سیستان بلوچستان؛ بدامنی کے اصل اسباب تک پہنچناچاہیے

سیستان بلوچستان؛ بدامنی کے اصل اسباب تک پہنچناچاہیے
amniatپندرہ جولائی میں شب جمعے کو رونماہونے والا افسوسناک واقعہ جس میں تیس کے قریب شہری جاں بحق ہوئے نے جہاں عوام میں بے چینی اور غم وافسوس کی لہڑ دوڑائی وہیں ایک بار پھر صوبہ سیستان وبلوچستان میں امن وامان کی صورتحال موضوع سخن بن گئی۔ بلوچستان خاص کر زاہدان میں بدامنی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے اسباب کیا ہیں اور اس طرح کے سانحات کی روک تھام کی شاہ کلید کیاہے؟ اس حوالے سے صوبائی ومرکزی حکام کے علاوہ عام تجزیہ کاروں نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ اس بارے میں ایک موقر مقامی اخبار کے چیف ایڈیٹر نے انتہائی مفید نکات اٹھائے جو قابل عمل اور لائق تامل ہیں۔ ڈاکٹر رخشانی نے زاہدان میں بدامنی کے اسباب کو چار کیٹاگریز میں تقسیم کیا ہے۔ ان کے مطابق بیرونی مداخلت، امتیازی سلوک، غربت وپسماندگی، بے روزگاری اور ڈرگ اسمگلنگ بیک وقت ان ناخوشگوار واقعات کے پیچھے کارفرما عوامل ہوسکتے ہیں۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ مذکورہ بالا وجوہات کے علاوہ بعض دیگر اسباب سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی جن میں سرفہرست سیستان وبلوچستان میں پھانسیوں کے بڑھتے واقعات، مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت، مذہبی تقاریب اور سرگرمیوں پر پابندی،سنی برادری پر مذہبی لحاظ سے دباؤ ڈالنا، عہدوں اور مناصب کی تقسیم میں انہیں مسلسل نظرانداز کرنا اور ایک کروڑ سے زائد مسلمانوں کی مقدسات خاص طور صحابہ کرام کی شان میں کھلم کھلا گستاخی کرنا صوبہ سیستان وبلوچستان میں امن وامان کی صورتحال پراثرانداز عوامل ہیں.
ان اسباب میں سے ایک پر زور دینا اور دیگر عوامل کو نظرانداز کرنا ہرگز مسئلے کاحل نہیں ہے۔ دیرپا امن کیلیے ٹھنڈے دل ودماغ سے اس طرح کے خوفناک اور جان کاہ سانحات کے اصل اسباب پر غورکرنا چاہیے۔ ’’آہنی ہاتھ‘‘ سے نمٹنے کی وعید ہرحکومت کاپرانا شیوہ ہے مگر کوئی بھی مثالی حکومت اسے کافی قرار نہیں دیتی۔ اگرصرف آہنی ہاتھ سے نمٹنے اور بدامنی کی وبا سے مقابلے کے وعدے سے کوئی پیشرفت حاصل ہوتی تو پندرہ جولائی کو ایک مسجد کے سامنے بیسیوں افراد لہو لہاں نہ ہوتے جس سے ہرکوئی آج افسردہ ہے۔
یہ انتہائی خوش آیند امر ہے کہ مذکورہ سانحے کے بعد جسے تمام سنجیدہ حلقوں نے مذمت کی علمائے کرام اور دانشوروں کے علاوہ بعض اعلی حکام اور ان کے قریب سمجھے جانے والے حلقوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ ایسے واقعات کے پیچھے کارفرما اصل اسباب کامطالعہ اور خاتمہ ضروری ہے۔ شیعہ وسنی اور بلوچ وغیربلوچ شخصیات شروع ہی سے اس بات پر زور دیتے چلی آرہی ہیں کہ اگرحکومت واقعی بدامنی کی ناسور سے شہریوں کو نجات دلاناچاہتی ہے اور سرکاری اداروں اور افراد کوتحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے تو سب سے پہلے اس کے بنیادی علل واسباب کو ٹھونڈ نکالے۔ شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ایک سے زائد مرتبہ جامع مسجد مکی کے منبر سے اور دیگر ذرائع کے تھرو اس بات کی اہمیت کو واضح کرچکے ہیں۔ اپنے حال ہی بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ کسی بھی بیماری کا علاج اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ا س کی علتوں کاپتہ نہ لگایاجائے۔ پہلے وقتی جذبات کو سائید پر رکھتے ہوئے ٹھنڈے دل سے مرض کی تشخیص کرنی چاہیے اس کے بعد علاج کی باری آتی ہے۔
صوبہ سیستان وبلوچستان کی معیشتی پسماندگی، عوام میں پائی جانے والی احساس محرومی، ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک خاص طور پر عہدون اور مناصب کی تقسیم کے معاملے میں، تعلیم کی ابتر صورتحال اور بعض محکموں کا عوام کے ساتھ غیرمہذب رویہ، مذہبی دباؤ اور پابندیوں کاخاتمہ، پھانسی کا حکم دیتے وقت علاقائی اور بلوچ عوام کی مجبوریوں کو مدنظر رکھنا ایسے مسائل اور ضرورتیں ہیں جن کاحل سب سے پہلے ضروری ہے۔ اسلامی انقلاب سے اکتیس سال گزرنے کے باوجود ابھی تک بلوچستان ’’پسماندہ‘‘ اور ’’غربت زدہ‘‘ کے لاحقے وسابقے سے پہچانا جاتاہے۔ اسی طرح سب سے زیادہ ناخواندگی کی شرح رکھنے والا صوبہ پورے ایران میں صوبہ سیستان وبلوچستان ہے۔ صوبے کی49% آبادی پندرہ سال سے نیچے کی ہے اور جو افراد بظاہر زیر تعلیم ہیں ان کی کارکردگی بلکہ دراصل محکمہ تعلیم کی کارکردگی کا حال یہ ہے کہ تعلیمی سال 2008-9ء کے سالانہ امتحانات میں 77ہزار طلبہ فیل ہوگئے! پورے ملک میں یہ سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔ غربت کا یہ حال ہے کہ20 لاکھ آبادی سے پانچ لاکھ افراد امدادی اداروں کے چندوں سے گزارہ کرتے ہیں اور صوبے میں ڈیڑھ لاکھ خواتین اپنے گھروالوں کی واحد ذریعے معاش ہیں!
ضرورت اس بات کی ہے کہ امن وامان کی صورتحال کو یقینی بنانے کیلیے ایک قومی اجلاس بلایاجائے اور اس میں ہر طبقے کے بااثر اور سرکردہ افراد کو شرکت کی دعوت دی جائے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کیلیے ان کی تجاویز وآراء کو مدنظر رکھ کر عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔
بدامنی کے واقعات کے متاثرین کی دلجوئی اور نقصانات کا ازالہ چاہے ان کاتعلق کسی بھی فریق سے ہو حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ انتہائی بری روایت ہے کہ جب ایک برادری نشانہ بنتی ہے تو ان کے مشتعل اور جوشیلے ٹولوں کی راہ تاخیر سے بند ہوتی ہے جس سے چپقلش اور تصادم کاراستہ ہموار ہوتاہے۔ قانوں نافذ کرنے والوں کو چاہیے ایسے افراد کو بروقت روکیں، چاہے ان کاتعلق کسی بھی فریق سے ہو۔ عمومی املاک اور لوگوں کی ذاتی جائیداد کو نقصان پہنچانے سے نہ صرف کسی نقصان کا ازالہ نہیں ہوتا بلکہ مشترکہ دشمن کا مقصد اسی سے حاصل ہوتاہے۔ اسی لیے جن کانقصان ہواہے اس کا ازالہ ازحد ضروری ہے۔
آخرمیں ایک بار پھر ہم اس بات کو دہرائیں گے کہ لوگوں کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے اور بعض افراد کو انتہائی اقدام پرمجبور ہونے سے بچانے کیلیے مشترکہ قومی اجلاس بلایاجائے تاکہ کئی سالوں سے درپیش مسائل کے اسباب کی تہہ تک پہنچ کر قومی اتحاد اور امن کی بحالی سے زاہدان سمیت پورے ملک کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ بنایاجاسکے۔

سنی آن لائن/ اردو


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں