فرانس میں نقاب مخالف تحریک کے روح رواں وزیر کا قبول اسلام !

فرانس میں نقاب مخالف تحریک کے روح رواں وزیر کا قبول اسلام !
france-mnisterلندن (العربيہ) فرانس میں نقاب کے خلاف مہم کے روح رواں اور فرانسیسی وزیر امیگریشن ایرک بیسون کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ وہ ایک مسلمان دو شیزہ سے شادی کے لیے عیسائی مذہب ترک کر کے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔

العربیہ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق فرانسیسی وزیر نے تیونس کی ایک خوبرو مسلمان دوشیزہ سے شادی کے لیے اس کے خاندان کے ساتھ اسلام قبول کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ امکان ہے کہ وعدے کے مطابق آئندہ ستمبر میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں گے۔ خیال رہے کہ حال ہی میں فرانس میں مسلمان خواتین کے نقاب اوڑھنے پرپابندی لگانے کی مہم میں اسلام کو ہدف تنقید بنانے میں ایرک بیسون سب سے آگے رہے ہیں۔
باون سالہ فرانسیسی وزیر کو حال ہی میں اس وقت شدید پریشانی اور آزمائش سے گزرنا پڑا جب فرانس کے اخبار “لور بارزین” نے ان کے تیونس کی دوشیزہ یاسمین ترجمان کے ساتھ معاشقے کی خبر شائع کی۔ اخبار نے مزید انکشاف کیا کہ ایرک، یاسمین کی ماں سے تیونس میں ملاقات میں ان سے یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ ان کی بیٹی سے شادی سے قبل اسلام قبول کر لیں گے۔ ان کے قبول اسلام کے وعدے سے متعلق خبر ایک ایسے وقت سامنے آئی تھی جب وہ پردے کے معاملے پر اسلام کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اس خبر نے انہیں نئی آزمائش میں ڈال دیا جس پرایرک کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ وہ مذہبا عیسائی ہیں اور فرانس کے سیکولر قانون پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی جانب سے یہ بیان قبول اسلام کے وعدے کی خبر کی تردید تھی۔
اس تشویش پر ان کے وکلا نے انہیں تسلی دی کہ فرانس کے آئین میں مذہب کی تبدیلی کوئی قابل عتراض اقدام نہیں۔ ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے وہ جس طرح کا عقیدہ اور مذہب اختیار کرے اس پر کوئی پابندی نہیں۔ اس سےایرک کی تشویش میں کافی حد تک کمی ہوئی۔
اخبار لکھتا ہے کہ فرانسیسی وزیر کی شادی کے لیے 16 ستمبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے تاہم اس کی ایرک کی جانب سے تصدیق یا تردید نہیں ہوئی۔ ایرک بیسون کچھ عرصہ قبل اپنی مبینہ معشوقہ یاسمین ترجمان کے ہمراہ تیونس کے صدر زین العابدین کی بیٹی کی شادی میں مراکش گئے جہاں ان کی ملاقات یاسمین کی والدہ سے بھی ہوئی۔ اس ملاقات میں ایرک نے اپنی پیش آئند خوش دامن کو یقین دلایا کہ یاسمین کے ساتھ کے انکے سنجیدہ اور حقیقی محبت پر مبنی تعلقات ہیں اور وہ رواں سال ستمبر تک اس سے شادی سے قبل اسلام قبول کر لیں گے۔
یاد رہے کہ اسلام ایک مسلمان خاتون کی کسی غیر مسلم کے ساتھ شادی کی اجازت نہیں دیتا جب تک وہ دائرہ اسلام میں داخل نہ ہو جائے۔ ایرک، مراکش میں صرف دو روز ٹھہرے۔ یاسمین کی ماں سے ان کی اب تک صرف ایک ہی ملاقات رہے ہے۔ واضح رہے کہ یاسمین اور ایرک کے درمیان تعلقات کا انکشاف اوائل 2009ء میں اس وقت ہوا جب ایرک کی سابقہ بیوی سیلفی برونل نے ایرک سے طلاق لینے کے بعد اپنی خود نوشت شائع کی۔ کتاب میں برونل ایرک کے ساتھ پچیس سال پر محیط ازدواجی تعلقات کو نہایت مایوس کن قرار دیا ۔ وہ لکھتی ہیں کہ”گو کہ ایرک سے اس کے تین بچے ہوئے تاہم شادی سے طلاق تک کے پورے عرصے میں ایرک نے اس کے ساتھ ایک وفادار شوہر کا سلوک نہیں کیا بلکہ شادی سے قبل کے پانچ سال جب وہ ایک دوسرے کے دوست تھے تب بھی ایرک کو ایک بے وفا ہی دیکھا گیا۔”
وہ مزید لکھتی ہیں کہ طلاق لینے سے قبل مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ ایرک کے ایک نوجوان لڑکی سے تعلقات ہیں۔ وہ لڑکی اس کی بڑی بیٹی الکزنڈرا کی ہم عمر ہے۔ یہ واضح رہے کہ یاسمین ترجمان کی عمر اٹھائیس سال ہے جس کا ایرک کی عمر سے کوئی میل نہیں کیونکہ ایرک بیسون اب باون سال کے ہو چکے ہیں۔ فرانسیسی وزیر ایرک بیسن پیدائشی یتیم ہیں۔ ان کے والد مراکشی نژاد تھے جو بعد میں فرانسیسی فوج میں پائلٹ بن گئے۔ ایرک کے والد ان کی پیدائش سے تین ماہ قبل ہی ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

اضطراری حالت اور پردہ
ادھر دوسری جانب سعودی عرب کے ایک ممتاز عالم دین شیخ عائض القرنی نے کہا ہے کہ اسلام میں پردے سمیت تمام معاملات میں کشادگی کی گنجائش موجود ہے۔ اگر مجبوری کی حالت میں پورا چہر ڈھانپنے پر پابندی ہو تو پردہ مکمل طور پر ترک کرنے سے بہتر ہے کہ چہرے کو کھلا رکھا جائے۔
خیال رہے کہ چہرہ کھلا رکھنے سے متعلق یہ رائے صرف عائض القرنی کی نہیں اس سے قبل شافعی علماء اور مالکی فقہاء بھی اس کی تائید میں فتوے جاری کر چکے ہیں۔
سعودی عالم دین نے ایک اخباری انٹرویو میں کہا کہ “اللہ کا فرمان ہے کہ [اتقو اللہ ما ستطعتم] کہ جتنا تم سے ہو سکے اللہ سے تقویٰ اختیار کرو۔ یہ آیت ہمیں اس چیز کی اجازت دیتی ہے کہ مکمل پردہ ترک کرنےسے بہتر ہے کہ جتنا پردہ کیا جا سکے کرنا چاہیے”۔
عائض القرنی نے یہ رائے یورپ اور مشرق وسطیٰ بالخصوص سعودی عرب کی سیاحت کے لیے فرانس جانے والی خواتین کی سہولت کے تناظر میں دی ہے۔ یورپ اور مشرق وسطیٰ سے گرمیوں کی تعطیلات گزارنے کے لیے بڑی تعداد میں شہری فرانس کا سفر کرتے ہیں۔ ان میں پردے کی پابند مسلمان خواتین بھی شامل ہیں۔ فرانس میں خواتین کے نقاب اوڑھنے پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد ان مسلمان خواتین سیاحوں کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ شیخ قرنی کے فتوے کے مطابق فرانس میں تعلیم کے حصول کے لیے جانے والی طالبات بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں کیونکہ وہ بھی حالت اضطرار میں ہیں۔
شیخ عائض نے فرانسیسی حکومت کی جانب سے پردے پر پابندی کے فیصلے کی شدید مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس ایک سیکولر جمہوری آئین کا علمبردار ملک ہے۔ جمہوریت میں ہر شخص کو ہرقسم کی مذہبی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ فرانس کی حکومت نے مسلمان خواتین کے نقاب اوڑھنے پر پابندی عائد کرکے خود اپنے ہی جمہوری اور سیکولر آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے فرانس حکومت سے پردے سے متعلق فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
خیال رہے کہ حال ہی میں فرانسیسی حکومت نے طویل عرصے کے سیاسی بحث و مباحثے کے بعد اپنے ہاں مسلمان خواتین کے عوامی جگہوں پر نقاب اوڑھنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ نقاب پر پابندی کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اس کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کو جرمانے کیے جائیں گے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں