زاہدان دھماکوں کی مذمت کرتے ہیں، معلول کے بجائے علت کاخاتمہ کیاجائے، مولانا عبدالحمید

زاہدان دھماکوں کی مذمت کرتے ہیں، معلول کے بجائے علت کاخاتمہ کیاجائے، مولانا عبدالحمید
molana27جامع مسجدمکی زاہدان میں جمعے کی نماز سے قبل نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولاناعبدالحمید نے زاہدان میں ہونے والے حالیہ بم دھماکوں کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحرائے منا میں اپنے آخری خطبے میں خونِ مسلم کی حرمت پرسخت تاکید فرمائی۔ آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کے خون کو تین محرمات (ماہ حرام، حرم مکی، عیدالاضحی کی حرمت) سے تشبیہ دی۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے مزیدکہاصرف مسلمان کے خون نہیں بلکہ غیرمسلموں کاخون بھی بلاوجہ بہانا اسلام میں حرام ہے۔ بعض مخصوص شرائط کے تحت مثلا جب وہ جارحیت اور جنایت کاارتکاب کریں تو علمائے کرام جہاد کافتویٰ دے سکتے ہیں۔ ایسے فتاویٰ صادرکرنا بھی ہرکسی کاکام نہیں ہے۔ شیعہ وسنی سب خود کو اسلام سے منتسب کرتے ہیں۔ ان کے خون کااحترام وحفاظت از حد ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہاشب جمعے کے سانحے نے ہم سب کو حیران کردیا۔ ہم نے سوچا اب یہ واقعات رک جائیں گے۔ سوال یہ ہے کس منطق اور شرعی فتوے نے عبادت گاہوں پرحملے کی اجازت دی ہے؟ کون سا عالم دین ہے جو ایسے حملوں کو جائز قرار دے سکتاہے؟ اسلامی تعلیمات کی روسے غیرمسلموں کی عبادتگاہوں پرحملہ کرنا جائز نہیں پھر مسلمانوں کو مساجد میں لہولہاں کردینا اور انتشار وبدامنی پھیلانا کس طرح جائز ہوسکتاہے۔ اللہ تعالی کے سامنے ان کے پاس کیا جواب ہوگا؟
مولاناعبدالحمید نے مزیدکہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مرتبہ لڑائی کے دوران کسی صحابی نے ایک ایسے فرد کو مارڈالا جو ’’لااِلہ الا اللہ‘‘ کا کلمہ زبان پر لاچکاتھا۔ صحابی نے سوچا مقابل میں آنے والاشخص جان بچانے کی کوشش کررہاہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ معلوم ہوا تو آپ نے اس عمل سے اللہ کے سامنے برائت کا اعلان فرمایا۔ ہم بھی اس خلاف شرع عمل سے اللہ کے سامنے برائت کا اعلان کرتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھائی سوال یہ ہے کہ جو افراد ان حملوں میں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں کس جرم میں مارے گئے، کیا وہ عدالتی کاروائی کے بعد مجرم قرار دیے گئے اور انہیں سزا ملی؟ کوئی بھی عالم ایسے خوفناک جرائم کی توجیہ کرکے ان کے حق میں فتوی نہیں دے سکتا۔ قرآن پاک نے تصریح کرکے ایسی حرکتوں کو ناجائز قرار دیا ہے۔ یہ کاروائیاں جہاد نہیں بلکہ فساد ہیں۔ میں اخلاص کے ساتھ کہتا ہوں یہ صحیح راستہ نہیں ہے۔ پاکستان میں جو صورتحال اورفضا قائم ہوئی ہے تمام علمائے کرام بالاتفاق ناراض ہیں اور ایسی کاروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ایسے حالات میں ہر شخص ہر جگہ عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہوتاہے۔
حضرت شیخ الاسلام نے با اثر افراد بشمول علمائے کرام، قبائلی عمائدین اور دانشوروں سے مطالبہ کیا کہ ایسے واقعات کو معمولی نہ سمجھیں۔ مولانا عبدالعزیز اور آیت اللہ کفعمی کے دور میں صوبہ سیستان وبلوچستان امن کا گہوارہ تھا اور شیعہ وسنی بھائی بھائی بن کر رہتے تھے۔ لیکن آج کل بعض نادان لوگ صوبے کو آگ لگانا چاہتے ہیں۔
ایک اہم نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اتحاد مدارس اہل سنت کے سربراہ نے کہا صوبے کے مسائل نے سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے، ان کے مقابلے کے لیے سنجیدہ تدبیروں کی ضرورت ہے۔ حکام سے ہمارا مطالبہ ہے دوراندیشی ا ور اکیڈمک تحقیقات سے خطے کے عوام کی مدد اورتعاون حاصل کرکے مسائل کی جڑ کی شناخت کرٰیں۔ اس طرح بدامنی کے اصل اسباب ومحرکات کا خاتمہ کریں۔ تدبیر ودوراندیشی ہی سے ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا بیماری کا علاج اس وقت ممکن ہے جب صحیح طریقے سے اس کی تشخیص ہوجائے، اس کے اسباب ووجوہات معلوم ہوں۔ پہلے بھی میں نے کہاہے معلول کے بجائے علت کامقابلہ کیاجائے۔ جب تک علت کاعلاج نہ کیاجائے اور ان واقعات کی اصل وجوہات ختم نہ کیے جائیں تو معلول کاخاتمہ ناممکن ہے۔
عوام کو پرامن رہنے کی دعوت دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا شیعہ وسنی سب پرسکون رہیں اور سازشوں کوناکام بنادیں۔ امکان ہے بعض شرپسندا ور جرائم پیشہ عناصر شہر کاامن خراب کرنے کی کوشش کریں۔ آپ چوکس رہیں، کسی کی جائیداد ودوکان پرحملہ نہیں ہونا چاہیے۔ انتظامیہ کو پوری طاقت کے ساتھ ایسے عناصر کاراستہ روکنا چاہیے، چاہے ان کاتعلق کسی بھی فریق سے ہو۔ کشیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض شرپسند نہتے عوام کو نشانہ بناتے ہیں اور لوگوں کی ذاتی جائیداد پرحملہ کرکے اپناغصہ ٹھنڈا کرتے ہیں۔ حکومت کو آزادانہ تحقیقات کرکے جن لوگوں کی جان ومال کو نقصان پہنچ چکاہے اس کازالہ کرناچاہیے۔
عظیم سنی رہنما نے امید ظاہرکی یہ آخری واقعہ ہو جس کی توقع بھی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا ہم جاں بحق افراد کی مغفرت اور زخمیوں کی جلدصحت یابی کیلیے دعا کرتے ہیں۔
آخرمیں انہوں نے کہا بدامنی کی بدترین قسم انتشار اور ہرج ومرج ہے کہ نہ قاتل کو معلوم ہے کس کو قتل کررہاہے اور نہ ہی مقتول کو معلوم ہے کیوں قتل ہوا ہے۔ امید ہے ان دھماکوں کے ملزمان قانون کے ہاتھوں میں گرفتار ہوکراپنے اعمال کی سزا پائیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں