ہم 2014 تک افغانستان کا مکمل سیکیورٹی کنٹرول چاہتے ہیں: حامد کرزئی

ہم 2014 تک افغانستان کا مکمل سیکیورٹی کنٹرول چاہتے ہیں: حامد کرزئی
karzai-hillکابل (ایجنسیاں) سخت سیکیورٹی انتظامات کے تحت افغان دارلحکومت کابل میں ہونے والی لینڈ مارک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی نے اعلان کیا ہے کہ افغان عوام سنہ 2014 تک ملک کے تمام 34 صوبوں میں سیکیورٹی کے انتظامات خود سنبھالنا چاہتے ہیں۔

سنہ 2014 کی ڈیڈ لائن اس نقشہ راہ کے تین برس بعد کی ہے کہ جو امریکی صدر براک اوباما نے افغانستان کے 34صوبوں سے فوج کے انخلاء کے لئے طے کر رکھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ “میں اس بات پر کامل یقین رکھتا ہوں کہ افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی فورسسز سنہ 2014 تک ملک کے 34 صوبوں میں قانون نافذ کرنے والے آپریشنز کا مکمل کنڑول سنبھال لیں گے۔

کانفرنس سے پہلے دھماکے

افغانستان میں دیرپا قیام امن اور تعمیر نو سے متعلق کابل میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے آغاز سے پہلے چار زور دار دھماکے سنے گئے۔ یہ دھماکے پیر رات گئے ہوئے کہ جب امداد دینے والے ملکوں کے نمائندے، امریکی سیکرٹری خارجہ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل آرام کر رہے تھے۔ کانفرنس کے پرامن انعقاد کے لئے کابل کو پہلے ہی “نو گو ایریا” قرار دے دیا گیا تھا ۔
اس کانفرنس میں ہندو کش کی اس ریاست میں اب تک کی مثبت اور منفی پیش رفت کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ کابل میں جاری بین الاقوامی افغانستان کانفرنس میں 70 سےزائد ملکوں، بین الاقوامی اداروں اور علاقائی تنظیموں کے اعلیٰ نمائندے شریک ہیں۔ اس اجتماع میں امریکا کی نمائندگی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کر رہی ہیں۔
افغانستان کے لئے یہ بین الاقوامی امدادی اجتماع اپنی نوعیت کی نویں انٹرنیشنل کانفرنس ہے، جس کی صدارت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اور افغان صدر حامد کرزئی مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔
اس کانفرنس میں افغانستان کی طرف سے بہتر حکومتی کارکردگی، معاشی ترقی، قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کے احترام کی صورت حال میں بہتری کے حوالے سے کئی تجاویز پیش کی جائیں گی۔
اس کے علاوہ بین الاقوامی برادری سے یہ مطالبہ بھی کیا جائے گا کہ مختلف ملکوں اور اداروں نے افغانستان کو اس کی تعمیر نو کے لئے مجموعی طور پر جو 13 بلین ڈالر مہیا کرنے کے وعدے کر رکھے ہیں، ان میں سے 50 فیصد رقوم اگلے دو برسوں میں افغانستان کو خود کابل حکومت کے ذریعے مہیا کی جائیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں