خلیفہ ششم سیدنا معاویہ کی عسکری اور انتظامی خدمات

خلیفہ ششم سیدنا معاویہ کی عسکری اور انتظامی خدمات
ameer-muawiayآپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایاکہ ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان کو اس حالت میں اُٹھائیں گے کہ اُن پر نورِ ایمان کی چادر ہو گی ” ۔ (کنزالعمال)

حضرت معاویہ کا شمار ممتاز صحابہ کرام میں ہوتا ہے ۔ خدا داد ذہانت اور قابلیت کی بدولت آپ کو کاتب ِ وحی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ حضور صلى الله عليه وسلم نے آپ کو کاتب وحی کے لقب سے نوازا تھا۔ عہد رسالت کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں آپ نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ حضرت ابو بکر صدیق کی عہد ِ خلافت میں فوج سیدنا یزید بن ابی سفیان کے زیر ِ کمان بھیجی گئی تھی، اُس فوج میں ایک دستے کی کما ن حضرت معاویہ کے ذمہ تھی۔حضرت عمرفاروق کے عہد ِ خلافت میں بیش بہا خدمات اور اعلی ٰ قابلیت کے باعث دمشق کے گورنر مقرر کئے گئے تھے۔ حضرت عثمان غنی کے دورِ خلافت میں آپ کو شام کا گورنر مقرر کر دیا گیا تھا۔ آپ نے حضور صلى الله عليه وسلم کا زمانہ دیکھا تھا چنانچہ 41ہجری میں جب آپ کی خلافت کا آغاز ہواتو سعادگی کو اپنا شعار بنا کر اسلامی حکومت کو بے حد وسیع کیا۔
حضرت معاویہ کی بہن سیدہ اُم حبیبہ آقائے دو عالم محمد الرسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زوجہ تھیں۔حضرت معاویہ کے خاندان میں سپہ سالاری پشت در پشت چلی آرہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ بھی ایک اعلیٰ پائے کے سپہ سالار تھے، آپ نے عسکری معاملات کیطرف خاص توجہ طور پر دیکر اِنکو بہتر بنایاخاص طور پر بحری فوج کو بے حد ترقی دی اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر دیا۔ گوکہ بحری بیڑے کا قیام حضرت عثمان غنی کے دور میں عمل میں لایا جا چکا تھا تاہم اس میں بے پناہ اضافہ کر کے بحری جہازوں کی تعداد پانچ سو تک بڑھا دی۔ اور جنادہ بن اُمیہ اوعبداللہ بن قیصر حارثی کو بحری فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا ۔ مصر میں جہاز سازی کا ایک عظیم کارخانہ قائم کیا۔ فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک گرم علاقوں میں لڑنے کیلئے اور دوسری سرد علاقوں میں لڑنے کیلئے ، اسطرح فوج ہر دو موسموں میں کفار سے برسرِ پیکار رہتی۔ البتہ بری فوج کا نظام اُنہی بنیادوں پر تھا جو حضرت عمر فاروق کے دور میں تھیں۔
پولیس کا محکمہ جو حضرت عمر فاروق کے کے عہدِ خلافت میں قائم ہوا تھا اسے ترقی دیکر وقت کے تقاضوں کے ہم آہنگ کر دیا جسکی وجہ سے امن و امان کی صورتحال تسلی بخش رہی۔
ڈاک کا خاطر خواہ انتظام کرنے کیلئے کوئی خاص محکمہ نہ تھا۔ سیدنا امیر معاویہ نے برید کا محکمہ قائم کرکے ڈاک کی ذمہ داری حکومت کے سپرد کردی۔ ڈاک کا انتظام یہ کیا کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر گھڑ سوار سرکاری ملازموں کا ہاتھ بٹانے کیلئے موجود رہتے اور ڈاک دُور دراز علاقوں تک پہنچاتے۔
سرکاری فرامین کی نقول نہیں رکھی جاتی تھی، جسکی وجہ سے تنازعات جنم لیتے۔ آپ نے سرکاری ریکارڈ کی نقول جمع کرنے کیلئے پہلی دفعہ دیوان خاتم کا دفتر قائم کیا اور اسکی نگرانی ایک اعلیٰ افسر کے سپرد کی۔ اس طرح بد عنوانی اور تنازعات کے خدشات ختم ہوگئے۔مفتوحہ علاقوں میں نو مولود بچوں کے ناموں کے اندراج کا محکمہ بھی آپ نے قائم کیا۔۔آپ کے حکم پر متعددنئے شہر بسائے گئے اور وہ شہر جو تباہ و برباد ہو چکے تھے نئے سرے سے آباد کئے گئے۔ بربروں اور رافضیوں کی بغاوتوں کو مسلسل کچلنے کیلئے قیروان شہر بسایا گیا اور وہاں فوجی چھاونی قائم کی گئی انطاکیہ میں ایک مسلم نو آبادی بسائی گئی اور کئی جزیروں میں مسلمانو ںکو بسایا گیا۔
خلیفہ ششم سیدنا معاویہ 22رجب 60ہجری میں دنیائے فانی سے 75برس کی عمر میںرخصت ہوئے۔ خلافہ راشدین میں سب سے زیادہ خلافت آپ کی تھی۔آپ نے 64 لاکھ مربع میل پر 19برس اور چند ماہ حکمرانی کی،آپ نے 4500علاقے فتح کئے، قیساریہ جیسا شہر اپنی کمانڈ میں فتح کیا جسکے 300بازار تھے ایک لاکھ پولیس روزانہ اِس شہر میں گشت کرتی تھی۔ روڈس اور افریقہ کو آپکی چار ہزار فوج نے بحری جہازوں کے ذریعے فتح کر کے ”محمد صلى الله عليه وسلم” کا قرآن سنایا۔، حضر ت ضحاک بن قیس نے آپکی نماز ِ جنازہ پڑھائی اور آپ کو دمشق کے باب الصغیر میں دفن کیا گیا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

جب بڑھا معاویہ تو روم پار کر گیا
سلطنتیں کفار کی وہ تار تار کر گیا

آپ معزز صحابی رسول اور کاتب ِ وحی تھے آپ کو دینی معاملات سے بے حد لگائو تھا۔ دین و مذہب کی خدمت ان کی اصلا حات کا ایک حصہ تھا ۔ آپ کے زمانے میں اشاعت اسلام کا وسیع پیمانے پر کام ہوا ۔ حرمین شریفین کی خدمت کیلئے غلام مقرر کئے۔آپ کو خانہ کعبہ پرپہلا غلاف چڑھانے کا شرف حاصل ہوا۔ متعدد مساجد تعمیر کر کے انکے انتظامات پر خاص طور پر توجہ دی اور اُنکی دیکھ بھال کا خاص طور پر انتظام کیا۔
یاد رکھنے کیلئے گزارش آج کچھ شر پسند عناصر ہر سال بڑے ذوق شوق کیساتھ 22رجب کو کونڈوں کی رسم نبھاتے ہیں۔ دراصل یہ دشمنان اسلام کا گروہ ہے اور یہ یوم وفات سیدنا معاویہ پر جشن مناتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ حضرت جعفر صادق کا یوم پیدائش ہے یہ سب جھوٹ ہے، حضرت جعفر صادق نہ تو 22رجب کو پیدا ہوئے اور نہ ہی اِس دن اُن کی وفات ہوئی۔ اللہ تعالی ہم سب کو رفقائے نبی صلى الله عليه وسلم کی سچی اور پکی محبت عطا فرمائے۔
گر شوق ہے تجھ کو جنت کا تو پلہ تھا صحابہ

محمد ابو سفیان ملک


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں