مزیدکہا روزہ کا شمار ان عبادات میں ہوتاہے جن کا تعلق براہ راست اصلاح نفس سے ہے۔ بلاشبہ دیگر عبادات خاص کر نماز، زکات اور حج کا ثمرہ بھی تقوا ہے۔ لیکن جو تقوا اور خشیت روزے کی برکت سے حاصل ہوتی ہے اور جو تقوا دیگر عبادات کے نتیجے میں ہاتھ آتا ہے میں بڑا فرق ہے۔ چنانچہ جب روزے کی بات قرآن پاک میں آئی تو فرمایاگیا: ”لعلکم تتقون“ تاکہ تم متقی بن جاو، مگر دیگر عبادات کے ذکر ہونے کے بعد ”لعلکم تتقون“ کی تصریح نہیں ہوئی ہے۔
تقوا اور قرآن کی تعلیمات سے استفادہ کے درمیان تعلق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے مزید کہا اللہ تعالی کاارشاد ہے: ”ذالک الکتاب لاریب فیہ،ھدیٰ للمتقین“؛ یعنی متقی اور پرہیزگار ہی قرآنی تعلیمات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ سو جتنا زیادہ تقوا حاصل ہو اتناہی زیادہ آدمی قرآنی تعلیمات کے سرچشموں سے سیراب ہوسکے گا۔ شاید رمضان المبارک میں روزے کی فرضیت کی حکمت یہی ہے کہ اس ماہ میں قرآن نازل ہوا ہے تو ہم روزہ رکھ کر تقوا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قرآنی ذخائر سے بھی بہرہ مند ہوجائیں۔
مولانا عبدالحمید نے مزیدکہا ساری مصیبتوں اور بلاوں سے نجات پانے کا راز تقوا میں پوشیدہ ہے۔ قرآنی آیات: “ومن يتق الله يجعل له مخرجا ويرزقه من حيث لا يحتسب”، “إن للمتقين مفازا” و”إن المتقين في جنات ونعيم” اور”ومن يتق الله يجعل له من أمره يسرا” اسی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ ایک سے زائد مقامات پر اللہ تعالی نے متقی لوگوں کو کامیابی وسعادت کا وعدہ دیا ہے۔ یہ تقوا روزہ رکھنے ہی سے حاصل ہوگا۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا پرہیزکار اور متقی وہ ہے جو گناہوں سے اجتناب کرے، اللہ کی محرمات سے دوری کرکے حرام کاموں کے قریب بھی نہ جائے۔ شریعت پر پوری طرح عمل کرے، نماز، زکات اور حج کی ادائیگی میں سستی و کاہلی کامظاہرہ نہ کرے، دوسروں کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھائے، سودخوری، جاسوسی وچغل خوری اور غیبت سے سخت دوری کرے؛ یہ متقی آدمی ہے۔ سچا متقی ”تقوائے عام“ اختیار کرکے شرک، مکروہات ومحرمات اور فضول کاموں اور باتوں سے اجتناب کرتاہے۔
یہ ہرگز تقوا نہیں کہ آدمی ایک جانب نماز پڑھ لے مگر دوسری طرف لوگوں کاحق بھی ضائع کرے، رہزنی وقتل سے بازنہ آئے؛ بلکہ نماز معاصی ومنکرات سے منع کرتی ہے اور باتقوا آدمی لوگوں کی عزت کو پامال نہیں کرتا اور کبیرہ وصغیرہ گناہوں پر اصرار نہیں کرتاہے۔
رمضان المبارک کی آمد کی جانب اشارہ کرکے مولانا عبدالحمید نے کہا رمضان ایک عظیم مہینہ ہے، رمضان رحمتوں اور برکتوں کامہینہ ہے جو ہمیں تقوا کی دولت سے نوازتاہے۔ روزہءرمضان سے رب العالمین ہمیں پیاس اور بھوک کی سزا نہیں دینا چاہتے بلکہ غرض ہماری اصلاح اور بلندیءدرجات ہے۔ ورنہ ہماری پیاس اور بھوک سے اللہ تعالی کو کیا ملتاہے؟ اس کے خزانے تو ختم نہیں ہوتے! خالق حقیقی کا مقصد ہم پر رحمتوں کی بارش برساناہے۔ چنانچہ رمضان المبارک میں عبادات کا ثواب بڑھ جاتاہے۔ نوافل کا اجر فرائض کی مساوی ہوجاتاہے اور ایک فرض کاثواب سترگنا بڑھ جاتاہے۔
آپ نے بعض نیک کاموں کاتذکرہ کرتے ہوئے رمضان میں بکثرت اور سختی سے ان پر عمل کرنے کی نصیحت فرمائی۔ انہوں نے کہا جھوٹ، غیبت ودیگر گناہوں سے اجتناب، کثرت سے تلاوت قرآن پاک، کثرت ذکر و درود، استغفار اور توبہ ایسے امور ہیں جن کی پابندی از حد ضروری ہے۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے سرپرست دارالعلوم زاہدان نے کہا رمضان تزکیہ و اصلاح، صدقات وخیرات اور غریب ونادار لوگوں سے تعاون کامہینہ ہے جنہیں اس ماہ میں فراموش نہیں کرناچاہیے۔ اس ماہ میں بطور خاص بیواوں، یتیموں اور غریب مریضوں نیز حاجتمند قیدیوں سے تعاون کرناچاہیے۔ دینی مدارس سے بھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ دارالعلوم زاہدان اور اس کی شاندار خدمات آپ کے سامنے ہیں۔ یہ آپ ہی کے تعاون سے چلتاہے۔ بعض جھوٹے لوگ اہل خیر حضرات کو جامعہ سے تعاون کرنے سے روکتے ہیں کہ ان کو ’باہر‘ سے پیسہ ملتاہے! ان کی اپیلیں سب جعلی ہیں! حالانکہ ہمارے مدارس عام مسلمانوں ہی کے چندوں سے چلتے ہیں، ہم کسی بھی حکومت حتی کہ اسلامی حکومتوں سے تعاون نہیں لیتے۔ دراصل بعض لوگ خود نفاق اور دروغ گوئی کے عادی ہیں اور دوسروں کو بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔
اپنے بیان کے آخر میں حضرت شیخ الاسلام نے دعا وتضرع کو امت مسلمہ کی نجات کا واحد راستہ قرار دیتے ہوئے کہا اس مبارک مہینے میں ایک اور کام جو ہمیں کثرت سے کرنا چاہیے وہ دعا ہے، خاص طور افطاری اور سحری کے اوقات میں بہت زیادہ دعا کرنی چاہیے۔ جس زبان میں دعاکرسکتے ہو دعا کرو، اللہ سے مانگو، مسلمانوں کی بھلائی کیلیے دعا کرو۔ آج امت مسلمہ کہیں زیادہ دعا کامحتاج ہے جو گوناگون مسائل ومشکلات سے دوچارہے، اسلام وقرآن کیخلاف اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ فلسطین، عراق وافغانستان کے مسلمانوں کیلیے خیر کی دعا کرنی چاہیے۔ پاکستان کے مسلمانوں کیلیے عافیت کی دعا مانگنی چاہیے جو سیلاب کی وجہ سے مشکل میں ہیں اور ان کا پورا ملک سیلاب سے سخت متاثرہوا ہے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں