تقریب ختم بخاری دینی مقاصد کیلیے ہے سیاسی نہیں،اہل سنت کے مدارس کوحکومتی اصلاح کی ضرورت نہیں، شیخ الاسلام

تقریب ختم بخاری دینی مقاصد کیلیے ہے سیاسی نہیں،اہل سنت کے مدارس کوحکومتی اصلاح کی ضرورت نہیں، شیخ الاسلام
molana-khatm_89خطیب اہل سنت زاہدان حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے تقریب ختم بخاری وتقسیم اسناد دارالعلوم زاہدان، ایران کے گزشتہ سالوں میں انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اس سال بعض مسائل اور سرکاری رکاوٹوں کی وجہ سے ہمیں تقریب ایک دن تک محدود کرنی پڑی۔ گزشتہ سالوں میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ لوگ دوسرے دن میں شرکت کیلیے پہنچ جاتے، چنانچہ ہمیں تشویش ہوئی کہ معلوم نہیں شرکت کرنے والے مسلمان بھائی ایک ہی دن میں اکٹھے ہوسکیں گے یا نہیں؟ لیکن جب میں آپ کے اس عظیم اجتماع اور سیل رواں کو دیکھتاہوں تو ہم آپ حضرات کو خراج تحسین کئے بغیرنہیں رہ سکتے۔ مختلف صوبوں خاص کر سیستان وبلوچستان کے باہمت مسلمانوں کی آمد سے مجھے بہت خوشی ہوئی اور اس سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی۔

ایک لاکھ سے زائد سنی مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزیدکہا اس نورانی محفل میں علمائے کرام، دانشوروں، عمائدین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات خاص کرخواتین کی موجودگی رحمت الہی کاباعث ہے۔ ان حضرات وخواتین نے دوردراز علاقوں سے سفر کی مشقت برداشت کرکے زاہدان تشریف لاچکے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا انیس سالوں سے یہ تقریب منعقد ہوتی چلی آرہی ہے۔ شروع میں تقریب ختم بخاری جامع مسجدمکی کے اندرمنعقد ہوتی تھی۔ جب عوام کاہجوم بڑھنے لگا اور اندرون وباہرملک سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ تیز ہوا تو اس کا مقام انعقاد مرکزی عیدگاہ متقل ہوا۔یہ جلسہ ایک ثقافتی وخالص دینی مجلس ومحفل ہے، کوئی سیاسی جلسہ یا اجلاس نہیں ہے۔ آج تک یہاں ایک سیاسی نعرہ بھی نہیں لگایاگیا۔ عام طور پرسیاسی جلسوں کے آخرمیں بیان جاری ہوتاہے یامطالبے پیش کیے جاتے ہیں۔ ہماری اس تقریب میں کبھی ایسا کوئی بیان جاری نہیں ہوا ہے اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ یہ سیاسی میٹنگ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا ہم نے کئی مرتبہ حکام کو کہا ہے کہ یہ تقریب ملک کیلیے بھلائی کاذریعہ ہے۔ ہم ہرگز ریاست یا شیعہ عوام کے دشمن نہیں ہیں اور ’’وہابیت‘‘ و’’فرقہ واریت‘‘ جیسے لیبل سے ہمارا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ ہمارا مسلک اہل سنت والجماعت ہے، انتہاپسندی وتشدد نہیں اور ہمارا طریقہ میانہ روی اور اتحاد پرمبنی ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا جس طرح ہمیں اسلام پر فخر ہے اسی طرح ہمیں اپنے ملک ایران پر ناز ہے۔ (حاضرین کا نعرہ تکبیر)، کسی بھی مذہب کی مقدسات کی گستاخی کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ ہم فرقہ ورایت کیخلاف ہیں اور اس کی مخالفت ہمارا عقیدہ ہے۔ شیعہ برادری سے ہمارے تعلقات بہت پرانے ہیں۔ یہاں اگر شیعوں پر سخت دن آئے ہیں، انہیں اغواء کیا گیا تو سنی مسلمانوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا۔ ہماری پریشانی شیعہ وسنی کے لیے یکسان رہی ہے۔
حضرت شیخ الاسلام نے کہا ہم لوگوں کی نظریات وعقائد کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ہر شخص خود اپنے عقائد کا ذمہ دار ہے۔ اگر اس کے عقائد صحیح ہوں تو اجر اسی کو ملی گا غلط ہوں جوابدہ ہوگا۔ اہل سنت بھی آپس میں مختلف آراء رکھتے ہیں اور یہ ایک طبعی مسئلہ ہے، کوئی عجیب بات نہیں۔ لیکن میں سارے حکام کو یقین دلاتاہوں کہ دینی مدارس اور ختم بخاری کی تقاریب حکومت اور شیعہ مسلک کیخلاف نہیں ہیں بلکہ یہ علم کے اعزاز میں منعقد ہوتی ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہماری عزت دین، ہدایت اور علم میں ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ایران کی مختلف سنی اقوام اور برادریوں کو زیادہ سے زیادہ دیندار اور ہدایت کے سرچشموں سے سیراب بنائیں۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی مقصد نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے گزشتہ سالوں میں غیر ملکی مہمانوں کی تقریب ختم بخاری دارالعلوم زاہدان میں شرکت کو ریاست کے حق میں قرار دیتے ہوئے کہا بہت سارے غیر ملکی مہمان جو گزشتہ سالوں میں یہاں آئے تھے اس بات کا معترف ہوئے کہ ایران آنے سے قبل ان کے تحفظات تھے۔ حتی کہ ان کے ملکوں میں ایرانی سفیروں کی دعوت کے باوجود وہ ایران آنے کے لیے تیار نہیں ہوئے تھے۔ لیکن زاہدان آکر ان کی شکایات دور ہوئیں اور انہوں نے ہماری مذہبی آزادی کو محسوس کیا۔
عظیم سنی رہ نما نے کہا ایرانی سنیوں کے باہمی تعلقات سے حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہ تعلق آزادی کی علامت ہے اور اس سے معاشرے میں اسلامی بھائی چارہ اور امن وامان کی صورتحال میں بہتری آتی ہے۔۔۔۔۔۔
مولانا عبدالحمید نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہپ بہت سارے خطباء وعلمائے اسلام کو زاہدان آنے سے روک دیا گیا اور مزید گویا ہوئے متعدد صوبوں اور ملکوں کے عوام اور اسکالرز اس تقریب میں شرکت سے منع ہوئے۔ حتی کہ ملیشیا کی اسلامی یونیورسٹی کے دو ہروفیسرز اور شام کی الفتح یونیورسٹی کے بعض اساتذہ جو ہمارے مہمان تھے تہران تک آئے لیکن انہیں زاہدان آنے سے روک دیا گیا اور ہم اپنے مہمانوں کے سامنے شرمندہ ہوئے۔
ہمیں امید ہے سیاسی حکام کے لیے ہماری مذہبی آزادی قابل برداشت ہو۔ ہم اسلامی نظام کے حامی ہیں، کسی سیکولر نظام کے خواہاں نہیں ہیں۔ جب تک یہ نظام حکومت عدل وانصاف اور مساوات کے نفاذ کرنے والی ہو ہم اس کے علاوہ کسی اور سسٹم کے حق میں نہیں ہوں گے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا اسی زاہدان شہر میں گزشتہ سال کچھ اختلافات پہش آئے۔ لیکن ہم نے ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کیا اور اپنی کوششیں بروئے کارلائی تا کہ کسی کا خون زمین پر نہ گرے۔ بیس آدمی زاہدان میں مارے گئے۔ ہم نے شیعہ وسنی دونوں کے لیے افسوس کا اظہار کیا جو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لیکن یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ بعض انتہا پسندوں کو اہل سنت اور وہابیت کا فرق معلوم نہیں اور سنیوں کیخلاف الزام تراشی ان کا وطیرہ ہے بعض اخبارات نے اس تقریب کے بارے میں لکھا ہے: ’’ چند دن بعد وہابیت کا بڑا اجتماع زاہدان میں منعقد ہوگا‘‘ ان کا اخبارات کو وہابیت کا مفہوم معلوم نہیں۔ انہیں پتہ نہیں کہ ہم وہابی نہیں ہیں۔ ہم کشادہ دلی ودور اندیشی سے کام لیتے ہیں اور یہ روشنائی کتاب وسنت سے ہمیں ملی ہے۔ [عوام کا نعرہ تکبیر]
مولانا عبدالحمید نے تاکیدکی حکام کو چاہیے ہمارے حوالے سے سعہ صدر اور کشادہ دلی کامظاہرہ کریں اور مختلف بہانوں کے تحت ہماری آزادی کو پامال نہ کریں۔ ’’اصلاح مدارس اہل سنت۔ علماء ومساجد‘‘ جیسی اصطلاحات محض بہانے ہیں ۔ ہم اصلاح شدہ ہیں ہمیں حکومتی اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں۔ [نعرہ تکبیر]
حکومت سے پیسے نہیں مانگتے لیکن ہمارا مطالبہ ہے یونیورسٹیز کے گریجویٹس کو ادارہ مملکت میں شریک بنایاجائے، ہمارے جوانوں کومسلح اداروں میں حصہ دیاجائے۔ ہم نے آٹھ سال تک ملک کی مغربی سرحدوں کادفاع کیا اور صدام کی جارحیت کیخلاف اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیا۔ لیکن اب پولیس اور فوج میں سنی برادی کی موجودگی کالعدم ہے۔ ان اداروں سے سنیوں کو بیدخل کیاگیا۔ ہم ایرانی ہیں اور اپنے ملک کادفاع کرناچاہتے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد نے انگریزوں سے لڑکر انہیں وطن سے نکالا۔ ہم اس ملک کے وارث ہیں اس لیے عہدوں کی تقسیم میں مساوات وعدل سے کام لیاجائے۔ اگر کسی سنی نے قانون کی خلاف ورزی کی تو اسے قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔ لیکن قرآن لی تعلیم وتبلیغ کو جرم نہ بنایاجائے، اس کیلیے رکاوٹیں کھڑی کرنا اور ہماری راہ بند کرنا مناسب اقدام نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا افراط کرنے والے افراد دونوں فرقوں میں ہیں۔ حکام سے ہمارا مطالبہ ہے کہ انتہاپسند شیعوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ ہم اپنے انتہاپسندوں کے سامنے کھڑے ہیں اور شیعہ انتہاپسندوں کی راہ بھی بند ہونی چاہیے۔ شیعہ وسنی سب حضرت مہدی کی آمد کاعقیدہ رکھتے ہیں اور ان کے ظہور وپیدائش کو انصاف کی فراہمی کاذریعہ سمجھتے ہیں۔عدل وانصاف انتہائی ضروری امرہے جو ریاست کے استحکام، اتحاد اور قومی سیکورٹی کیلیے روح کی حیثیت رکھتاہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا اس سال جب تقریب ختم بخاری کی مدت محدود کردی گئی تو ہم نے مان لیا اور سختی کامظاہرہ نہیں کیا۔ عوام نے بھی مسئلے کو سمجھداری سے لیا۔ ہمیں کہاگیا سیستان وبلوچستان صوبے سے خارج کوئی شخص تقریب میں تقریر نہ کرے، اس پابندی کیخلاف اگرچہ ہمارے پاس دلائل ووجوہات بہت تھیں پھر بھی ہم نے اس پابندی کی خلاف ورزی نہیں کی۔ ہماری راہ منطق و بات چیت ہے، ہم راہ راست و اعتدال کے راستے سے انحراف کے حق میں نہیں ہیں۔ آپ علمائے اہل سنت کی تقاریر وبیانات غور سے سنیں تا آپ کو معلوم ہوجائے گا ہمارا پیغام اتحاد اور امن وامان کو برقرار رکھنا ہے۔
مرشداعلی آیت اللہ خامنہ ای سے ہماری درخواست ہے کہ وہ بذات خود اہل سنت والجماعت کے مسائل حل کریں، ہمارے بعض مسائل ومشکلات مثلا صوبائی وملکی عہدوں اورکلیدی مناصب کی تقسیم میں امتیازی سلوک اور مسلح اداروں سے سنیوں کو بیدخل کرنا اور انہیں ملازمت نہ دینا ایسے مسائل ہیں کن کاحل پارلیمنٹ اور عام حکام کے بس سے خارج ہے۔ ان مسائل کے حل کیلیے ہم نے مختلف چینلون سے کوشش کی مگر کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ اب یہ ہمارا حق بنتاہے کہ سپریم لیڈر سے مطالبہ کریں کہ وہ بذات خود میدان میں اتریں اور ہمارے مسائل جو ایرانی قوم کے ایک بڑے حصے کے مسائل ہیں کاحل نکالیں۔
حضرت شیخ الاسلام نے مزید کہا بہت سارے ملکی وغیرملکی مہمان جو تقریب میں شرکت سے روک دیے دیے گئے اگرچہ ہمارے ساتھ نہیں ہیں مگرہم انہیں اپنی دعاؤں میں ضروریاد کریں گے۔
آخرمیں انہوں نے زاہدان کے خادم عوام، پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے، شہری حکومت اور ان دیگرتمام اداروں کا شکریہ اداء کیا جو انیسویں تقریب ختم بخاری کے بہتر سے بہتر انعقاد کیلیے محنت کرکے کسی طرح اس میں شریک ہوئے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں