پچهلے دو قسطوں میں میں نے ان لوگوں کے بیانات کا خلاصہ ذکر کیا تها جو موت کے دروازے پر پہنچ کر واپس آگۓ، انہوں نے اپنے آپ کو اپنے جسم سے جدا ہوتے ہوے دیکها، ایک تاریک سرنگ سے گذرے، ایک نورانی وجود کا مشاہده کیا، اور پهر اس نورانی وجود نے ان کے سامنے انکی سابقہ زندگی کا پورا نقشہ پیش کردیا.
یہ بات تو واضح ہے کہ ان لوگوں کو موت نہیں آئی تهی، اگر موت آگئی ہوتی تو یہ دوباره دنیا میں واپس نہ آتے، خود ڈاکٹر مودی جنہوں نے ان لوگوں کے بیانات قلمبند کۓ وہ بہی یہی کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے موت نہیں دیکهی، البتہ موت کے نزدیک پہنچ کر کچهـ عجیب و غریب مناظر ضرور دیکهے، چنانچہ ان مشاہدات کے لۓ انہوں نے جو اصطلاح وضع کی ہے، وہ ہے Near-death Experiences (قریب الموت تجربات) جسے مخفف کرکے وه N.D.E. سے تعبیر کرتے ہیں، اور یہی اصطلاح بعد کے مصنفین نے بهی اپنالی ہے، لهذا اگر ان لوگوں کے بیانات کو سچ مان لیا جاۓ، اور ڈاکٹر مودی کی حتمی راۓ یہ ہے کہ اتنے بہت سے افراد کو بیک وقت جهٹلانا ان کے لۓ آسان نہیں، تو بهی یہ بات ظاہر ہے کہ انہوں نے موت کے بعد پیش آنے والے واقعات کا مشاہده نہیں کیا، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ از خود رختگی کے عالم میں انہیں اس جہان کی کچهـ جهلکیاں نظر آئیں جس کا دروازه موت ہے.
میڈیکل سائنس چونکہ صرف ان چیزوں پر یقین رکهتی ہے جو آنکهوں سے نظر آجائیں، یا دوسرے حواس کے ذریعے محسوس ہوجائیں، اس لۓ ابهی تک وه انسانی جسم میں روح نام کی کسی چیز کو دریافت نہیں کرسکی، اور نہ روح کی حقیقت تک اسکی رسائی ہوسکی ہے، (اور شاید روح کی مکمل حقیقت اسے جیتے جی کبهی معلوم نہ ہوسکے، کیونکہ قرآن کریم نے روح کے بارے میں لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوے یہ فرمادیا ہے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے، اور تمہیں بہت تهوڑا علم دیا گیا ہے) لیکن قرآن و سنت سے یہ بات پوری وضاحت کے ساتهـ معلوم ہوتی ہے کہ زندگی جسم اور روح کے مضبوط تعلق کا نام ہے، اور موت اس تعلق کے ٹوٹ جانے کا.
اس سلسلے میں یہ نکتہ یاد رکهنے کے لائق ہے کہ ہم اپنی بول چال میں موت کے لۓ جو وفات کا لفظ استعمال کرتے ہیں وه قرآن کریم کے ایک لفظ “توفی” سے مأخوذ ہے، قرآن کریم سے پہلے عربی زبان میں یہ لفظ “موت” کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا تها، عربی زبان میں موت کے مفہوم کو ادا کرنے کے لۓ تقریبا چوبیس الفاظ استعمال ہوتے تهے، لیکن وفاة یا “توفی” کا اس معنی میں کوئی وجود نہ تها، قرآن کریم نے پہلی بار یہ لفظ موت کے لۓ استعمال کیا، اور اسکی وجہ یہ تهی کہ زمانہ جاہلیت کے عربوں نے موت کے لۓ جو الفاظ وضع کۓ تهے، وه سب ان کے اس عقیدے پر مبنی تهے، کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے، قرآن کریم نے “توفی” کا لفظ استعمال کرکے لطیف انداز میں انکے اس عقیدے کی تردید کی، “توفی” کے معنی ہیں کسی چیز کو پورا پورا وصول کرلینا، اور موت کے لۓ اس لفظ کو استعمال کرنے سے اس طرف اشاره کیا گیا ہے کہ موت کے وقت انسان کی روح کو اسکے جسم سے علیحده کرکے واپس بلالیا جاتاہے، اسی حقیقت کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوے سوره زمر میں قرآن کریم نے ارشاد فرمایا:
«الله یتوفی الأنفس حین موتها والتی لم تمت فی منامها فیمسک التی قضی علیها الموت ویرسل الاخری الی أجل مسمی إن فی ذلک لآیات لقوم یتفکرون»
یعنی الله تعالی انسانوں کی موت کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے، اور جو لوگ مرے نہیں ہوتے، انکی روحیں انکی نیند کی حالت میں واپس لے لیتاہے، پهر وه جنکی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے انکی روحیں روک لیتا ہے، اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک چهوڑ دیتا ہے، بےشک اس میں ان لوگوں کے لۓ بڑی نشانیاں ہیں جو غور فکر کرتے ہیں. (سوره الزمر 42)
دوسری طرف حضرت آدم علیہ السلام کو زندگی عطا کرنے کے لۓ قرآن کریم نے ان کے اندر روح پهونکنے سے تعبیر فرمایا ہے، قرآن کریم کے ان ارشادات سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ زندگی نام ہے جسم کے ساتهـ روح کے قوی تعلق کا، جسم کے ساتهـ روح کا تعلق جتنا مضبوط ہوگا، زندگی کے آثار اتنے ہی زیادہ واضح اور نمایاں ہونگے، اور یہ تعلق جتنا کمزور ہوتا جاۓ گا زندگی کا آثار اتنے ہی کم ہوتے جائیں گے.
بیداری کی حالت میں جسم اور روح کا یہ تعلق نہایت مضبوط ہوتا ہے، اس لۓ اس حالت میں زندگی اپنی بهرپور علامات اور مکمل خواص کے ساتهـ موجود ہوتی ہے، اس حالت میں انسان کے تمام حواس کام کر رہے ہوتے ہیں، اس کے تمام اعضاء اپنے اپنے عمل کے لۓ چوکس اور تیار ہوتے ہیں، انسان اپنے اختیار کو پوری طرح استعمال کرتا ہے، اور اسکے سوچنے سمجهنے پر کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہوتی، لیکن نیند کی حالت میں جسم کے ساتهـ روح کا تعلق قدرے کمزور پڑجاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سونے کی حالت میں انسان پر زندگی کی تمام علامتوں کا ظہور نہیں ہوتا، اپنے گرد و پیش سے بےخبر ہوجاتا ہے، نیند کی حالت میں وه اپنے اختیار سے اپنے اعضاء کو استعمال نہیں کرسکتا، نہ اس وقت معمول کے مطابق سوچنے سمجهنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے، لیکن اس حالت میں بهی روح کا تعلق جسم کے ساتهـ اتنا مضبوط ضرور ہوتا ہے کہ اس کے جسم پر وارد ہونے والے واقعات کا احساس باقی رہتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص اس کے جسم میں سوئی چهبودے تو اسکی تکلیف محسوس کرکے وه بیدار ہوجاتا ہے.
نیند سے بهی آگے ایک اور کیفیت بےہوشی کی ہے، اس کیفیت میں جسم کے ساتهـ روح کا رشتہ نیند کی حالت سے بهی زیاده کمزور ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مکمل بے ہوشی کی حالت میں انسان کے جسم پر نشتر بهی چلاۓ جائیں، تو اسے تکلیف کا احساس نہیں ہوتا، اور بےہوشی کی اسی صفت سے فائده اٹها کر اس حالت کو بڑے بڑے آپریشنوں کے لۓ استعمال کیا جاتا ہے، اس حالت میں انسان کے جسم سے زندگی بیشتر علامات اور خاصیتیں غائب ہوجاتی ہیں، البتہ دل کی دهڑکن اور سانس کی آمد و رفت باقی رہتی ہے جس سے اس کے زنده ہونے کا پتہ چلتا ہے.
بےہوشی سے بهی آگے ایک اور کیفیت بعض لوگوں پر شدید بیماری کے عالم میں طاری ہوتی ہے جسے عرف عام میں “سکتہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس حالت میں زندگی کی تمام ظاہری علامات ختم ہوجاتی ہیں، اور صرف عام آدمی ہی کو نہیں ، ڈاکٹر کو بهی بظاہر زندگی کی کوئی رمق معلوم نہیں ہوتی، دل کی دهڑکن بند ہوجاتی ہے، سانس رک جاتا ہے، بلڈپریشر غائب ہوجاتا ہے، جسم کی حرارت تقریبا ختم ہوجاتی ہے، لیکن دماغ کے کسی مخفی گوشے میں زندگی کی کوئی برقی رو باقی ہوتی ہے، یہی وہ حالت ہے جس میں ڈاکٹر صاحباں آخری چاره کار کے طورپر تنفس یا دل کی دهڑکن کو بحال کرنے کے لۓ کچهـ مصنوعی طریقے آزماتے ہیں، بعض افراد پر یہ طریقے کامیاب ہوجاتے ہیں، اور مریض اس عمل کے بعد معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے، اور اس کے واپس آجانے ہی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ابهی تک مرا نہیں تها، اور اسکی روح بالکلیہ جسم سے جدا نہیں ہوئی تهی، یہ زندگی کا کمزورترین درجہ ہے جس میں روح کا تعلق انسان کے جسم کے ساتهـ بہت معمولی سا رہ جاتاہے.
پهر روح کا تعلق جسم سے جتنا کمزور ہوتا ہے، اتنی ہی وه جسم کی قید سے آزاد ہوتی ہے، نیند کی حالت میں یہ آزادی کم ہے، بےہوشی کی حالت میں اس سے زیاده اور “سکتے” کی حالت میں اس سے بهی زیاه، لہذا سکتے کی یہ حالت جس میں روح کا تعلق جسم کے ساتهـ بہت معمولی ره جاتا ہے، اور وه جسم کی قید سے کافی حد تک آزاد ہوچکی ہوتی ہے، اس حالت میں اگر کسی انسان کا ادراک اپنی روح کے سفر میں شریک ہوجاۓ اور اسے مادی زندگی کے اس پار دوسرے عالم کی کوئی جهلک نظر آجاۓ تو کچهـ بعید از قیاس نہیں، اور تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں اس قسم کے لوگوں نے عالم بالا کے کچهـ مناظر کا مشاہده کیا، جن لوگوں کے بیانات میں نے پیچهے ڈاکٹر مودی کے حوالے سے نقل کۓ ہیں اگر یہ تسلیم کرلیا جاۓ کہ وه جهوٹ اور دهوکے کے عمل دخل سے خالی ہیں تو ان کے یہ مشاہدات بهی اسی نوعیت کے ہوسکتے ہیں، لیکن انکے بارے میں چند باتیں ذہن نشین رکهنی ضروری ہیں:
(1) جن لوگوں کو یہ مناظر نظر آۓ انہیں ابهی موت نہیں آئی تهی، لہذا جو کچهـ انہوں نے دیکها وه دوسرے جهاں کی جهلکیاں تو ہوسکتی ہیں، لیکن مرنے کے بعد پیش آنے والے واقعات نہیں.
(2) جس حالت میں ان لوگوں نے یہ مناظر دیکهے وه زندگی ہی کی ایک حالت تهی، اور کم از کم دماغ کے مخفی گوشوں میں ابهی زندگی باقی تهی، لہذا ان نظاروں میں دماغ کے تصرف کا امکان بعید از قیاس نہیں.
(3) جن لوگون نے اپنے مشاہدات بیان کۓ وه سب اس بات پر متفق ہیں کہ ان مشاہدات کی تفصیل وہ لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے، پهر بهی انہوں نے یہ کیفیات بیان کرنے کے لۓ محدود لفظوں ہی کا سہارا لیا، چنانچہ یہ بات اب بهی مشکوک ہے کہ وه الفاظ کے ذریعے ان کیفیات کو بیان کرنے میں کس حد تک کامیاب رہے؟ نیز انہیں کونسی بات کتنی صحت کے ساتهـ یاد رہی؟
(4) ان وجوه سے ان مشاہدات کی تمام تفصیلات پر تو بهروسہ نہیں کیا جاسکتا، نہ انہیں مابعد الموت کے بارے میں کسی عقیدے کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے، مابعد الموت کے جتنے حقائق ہمیں معلوم ہونے ضروری ہیں وه وحی الہی کے بےغبار راستے سے آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے ہمیں پہنچادۓ ہیں، اور وه اپنی تصدیق کے لۓ اس قسم کے بیانات کے محتاج نہیں، لیکن ان مشاہدات کی بعض باتوں کی تائید قرآن و سنت کے بیان کرده حقائق سے ضرور ہوتی ہے، مثلا ان تمام بیانات کی یہ قدر مشترک قرآن و سنت سے کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہے کہ زندگی صرف اس دنیا کی حد تک محدود نہیں جو ہمیں اپنے گرد و پیش میں پهیلی نظر آتی ہے، بلکہ دنیا کے اس پار ایک عالم اور ہے جس کی کیفیات کا ٹهیک ٹهیک ادراک ہم مادی کثافتوں کی قید میں رہتے ہوے نہیں کرسکتے، وہاں پیش آنے والے واقعات زمان و مکان کے ان معروف پیمانوں سے بالاتر ہیں جن کے ہم دنیوی زندگی میں عادی ہوچکے ہیں، یہاں ہم یہ تصور نہیں کرسکتے کہ ایک کام جسے انجام دینے کے لۓ سالہا سال درکار ہوتے ہیں وه ایک لمحہ میں کیسے انجام پاسکتا ہے؟ لیکن وہاں پیش آنے والے واقعات وقت کی اس قید سے آزاد ہیں، قرآن کریم فرماتا ہے:
«إن یوما عند ربک کألف سنة مما تعدون»
“تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے لحاظ سے ایک ہزار سال کے برابر ہے” (سوره الحج، 47)
یہ عالم کیا ہے؟ اسکے تقاضے کیا ہیں؟ اور اس تک پہنچنے کے لۓ کس قسم کی تیاری ضروری ہے؟ یہی باتیں بتانے کے لۓ انبیاء علیہم السلام تشریف لاتے ہیں، کیونکہ یہ باتیں ہم صرف اپنے حواس اور اپنی عقل سے معلوم نہیں کرسکتے، آخری دور میں یہ باتیں ہمیں حضور نبی کریم صلی الله علیه وسلم نے اسلامی شریعت کے ذریعے بتادی ہیں، اور جسے اس عالم کے لۓ ٹهیک ٹهیک تیاری کرنی ہو، وه اس شریعت کو سیکهـ لے، اس پر عالم کے حقائق بهی واضح ہوجائیں گے، اور وہاں تک پہنچنے کا صحیح طریقہ بهی آجاۓ گا.
25/محرم/1417 هـ
12 / جون/ 1996
مفتی محمد تقی عثمانی
میڈیکل سائنس چونکہ صرف ان چیزوں پر یقین رکهتی ہے جو آنکهوں سے نظر آجائیں، یا دوسرے حواس کے ذریعے محسوس ہوجائیں، اس لۓ ابهی تک وه انسانی جسم میں روح نام کی کسی چیز کو دریافت نہیں کرسکی، اور نہ روح کی حقیقت تک اسکی رسائی ہوسکی ہے، (اور شاید روح کی مکمل حقیقت اسے جیتے جی کبهی معلوم نہ ہوسکے، کیونکہ قرآن کریم نے روح کے بارے میں لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوے یہ فرمادیا ہے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے، اور تمہیں بہت تهوڑا علم دیا گیا ہے) لیکن قرآن و سنت سے یہ بات پوری وضاحت کے ساتهـ معلوم ہوتی ہے کہ زندگی جسم اور روح کے مضبوط تعلق کا نام ہے، اور موت اس تعلق کے ٹوٹ جانے کا.
اس سلسلے میں یہ نکتہ یاد رکهنے کے لائق ہے کہ ہم اپنی بول چال میں موت کے لۓ جو وفات کا لفظ استعمال کرتے ہیں وه قرآن کریم کے ایک لفظ “توفی” سے مأخوذ ہے، قرآن کریم سے پہلے عربی زبان میں یہ لفظ “موت” کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا تها، عربی زبان میں موت کے مفہوم کو ادا کرنے کے لۓ تقریبا چوبیس الفاظ استعمال ہوتے تهے، لیکن وفاة یا “توفی” کا اس معنی میں کوئی وجود نہ تها، قرآن کریم نے پہلی بار یہ لفظ موت کے لۓ استعمال کیا، اور اسکی وجہ یہ تهی کہ زمانہ جاہلیت کے عربوں نے موت کے لۓ جو الفاظ وضع کۓ تهے، وه سب ان کے اس عقیدے پر مبنی تهے، کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے، قرآن کریم نے “توفی” کا لفظ استعمال کرکے لطیف انداز میں انکے اس عقیدے کی تردید کی، “توفی” کے معنی ہیں کسی چیز کو پورا پورا وصول کرلینا، اور موت کے لۓ اس لفظ کو استعمال کرنے سے اس طرف اشاره کیا گیا ہے کہ موت کے وقت انسان کی روح کو اسکے جسم سے علیحده کرکے واپس بلالیا جاتاہے، اسی حقیقت کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوے سوره زمر میں قرآن کریم نے ارشاد فرمایا:
«الله یتوفی الأنفس حین موتها والتی لم تمت فی منامها فیمسک التی قضی علیها الموت ویرسل الاخری الی أجل مسمی إن فی ذلک لآیات لقوم یتفکرون»
یعنی الله تعالی انسانوں کی موت کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے، اور جو لوگ مرے نہیں ہوتے، انکی روحیں انکی نیند کی حالت میں واپس لے لیتاہے، پهر وه جنکی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے انکی روحیں روک لیتا ہے، اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک چهوڑ دیتا ہے، بےشک اس میں ان لوگوں کے لۓ بڑی نشانیاں ہیں جو غور فکر کرتے ہیں. (سوره الزمر 42)
دوسری طرف حضرت آدم علیہ السلام کو زندگی عطا کرنے کے لۓ قرآن کریم نے ان کے اندر روح پهونکنے سے تعبیر فرمایا ہے، قرآن کریم کے ان ارشادات سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ زندگی نام ہے جسم کے ساتهـ روح کے قوی تعلق کا، جسم کے ساتهـ روح کا تعلق جتنا مضبوط ہوگا، زندگی کے آثار اتنے ہی زیادہ واضح اور نمایاں ہونگے، اور یہ تعلق جتنا کمزور ہوتا جاۓ گا زندگی کا آثار اتنے ہی کم ہوتے جائیں گے.
بیداری کی حالت میں جسم اور روح کا یہ تعلق نہایت مضبوط ہوتا ہے، اس لۓ اس حالت میں زندگی اپنی بهرپور علامات اور مکمل خواص کے ساتهـ موجود ہوتی ہے، اس حالت میں انسان کے تمام حواس کام کر رہے ہوتے ہیں، اس کے تمام اعضاء اپنے اپنے عمل کے لۓ چوکس اور تیار ہوتے ہیں، انسان اپنے اختیار کو پوری طرح استعمال کرتا ہے، اور اسکے سوچنے سمجهنے پر کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہوتی، لیکن نیند کی حالت میں جسم کے ساتهـ روح کا تعلق قدرے کمزور پڑجاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سونے کی حالت میں انسان پر زندگی کی تمام علامتوں کا ظہور نہیں ہوتا، اپنے گرد و پیش سے بےخبر ہوجاتا ہے، نیند کی حالت میں وه اپنے اختیار سے اپنے اعضاء کو استعمال نہیں کرسکتا، نہ اس وقت معمول کے مطابق سوچنے سمجهنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے، لیکن اس حالت میں بهی روح کا تعلق جسم کے ساتهـ اتنا مضبوط ضرور ہوتا ہے کہ اس کے جسم پر وارد ہونے والے واقعات کا احساس باقی رہتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص اس کے جسم میں سوئی چهبودے تو اسکی تکلیف محسوس کرکے وه بیدار ہوجاتا ہے.
نیند سے بهی آگے ایک اور کیفیت بےہوشی کی ہے، اس کیفیت میں جسم کے ساتهـ روح کا رشتہ نیند کی حالت سے بهی زیاده کمزور ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مکمل بے ہوشی کی حالت میں انسان کے جسم پر نشتر بهی چلاۓ جائیں، تو اسے تکلیف کا احساس نہیں ہوتا، اور بےہوشی کی اسی صفت سے فائده اٹها کر اس حالت کو بڑے بڑے آپریشنوں کے لۓ استعمال کیا جاتا ہے، اس حالت میں انسان کے جسم سے زندگی بیشتر علامات اور خاصیتیں غائب ہوجاتی ہیں، البتہ دل کی دهڑکن اور سانس کی آمد و رفت باقی رہتی ہے جس سے اس کے زنده ہونے کا پتہ چلتا ہے.
بےہوشی سے بهی آگے ایک اور کیفیت بعض لوگوں پر شدید بیماری کے عالم میں طاری ہوتی ہے جسے عرف عام میں “سکتہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس حالت میں زندگی کی تمام ظاہری علامات ختم ہوجاتی ہیں، اور صرف عام آدمی ہی کو نہیں ، ڈاکٹر کو بهی بظاہر زندگی کی کوئی رمق معلوم نہیں ہوتی، دل کی دهڑکن بند ہوجاتی ہے، سانس رک جاتا ہے، بلڈپریشر غائب ہوجاتا ہے، جسم کی حرارت تقریبا ختم ہوجاتی ہے، لیکن دماغ کے کسی مخفی گوشے میں زندگی کی کوئی برقی رو باقی ہوتی ہے، یہی وہ حالت ہے جس میں ڈاکٹر صاحباں آخری چاره کار کے طورپر تنفس یا دل کی دهڑکن کو بحال کرنے کے لۓ کچهـ مصنوعی طریقے آزماتے ہیں، بعض افراد پر یہ طریقے کامیاب ہوجاتے ہیں، اور مریض اس عمل کے بعد معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے، اور اس کے واپس آجانے ہی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ابهی تک مرا نہیں تها، اور اسکی روح بالکلیہ جسم سے جدا نہیں ہوئی تهی، یہ زندگی کا کمزورترین درجہ ہے جس میں روح کا تعلق انسان کے جسم کے ساتهـ بہت معمولی سا رہ جاتاہے.
پهر روح کا تعلق جسم سے جتنا کمزور ہوتا ہے، اتنی ہی وه جسم کی قید سے آزاد ہوتی ہے، نیند کی حالت میں یہ آزادی کم ہے، بےہوشی کی حالت میں اس سے زیاده اور “سکتے” کی حالت میں اس سے بهی زیاه، لہذا سکتے کی یہ حالت جس میں روح کا تعلق جسم کے ساتهـ بہت معمولی ره جاتا ہے، اور وه جسم کی قید سے کافی حد تک آزاد ہوچکی ہوتی ہے، اس حالت میں اگر کسی انسان کا ادراک اپنی روح کے سفر میں شریک ہوجاۓ اور اسے مادی زندگی کے اس پار دوسرے عالم کی کوئی جهلک نظر آجاۓ تو کچهـ بعید از قیاس نہیں، اور تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں اس قسم کے لوگوں نے عالم بالا کے کچهـ مناظر کا مشاہده کیا، جن لوگوں کے بیانات میں نے پیچهے ڈاکٹر مودی کے حوالے سے نقل کۓ ہیں اگر یہ تسلیم کرلیا جاۓ کہ وه جهوٹ اور دهوکے کے عمل دخل سے خالی ہیں تو ان کے یہ مشاہدات بهی اسی نوعیت کے ہوسکتے ہیں، لیکن انکے بارے میں چند باتیں ذہن نشین رکهنی ضروری ہیں:
(1) جن لوگوں کو یہ مناظر نظر آۓ انہیں ابهی موت نہیں آئی تهی، لہذا جو کچهـ انہوں نے دیکها وه دوسرے جهاں کی جهلکیاں تو ہوسکتی ہیں، لیکن مرنے کے بعد پیش آنے والے واقعات نہیں.
(2) جس حالت میں ان لوگوں نے یہ مناظر دیکهے وه زندگی ہی کی ایک حالت تهی، اور کم از کم دماغ کے مخفی گوشوں میں ابهی زندگی باقی تهی، لہذا ان نظاروں میں دماغ کے تصرف کا امکان بعید از قیاس نہیں.
(3) جن لوگون نے اپنے مشاہدات بیان کۓ وه سب اس بات پر متفق ہیں کہ ان مشاہدات کی تفصیل وہ لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے، پهر بهی انہوں نے یہ کیفیات بیان کرنے کے لۓ محدود لفظوں ہی کا سہارا لیا، چنانچہ یہ بات اب بهی مشکوک ہے کہ وه الفاظ کے ذریعے ان کیفیات کو بیان کرنے میں کس حد تک کامیاب رہے؟ نیز انہیں کونسی بات کتنی صحت کے ساتهـ یاد رہی؟
(4) ان وجوه سے ان مشاہدات کی تمام تفصیلات پر تو بهروسہ نہیں کیا جاسکتا، نہ انہیں مابعد الموت کے بارے میں کسی عقیدے کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے، مابعد الموت کے جتنے حقائق ہمیں معلوم ہونے ضروری ہیں وه وحی الہی کے بےغبار راستے سے آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے ہمیں پہنچادۓ ہیں، اور وه اپنی تصدیق کے لۓ اس قسم کے بیانات کے محتاج نہیں، لیکن ان مشاہدات کی بعض باتوں کی تائید قرآن و سنت کے بیان کرده حقائق سے ضرور ہوتی ہے، مثلا ان تمام بیانات کی یہ قدر مشترک قرآن و سنت سے کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہے کہ زندگی صرف اس دنیا کی حد تک محدود نہیں جو ہمیں اپنے گرد و پیش میں پهیلی نظر آتی ہے، بلکہ دنیا کے اس پار ایک عالم اور ہے جس کی کیفیات کا ٹهیک ٹهیک ادراک ہم مادی کثافتوں کی قید میں رہتے ہوے نہیں کرسکتے، وہاں پیش آنے والے واقعات زمان و مکان کے ان معروف پیمانوں سے بالاتر ہیں جن کے ہم دنیوی زندگی میں عادی ہوچکے ہیں، یہاں ہم یہ تصور نہیں کرسکتے کہ ایک کام جسے انجام دینے کے لۓ سالہا سال درکار ہوتے ہیں وه ایک لمحہ میں کیسے انجام پاسکتا ہے؟ لیکن وہاں پیش آنے والے واقعات وقت کی اس قید سے آزاد ہیں، قرآن کریم فرماتا ہے:
«إن یوما عند ربک کألف سنة مما تعدون»
“تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے لحاظ سے ایک ہزار سال کے برابر ہے” (سوره الحج، 47)
یہ عالم کیا ہے؟ اسکے تقاضے کیا ہیں؟ اور اس تک پہنچنے کے لۓ کس قسم کی تیاری ضروری ہے؟ یہی باتیں بتانے کے لۓ انبیاء علیہم السلام تشریف لاتے ہیں، کیونکہ یہ باتیں ہم صرف اپنے حواس اور اپنی عقل سے معلوم نہیں کرسکتے، آخری دور میں یہ باتیں ہمیں حضور نبی کریم صلی الله علیه وسلم نے اسلامی شریعت کے ذریعے بتادی ہیں، اور جسے اس عالم کے لۓ ٹهیک ٹهیک تیاری کرنی ہو، وه اس شریعت کو سیکهـ لے، اس پر عالم کے حقائق بهی واضح ہوجائیں گے، اور وہاں تک پہنچنے کا صحیح طریقہ بهی آجاۓ گا.
25/محرم/1417 هـ
12 / جون/ 1996
مفتی محمد تقی عثمانی
آپ کی رائے