اتحاددشمن عناصرکی سازش کوعوام نے ناکام بنادیا،مولاناعبدالحمید

اتحاددشمن عناصرکی سازش کوعوام نے ناکام بنادیا،مولاناعبدالحمید
molana21زاہدان میں شیعہ برادری کی جامع مسجد وامام بارگاہ پرحملے کوخطرے کی گھنٹی قراردیتے ہوئے خطیب اہل سنت شیخ الاسلام مولاناعبدالحمید نے کہا ہم سب کو غور وفکر کرنی چاہیے اور امن خراب کرنے والوں کی سازشوں کوہمیشہ کیلیے ناکام بنانے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ عالمی سامراجی طاقتوں کوصوبے میں فرقہ واریت پھیلانے کی ہمت نہیں ہونی چاہیے۔ سیستان وبلوچستان کے عوام چاہے بلوچ برادری ہو یا زابلی و کرمانی یا بیرجندی، سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے واقعات کے اصل اسباب کوپیدا کرکے ان کے خاتمے کیلیے کوشش کریں۔ صرف رونے دھونے سے کام نہیں چلتا۔ اللہ نہ کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ عناصر جو ملک سے باہر ہمارے خلاف منصوبہ بندی کررہے ہیں عوام کو آپس میں دست وگریبان کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔

انہوں نے مزید کہا عوام کو تمام حالات میں سمجھداری کامظاہرہ کرنا چاہیے، انہیں مجرم وغیرمجرم کافرق کرناچاہیے۔ یہ سراسر غلط کام ہے کہ ایک دوسرے کی جان ومال پرحملہ کرکے بے قصور لوگوں کو نشانہ بنایاجائے۔ جس نے آگ لگائی ہے اسی کو آگ میں جلنا چاہیے نہ کہ وہ لوگ جن کاکوئی قصور نہیں اور ان کا کسی چیز کا پتہ نہیں مگر ایسے واقعات کے بعد نشانہ بنتے ہیں۔ یہی بات تو ہمارے دشنوں کا مطلوب ومقصود ہے۔
صوبے کے شاندارماضی کاتذکرہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے کہا اس خطے میں تمام قومیتیں دینی وملی برادری کے ساتھ کئی سالوں سے اکٹھی رہ رہی ہیں۔ اپنی خوشی وغم میں شریک رہی ہیں، دشمن کو معلوم ہونا چاہیے وہ عوام کے اتحاد کو پاش پاش کرنے میں ناکام ہوجائیں گے۔ اس طرح کے دہشتگردانہ واقعات کے بعد اختلاف وافتراق کے بجائے عوام کی صفوں میں مزید اتحاد ویکجہتی آتی ہے۔ چونکہ عوام غور وخوض کے ساتھ اپنے مسائل حل کرتے ہیں اور دشمن کے اہداف واغراض سے بخوبی واقف ہیں۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے مزید کہا جامع مسجد پرحملہ کرکے دشمن نے عوام کے اتحاد کو نشانہ بنایا لیکن الحمد للہ عوام نے ان کی سازش کو ناکام بنادیا۔ اس خوفناک کارروائی کے پیچھے کون ہے، یہ سب کو معلوم ہے اور لوگ جانتے ہیں یہ کچھ بھٹکے ہوئے عناصر ہیں جن کی پالیسی تشدد اور انتہاپسندی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسری جانب رہبر انقلاب نے بھی تاکید کی ہے کہ اس حملے کاذمہ دار عالمی سامراج ہے۔

حضرت شیخ الاسلام نے خطبے کے دوران اسلام کے احکام کو اصلاح اور تزکیہ کے اسباب قرار دیتے ہوئے فرمایا فرائض وواجبات میں آسمانی مذاہب میں بہت سارے مشترکات ہیں، مثلا نماز تھوڑے سے فرق کے ساتھ تمام آسمانی ادیان میں ہے۔ اسی طرح زکات، روزہ اور حج بھی گزشتہ آسمانی مذاہب میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ منہیات اور منکرات بھی آسمانی مذاہب میں مشترک ہیں۔ ان کیخلاف انبیا علیہم السلام نے محنت کی ہے۔ البتہ بعض چیزیں گزشتہ امتوں کیلیے جائز تھیں جنہیں اللہ تعالی نے مخصوص حکمتوں اور فلسفے کے تحت ہمارے لیے حرام قرار دیا ہے۔
نماز وزکات کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے خطیب اہل سنت نے کہا اسلام میں توحید، رسالت اور معاد کے بعد نماز وزکات کے علاوہ کسی بھی حکم پر اتنی تاکید نہیں ہوئی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس کے باوجود بعض لوگ نماز میں سستی کامظاہرہ کرتے ہیں اوربالکل لاپرواہ ہیں۔ نماز کے معاملے میں سستی انتہائی خطرناک ہے۔ اگر کسی عمل میں سستی ہوجائی تو نماز سے اس کاتدارک ہوسکتاہے لیکن اگر نماز چھوڑدی جائے تو اس کی تلافی کسی بھی عمل سے نہیں ہوسکتی۔ اس لیے نمازوں کو قضا کرنے سے سخت اجتناب کرنا چاہیے، کوشش یہ ہو کہ خشوع وخضوع کے ساتھ نمازوں کو ادا کی جائے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور صلحانے نماز ادا کی ہے۔
مولاناعبدالحمید نے مزید کہا زکات کاشمار بھی انتہائی اہم فرائض میں ہوتاہے۔ چنانچہ ستر مقامات پر قرآن پاک میں نماز وزکات کاحکم اکٹھے آیاہے۔ اس کے علاوہ بہت ساری جگہوں پر علیحدہ حکم آیاہے۔ اس قدرتاکید کے باوجود ایسے لوگ بھی ہیں جو زکات کی ادائیگی سے اجتناب کررہے ہیں۔ قرآن پاک مین آتاہے: اللہ نے تمہاری جان ومال جنت کے بدلے میں خریداہے۔ ’’مال‘‘ سے مراد کونسا مال ہے؟ وہ مال جس سے غریب ومسکین لوگ محروم ہیں؟ ہرگز نہیں! بلکہ ایسا مال قیامت کے دن وبال جان بنے گا۔ اس کا بدلہ جہنم ہے۔
یقین کیجیے جس مال کی زکات ادا نہ کی جائے روز قیامت وہ عذاب کا طوق بنے گا اور سانپ بن کر صاحب مال کی گردن کو موڑدے گا۔ ارشاد خداوندی ہے: «يوم يحمي عليها في نار جهنم فتكوي بها جباههم و جنوبهم وظهورهم هذا ما كنزتم لأنفسكم فذوقوا ما كنتم تكنزون» {توبه:35}; [جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی (مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لئے جمع کیا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھے]
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھائی : ایسے اموال کو نعمت نہیں کہاجاسکتا بلکہ یہ خدا کی طرف سے لعنت اور بلاہے۔ جس مالدار شخص نے اپنے جانوروں کی زکات نہیں دی ہے روزقیامت اسے الٹے منہ لٹادیاجائے گا جس کے اوپر سے اس کے جانور گزریں گے۔
صحابہ کرام کی سخاوتمندی اور شوق صدقہ کاتذکرہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام نے اس حوالے سے بعض واقعات کاذکر کیا جو ان کی مال سے عدم محبت اور انفاق کرنے کے شوق کا پتہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خالق کی رضامندی کے حقیقی خریدار تھے اور اس راہ میں کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کل لوگوں کو اپنی جان سے زیادہ مال اور جائیداد سے محبت ہے۔ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے اپنے سب سے بہترین اونٹ صدقہ کرنے کے بعد بہت زبردست نکتہ بیان فرمایا جو غور وتامل طلب بات ہے، انہوں نے فرمایا: انسان کا مال تین حالات سے خارج نہیں؛ یا کسی حادثے کی نذر ہوکر ختم ہوجاتاہے، یا وارثوں کی میراث بنتاہے، یا یہ کہ انسان اسے اپنی آخرت سنوارنے کیلیے ذخیرہ کرتاہے اور انسان کا مال یہی ہے۔
اپنے بیان کے آخرمیں جامع مسجد مکی کے خطیب نے کہا شعبان عبادت اور تزکیہ واصلاح کا مہینہ ہے۔ میری نصیحت یہ ہے کہ آپ اسی شعبان کے مہینے میں اپنی جائیداد اور مال کی زکات اداء کریں اور رمضان تک اسے موخر نہ کریں۔ نیک کام کو جتنا جلدی ہوسکے کرناچاہیے۔ اس لیے زکات کی مقدار کاصحیح اندازہ لگاکر مستحق مصارف کو زکات دیدیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں