قاضی محمد یحیی رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال 1373 ھ۔ق (1954ء) میں سفر حج کے دوران مدینہ منورہ میں پیش آیا۔
مولانا محمد عمر سربازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس سال قاضی محمد یحیی کا انتقال ہوا میں بھی حج کے لیے حرمین گیا تھا۔ سفر حج کے دوران مکہ مکرمہ میں انہیں قمیص اتارتے ہوئے میں نے دیکھا کہ دعا کررہے تھے: یا رب! اس سرزمین پر مجھے موت دیدے!
ان کی دعا قبول ہوئی اور اسی سفر کے دوران ان کی موت واقع ہوئی۔
علامہ روانبد (رح) کی والدہ محترمہ کا نام “بی بی روزخاتون” تھا جو ملا بہرام ولد ملا حسن ولد ملا مراد جالقی کی بیٹی تھیں۔ آپ کے ننھیال کا تعلق ایرانی بلوچستان کے علاقہ جالق (سراوان) سے ہے۔ یہ خاندان علاقے کے ان محدود خاندانوں میں سے تھا جو شعر وعرفان، زہد اور ادب کے حوالے سے علاقے میں مشہور تھے۔ زیادہ تر متقی اور اہل علم لوگ تھے۔ علامہ روانبد (رح) کی والدہ انتہائی نیک اور صالحہ خاتون تھیں۔ خواتین کی بڑی تعداد نے آپ کے مدرسہ میں قرآن کریم اور بعض فقہی مسائل سیکھ کر دینی علوم سے ضروری حد تک بھرہ ور ہوئیں۔
علمی اسفار:
علامہ روانبد رحمہ اللہ نے ابتدائی تعلیم ایرانی بلوچستان کے تاریخی شہر “پیشین” میں اپنی والدہ کے مکتب خانہ میں حاصل کی۔ چھ سال کی عمر میں آپ نے قرآن کا ناظرہ مکمل کیا۔ پھر دیگر ابتدائی وبنیادی کتابیں اپنے والد ماجد سے پڑھیں۔ اپنی ذکاوت اور بے مثال ذہانت کی وجہ سے بہت آپ ابتدائی کتب سے فارغ ہوئے۔
مزید تعلیم کے شوق نے آپ کو کراچی کی راہ دکھائی جہاں وقت کے ممتاز ومعروف دینی مدرسہ “مظہر العلوم کھڈہ” جو دارالعلوم دیوبند کے بعد بر صغیر کا سب سے بڑا دینی تعلیمی ادارہ تھا میں داخل ہوئے۔ آپ نے وقت کے ممتاز علماء وعرفاء سے کسب فیض کیا۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا غلام مصطفی سندھی، مولانا قاری رعایت اللہ اور شیخ الحدیث حافظ فضل احمد نیز علامہ اقبال کے استاد مولانا علی محمد سندھی کا نام قابل ذکر ہے۔ مولانا محمد عمر سربازی (رح) نے بھی علامہ روانبد کے شیخ مولانا علی محمد سندھی سے مظہر العلوم کھڈہ میں استفادہ کیا ہے۔
مولانا غلام مصطفی قاسمی آپ سے بیحد متاثر تھے چنانچہ ایک مرتبہ گویا ہوئے: اگر مناسب حالات اور ماحول اس طالب علم کو میسر ہو تو یہ دوسرا انورشاہ کشمیری بنے گا۔ آپ نے شیخ الہند مولانا محمود الحسن (رح) کے شاگرد رشید مولانا محمد صادق کے دست مبارک سے ممتاز طالب علم کی حیثیت سے سند فراغت حاصل کی۔ آپ کو اپنی مادر علمی میں تدریس کی پیش کش کی گئی مگر آپ کے والد نے آپ کو اپنے آبائی علاقہ میں خدمت کا مشورہ دیا۔
علامہ روانبد (رح) نے وطن واپسی کے بعد گوادر کے قریب ایک مضافاتی علاقہ میں اپنی دینی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔ مدینہ منورہ میں والد کی وفات کے بعد آپ “پیشین” منتقل ہوئے اور یہاں والد کی جگہ عوام کی دینی رہ نمائی کرتے رہے۔
آپ کی سرگرمیاں اور نمایاں خدمات:
بدعات وخرافات اور معاشرتی برائیوں کی بیخ کنی:
عام طور پر جب کسی علاقے میں خداپرست علماء ومخلص داعیوں کی کمی ہوتی ہے تو خود بخود عوام بدعات وخرافات اور معاشرتی برائیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں عوام اور سادہ لوح لوگ علمائے سوء، بدعت پرست اور دین فروش لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اور نفس وشیطان کے مکر وفریب کا شکار ہوتے ہیں۔ چنانچہ آج سے چند عشرے پہلے بلوچستان میں طرح طرح کی بدعتین او بے بنیاد آداب ورسوم عام ہوچکی تھیں۔ لیکن اس سرزمین پر اللہ کا بڑا احسان ہوا کہ اس کے فرزندوں نے خالص توحید کی تربیت حاصل کرتے ہوئے شرک وبدعات پر مبنی رواجوں کی بیخ کنی کی اور لوگوں کو توحید وسنت کے سر چشموں سے سیراب کرایا۔ اس سلسلے میں مولانا روانبد (رح) نے شاندار خدمات سرانجام دیں اور خرافات وشرک کے مظاہر کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا۔ معاشرتے برائیوں کے خاتمے کے لیے ناقابل فراموش کاوشیں سرانجام دیں۔
پیشین کے متعدد شہریوں کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ شاہ کے دور حکومت میں بلوچستان کے ممبر پارلیمنٹ حاجی کریم بخش سعیدی نے لوگوں کو سودی قرضے دینے کا ارداہ کیا۔ علامہ روانبد (رح) اس جگہ پہنچے جہاں قرضے تقسیم ہونے تھے اور شاہ کے نمایندے کو مخاطب کرکے کہا: افسوس کی بات ہے کہ تم لوگ ترقی وعمران کے بجائے سودی قرضے دیکر لوگوں کیلیے خرابی وبربادی لاتے ہو۔ پھر عوام کو مخاطب کرکے فرمایا: لوگو! ان قرضوں کا لینا ہمارے لیے حرام ہے۔ اس کے بعد علامہ روانبد وہاں سے چلے گئے اور لوگوں نے بھی سودی قرضے کو چھوڑ کر خود کو حرام سے بچالیا۔
جب آپ “پیشین” منتقل ہوئے تو علاقے کی علمی ودینی پسماندگی کو دیکھ کر انہوں نے اپنی پوری توجہ اور کوشش عوام کے دینی تقاضوں کو پورے کرنے پر مرکوز کردی۔ اسی جذبے کے تحت انہوں نے 1388 (1968ء) ھ۔ق میں ایک دینی مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور بذات کود مسلمان بچوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے بعد آپ نے بعض نامور علمائے کرام کو پیشین آنے کی دعوت دی چنانچہ مولانا محمد رسولی، علامہ محمدابراہیم دامنی، مولانا محمد شارعی اور مولانا فضل اللہ جیسے علمائے کرام نے پیشین کے دینی مدرسہ میں اپنی دینی خدمات پیش کیں۔
جب تک آپ حیات تھے تو یہ مدرسہ بہت سرگرم وآباد تھا مگر آپ کے انتقال کے بعد زوال کا شکار ہوا یہاں تک کہ مولانا نظام الدین روانبد دامت برکاتہم نے مدرسے کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لی۔ آپ علامہ روانبد (رح) کے بڑے صاحبزادے ہیں اور مدرسہ کو پہلی حالت پر لانے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔
مسجد تعمیر کرنے کا شوق:
آپ کے مقبول وپسندیدہ اعمال میں سے ایک مسجد تعمیر کرنا تھا۔ جب بھی آپ ضرورت محسوس کرتے تو مساجد کی تعمیر یا مرمت کیلیے کمر بستہ ہوتے۔ آپ کی جد وجہد کے نتیجے میں جامع مسجد، مسجد نور، مسجد الہی، دینی مدرسہ کی مسجد، بازار کی مسجد اور عیدگاہ کی تاسیس عمل میں آئی۔
وعظ وارشاد:
علامہ روانبد رحمہ اللہ جمعہ وعیدین، ولیمہ اور تبلیغی دوروں کے مواقع پر لوگوں کو وعظ وارشاد فرماتے تھے۔ آپ کے بیانات اکثر اصلاحی، اعتقادی، سیرت، حقوق اللہ، آخرت کے احوال، معاشرتی واخلاقی برائیوں اور کتاب وسنت پر عمل کرنے سے متعلق تھے۔ آپ اپنی تقاریر میں لوگوں کو نماز قائم کرنے کی ترغیب دیتے اور صراحت کے ساتھ بدعات وخرافات کی تردید فرماتے تھے۔ آپ تقریر کیلیے آسان الفاظ کا انتخاب کرتے اور آیات واحادیث سے استدلال کرکے اپنی بات ثابت کرتے تھے۔ دوران تقریر آپ موضوع سے ہٹ کر بات نہ کرتے اور زیادہ طویل تقریر نہ فرماتے اور اس بات کا بہت خیال کرتے کہ کسی کی ذات پر بات نہ کریں۔
دعوت وتبلیغ کا اہتمام:
علامہ روانبد رحمہ اللہ جماعت دعوت وتبلیغ سے بیحد متاثر تھے اور اسے امت مسلمہ کی اصلاح کے لیے سب سے موثر اور مفید تحریک سمجھتے تھے۔ اسی لیے آپ لوگوں کو ترغیب دیتے تھے کو تبلیغی جماعت کی تشکیلوں میں شرکت اور اس راہ میں اپنا وقت لگائیں۔ آپ اپنی مسجد میں نوجوانوں اور تبلیغی جماعت کے کارکنوں کی فکری تربیت کیلیے ہفتہ وار جلسوں کا اہتمام کرتے تھے۔
شعر وادب سے وابستگی:
آپ کی ذاتی وفطری صلاحیتوں میں سے ایک شعرگوئی کا مزاج تھا۔ آپ اپنے اشعار کے ذریعے اسلامی تاریخ کے حقائق، شرعی مسائل اور دینی اقدار نیز انبیاء، اہل بیت اور صحابہ کرام کے فضائل کو بیان کرتے تھے۔ اسی طرح آپ اپنے خوبصورت اور ہر دلعزیز اشعار میں علماء کے فضائل ومقام کو واضح کرتے تھے اور عوام کے حقوق سے دفاع کرکے باطل کی تردید فرماتے تھے۔ بلوچی ادب وثقافت کی حفاظت بھی آپ کا مقصد تھا۔
بلوچی شعر و ادب کے حوالے سے آپ کی اور آپ کے خاندان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں اور تعریف وتمجید کے مستحق ہیں۔ اگرچہ شعرگوئی آپ کا مشغلہ نہیں تھا لیکن اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے آپ جب بھی دیگر علوم وفنون کی تدریس سے فارغ ہوتے تو شعر کی طرف متوجہ ہوتے۔ علامہ روانبد (رح) عربی، فارسی اور بلوچی میں شعر کہا کرتے تھے۔ ان کے خوبصورت اور متین اشعار میں حالات حاضرہ، اسلامی تاریخ اور سیرت النبی (رح) پر اہتمام کے ساتھ توجہ دی جاچکی ہے۔ چونکہ آپ اپنے احساسات اور عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے تھے اور حالات حاضرہ کو شعر کی زبان سے بیان کرتے تھے تو بجا طور پر آپ کو “سعدی بلوچستان” کا لقب دیا گیا۔
تعلیم و تربیت کے میدان میں:
دیگر معاصر علمائے کرام کی طرح آپ نے بھی تعلیم یافتہ طبقہ سے براہ راست رابطہ اور ان کی تربیت کے غرض سے سرکاری تعلیمی اداروں میں استاد کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ پہلی مرتبہ 1960ء میں آپ عارضی طور پر استاد مقرر ہوئے پھر اس کے بعد باقاعدہ استاد لگ گئے اور آخر عمر تک نئی نسلوں کی تعلیم وتربیت کرتے رہے۔ اس طرح بیس سال تک آپ نے قوم کی خدمت کی۔
لوگوں کے نزاعات کے حل کے لیے کاوشیں:
ویسے علامہ روانبد (رح) متعدد علوم وفنون مثلاً تفسیر، حدیث، تاریخ، ادب، فرائض، نجوم، طب، عروض وقوافی وغیرہ پر مہارت رکھتے تھے لیکن فقہ اور فتوا پر ان کی گرفت بہت زیادہ مضبوط تھی۔ چنانچہ ان کی اکثر تصانیف بھی فقہ اور فتوا کے حوالے سے ہیں۔ آپ ایک چیرہ دست قاضی سمجھے جاتے تھے اور خاص وعام میں آپ کے فتاویٰ مقبول تھے۔ نصف صدی تک آپ لوگوں کے اختلافات اور نزاعوں کا تصفیہ کرتے رہے۔ آپ قضاوت کی تمام شرائط وآداب کا از حد خیال کرتے تھے۔
ایک مقامی قبائلی رہنما “ملا سکندر” کہتے ہیں ایک مرتبہ آپ کسی جھگڑے کے تصفیے کیلیے “کستگ” نامی بستی تشریف لائے۔ فیصلے ہونے کے بعد ہم نے کھانے کیلیے “زردبن” نامی بستی کا رخ کیا اور علامہ روانبد (رح) کے لیے میں نے سواری کا انتظام کیا۔ زردبن کی طرف جاتے ہوئے راستے میں، مَیں نے مفتی صاحب سے کہا میرے اور زردبن کے ایک آدمی کے درمیان نزاع چل رہاہے، آپ براہ کرم ہمارے درمیان فیصلہ کریں۔ یہ سنتے ہی وہ رک گئے اور کہنے لگے اپنے خچر کا لگام لے لو۔ میں حیران رہ گیا اور وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا: اب آپ جھگڑے کے ایک فریق ہیں، میرے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ کے مال سے فائدہ اٹھاؤں۔
عوام کے حقوق کا دفاع:
علامہ روانبد رحمہ اللہ عوام کے دینی ودنیاوی حقوق کے لیے جد وجہد کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ اسی لیے ان کی زبان، قلم اور اشعار لوگوں کے حقوق سے دفاع کیلیے وقف تھے۔ آپ عوام کے معاشی ومعاشرتی مسائل کے حل پر توجہ دیتے تھے۔ ایک مرتبہ صوبہ سیستان وبلوچستان کے گورنر ،،پیشین،، آئے تو انہوں نے طویل ابیات کی شکل میں گورنر کو عوام کے مسائل سے آگاہ کیا اور ان کا پورا خطاب شعر پر مبنی تھا جو پوری صراحت کے ساتھ گورنر صاحب کو مخاطب کررہاتھا۔ اسی طرح پہلوی حکومت کے ایک ذمہ دار کو انہوں شعر کی صورت میں عوامی مسائل سے آگاہ کیا۔ آپ کے تمام فارسی اشعار ایک دیوان کی شکل میں چھپ چکے ہیں۔
تصنیف وتالیف:
آپ نے اپنی بابرکت عمر کا ایک بڑا حصہ تصنیف وتالیف پر صرف کردیا اور اس طرح لوگوں کی ثقافتی تربیت میں حصہ لیا۔ آپ کی تصانیف میں سے بعض آپ کی حیات میں چھپ گئے، بعض وفات کے بعد جبکہ بعض تصانیف ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئے ہیں۔آپ کی بعض مشہور تصنیفات ملاحظہ ہوں:
1۔ نظم القواعد والفوائد؛ اصول فقہ اور اس کے قواعد میں جو نظم کی صورت میں لکھی ہوئی ہے۔
2۔ نثر الفرائد؛ شرح نظم القواعد 527 صفحوں میں۔
3۔ عروج الفرائض؛ میراث کے اصول فقہ اسلامی میں۔ یہ رسالہ بھی منظوم ہے۔
4۔ النہر الفائض.
5۔ قطعات الذھب؛ اعمال میں نیت کے احکام کے بارے میں۔ یہ رسالہ بھی منظوم ہے۔
6۔ تجرید التجوید؛ علم تجوید کے بارے میں ایک مختصر رسالہ۔
7۔ ترازوی قلم؛ علم ریاضی کے حوالے سے لکھی ہوئی کتاب جو تقسیم میراث کے قواعد کو سمجھنے کیلیے ہے۔
8۔ دیوان اشعار (فارسی وعربی).
9۔ بلوچی اشعار کا دیوان.
10۔ القطوف الدانیہ فی الأنواع الثمانیۃ؛ علم نحو کے قواعد پر مشتمل ایک مفید کتاب۔
11۔ النھر الصافی فی العروض والقوافی۔
12۔ تاریخ بلوچستان؛ بلوچستان کی تاریخ کے حوالے سے مفید علمی مقالات کا مجموعہ۔
13۔ گرز سنت بر کلہ بدعت؛ رد بدعات اور علماء ربانی کے دفاع میں منظوم کتاب۔
14۔ حاشیہ قدوری (کتاب الجنائز تا باب الزکوۃ) مولانا غلام مصطفی قاسمی کے حکم پر لکھا گیا۔
15۔ مجموعۃ الفتاویٰ.
16۔ قصد السبیل مولفہ مولانا اشرفعلی تھانوی رحمہ اللہ کا ترجمہ۔
آپ کی صفات وعادات
مولانا عبداللہ روانبد رحمہ اللہ ایک ممتاز عالم دین، متقی و پرہیزکار اور عارف شخص تھے۔ زہد وسادہ زیستی میں آپ ایک مثالی عالم وفقیہ تھے۔ سخت سے سخت حالات میں بھی صبر واستقامت کا دامن تھامے رکھتے۔ کسی کی شخصیت یا بڑائی کی وجہ سے حق بات نہیں چھپاتے تھے۔ مجالس میں خاموشی کو ترجیح دیتے تھے مگر بعض صورتوں میں کہ حق بات کہنی چاہیے تھی۔ بات کرتے ہوئے مخاطب لوگوں کی فہم کا خیال کرتے تھے۔ فضول باتوں سے اجتناب کرتے تھے اور اپنے ہم نشینوں کو اتباع سنت کی دعوت دیتے اور اسلامی ثقافت کے حوالے سے گفتگو کرتے تھے۔
بری عادتوں مثلاً جھوٹ بولنے خاص کر بچوں سے سرزد ہونے والی برائیوں کے حوالے سے آپ بہت حساس تھے۔ ہمیشہ کہا کرتے تھے: جھوٹا آدمی چور بن سکتا ہے۔ مطالعہ وکتب بینی پر خصوص توجہ دیتے تھے۔ آپ کا کہنا یہ تھا؛ کتاب جتنی مہنگی ہو اسے خرید لو، چونکہ کتاب کا فائدہ اس کی قیمت سے زیادہ ہے۔
آخری سفر حج اور سانحہ ارتحال:
حرمین شریفین سے آپ کو اس قدر والہانہ قلبی تعلق تھا کہ الفاظ میں ناقابل وصف ہے۔ اس شغف و محبت کی بعض جھلکیاں آپ کے اشعار وقصائد میں دیکھی جاسکتی ہیں جو سفر حج کے دوران ایک عاشق کی ذہنی تخلیق کا پتہ دیتے ہیں۔
اپنی بابرکت زندگی میں کل دس مرتبہ آپ سرزمین وحی کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ جب کوئی بیماری یا مشکل آڑے ہوتی تو آپ بہت غمزدہ ہوتے۔ اخیر عمر میں آپ متعدد امراض کا شکار ہوئے تھے چنانچہ نویں سفر حج سے پہلے چار مرتبہ آپ کو بڑی آنت کا آپریشن کرنا پڑا۔
63 سال کی عمر میں آپ نے دسویں مرتبہ کے لیے حرمین شریفین کا رخ کیا۔ مناسک حج اداء کرنے کے بعد 23 ذوالحجۃ 1408 ھ۔ق (7 اگست 1988ء) میں علامہ روانبد رحمہ اللہ نے براستہ قطر زمینی راستے سے سعودی عرب کو چھوڑ کر متحدہ عرب امارات کا رخ کیا۔ جب آپ کی گاڑی قطر کی حدود میں داخل ہوئی تو اچانک گاڑی کا ایک پہیہ نکل گیا اور گاڑی الٹ گئی۔ اس المناک سانحہ کے نتیجے میں سرزمین وحی میں غروب آفتاب کے ساتھ آفتاب علم ومعرفت کا بھی غروب ہوا اور فقیہ بلوچستان، سعدی زمان قافلہ حق کے شہسوار علامہ عبداللہ روانبد رحمہ اللہ اس دنیا کے غموں سے آزاد ہو کر ہزاروں افراد کو سوگوار چھوڑتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے۔
آپ کا جسد خاکی قطر ہی میں سپرد خاک کیا گیا۔ {رحمه الله رحمة واسعة وأسکنه فسیح جناته}
SunniOnline.us/urdu
آپ کی رائے