افغانستان: غیر ملکیوں کی لاشیں

افغانستان: غیر ملکیوں کی لاشیں
afghan_nato2كابل(بى بى سى اردو) افغانستان کے شمال مشرقی صوبے بدخشاں میں ایک گاڑی سے بیرونی ممالک کے آٹھ اور دو افغان شہریوں کی لاشیں ملی ہیں۔ ان افراد کو گولی مار کے ہلاک کیا گیا ہے۔

ہلاک ہونے والوں میں چھ امریکی شہری، ایک برطانوی اور ایک جرمن شہری شامل ہیں جو ایک عالمی فلاحی طبّی ادارے میں کام کرتے تھے۔
ان افراد سے رابطہ منقطع ہونے کے دوسرے روز ان کی گاڑیاں دستیاب ہوئی ہیں۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکتیں لوٹنے کی ‏غرض سے کی گئی ہوں گي۔ لیکن طالبان نے ان پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے تھا کہ ان افراد کے پاس سے دری زبان میں بائیبل کے تراجم ملے تھے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ روز گشت کرنے والے ہمارے دستے سے بیرونی ممالک کے لوگوں سے ملاقات ہوئی، وہ عیسائی مبلغ تھے اور ہم نے ان سب کو مار دیا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ امریکہ کے لیے جاسوسی بھی کرتے تھے۔
یہ ٹیم ’انٹرنیشنل اسِسٹنس مشن‘ کے لیے کام کرتی تھی۔ یہ ایک عیسائی فلاحی تنظیم ہے جو سنہ انیس سو چھیانچھٹ افغانستان میں کام کر رہا ہے۔ تنظیم نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ عیسائی مبلغ تھے۔
ابھی ان لاشوں کی شناخت کا کام جاری ہے لیکن اس دوران ان کے اہل خانہ کو مطلع کر دیا گيا ہے۔
کابل میں امریکی سفارتخانے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ہلاک ہونے والے بیشتر امریکی شہری ہیں۔ ’ہم ابھی کسی تفصیل کی تصدیق نہیں کر سکتے لیکن مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر ہم ان کی شناخت اور شہریت کا پتہ کرنے میں لگے ہیں۔‘ برطانوی سفارتخانے نے بھی ان لاشوں کے ملنے کی تصدیق کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ کیمپ آنکھوں کے علاج کے لیے کام کرتا ہے اور حالیہ دنوں میں وہ بدخشاں میں مصروف تھا۔ بدھ کے روز ڈاکٹروں پر مشتمل یہ ٹیم کابل واپس لوٹ رہی تھی تبھی اس سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔
بدخشاں کے پولیس سربراہ جنرل آغا نور کیمتوز کے مطابق لاشیں کروان و منجان ضلع سے ملی ہیں اور ان کے پاس جو بھی کچھ تھا وہ لوٹ لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک تیسرا افغانی شہری اس حملے میں بچ گیا ہے۔ ’اس نے ہمیں بتایا کہ وہ یہ شور مچاتے رہے اور قرآن پڑھتے ہوئے یہ کہتے رہے کہ، میں مسلمان ہوں مجھے مت مارو۔‘
بدخشاں تاجکستان سے متصل علاقہ ہے جہاں دو ہزار ایک میں امریکی حملے سے پہلے تک طالبان کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔اس علاقے کو قدرے محفوظ سمجھا جاتا تھا لیکن اب وہاں سے بھی طالبان کی موجودگی کی اطلاعات ملی ہیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں