بلوچستان صفویوں کے دور میں

بلوچستان صفویوں کے دور میں
balochistan-mapایران میں حکومت بنانے والے صفویوں کی نسبت ایک صوفی”صفی الدین اردبیلی“ کی طرف ہے۔ یہ شخص بہت متحرک تھا اور 1334ء سے اپنا حلقہ مریدین ومتعلقین بناکر اپنے عقائد وآراء کا پرچار کرتاتھا۔ اس کے بعد اردبیلی کے بیٹے اور پوتوں نے اس کے عقائد کی تبلیغ وترویج کا کام آگے بڑھایا۔ یہاں تک کہ جن علاقوں میں وہ رہتے تھے وہاں انہوں نے سیاسی قوت حاصل کرنے کی کوششیں تیز کردیں۔ چنانچہ تصوف وطریقت کے علمبردار ایک ایسی حکومت کے بانی بن گئے جو مخصوص سیاسی ومسلکی مقاصد کے حصول کیلیے کوشاں تھی۔

نویں صدی ہجری کے آخری سالوں میں ایران کے سیاسی حالات کشیدہ تھے اور سیاسی بحران و لا قانونیت کی فضا قائم ہوچکی تھی جس کا فائدہ اردبیلی کے مریدیں نے اٹھایا۔ انہوں نے مزید بہت سارے افراد کو اپنے گروپ میں بھرتی کرکے نہ صرف ایران بلکہ پورے عالم اسلام میں اپنی حکومت قائم کرنے کی تک ودو شروع کردی۔ اسی نقطہ نظر کے تحت صفویوں نے اپنی حکومت کے بانی اسماعیل صفوی کی قیادت میں ایران کے مختلف علاقوں کے حکمران سے خونریز لڑائیاں کیں، ایران کے متعدد شہروں پر قبضہ جماکر مقامی حکام کو بیدخل کردیا۔ ”تبریز“ شہر پر قبضہ کرکے صفویوں نے اسے اپنا دارالحکومت بنالیا۔
اسماعیل صفوی کے تبریز میں داخل ہونے کے بعد باقاعدہ ”شاہ ایران“ کی حیثیت سے اسے تاج پہنایا گیا۔
اس کا لقب ابوالمظفر شاہ اسماعیل الھادی الوالی پڑگیا۔ یہ سنہ (907ھ ۔ 1502ء) کا واقعہ ہے۔
تاج پوشی کے بعد صفویوں نے اپنی حکومت کی حدود کو طول دینے کے لیے مشرق ومغرب کا رخ کیا اور خراسان، افغانستان، آذربایجان، عراق اور کردستان میں اپنی فوجیں اتاردیں۔ چنانچہ خراسان اور افغانسان و عراق کے بعض علاقوں سمیت بعض عرب ممالک جیسا کہ بحرین وجزیرہ ہرمز پر قابض ہوگئے۔
تاریخ نویسوں نے صفویوں کے جرائم اور انسانیت دشمنی پر مبنی بعض حرکتوں کو تحریر میں لایا ہے۔
مختلف شہروں پر قبضہ جمانے کی کوشش میں انہوں نے ایسی بربریت کا مظاہرہ کیا جسے سْن کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے۔ در اصل صفویوں کی اسی درندگی و اسلام دشمنی کی وجہ سے ایسے انقلابات رونما ہوئے جنہیں وہ دبا نہ سکے اور بلوچستان کی مزاحمت اور مشرق سے افغانیوں کا ہجوم ہمیشہ کیلیے ان کی ظالمانہ حکومت کے خاتمہ اور زوال کا باعث بنا۔
مورخین چاہے صفویوں کے حامی ہوں یا مخالف سب نے تقریباً ان کی قبضہ گیروں کے واقعات قلمبند کیے ہیں۔ لیکن اکثر تاریخی کتابوں میں صفویوں کے بلوچستان پر قبضہ اور یہاں ان کی وحشیانہ کارروائیوں اور ظلم بھری کہانیوں کے حوالے نہیں ملتے۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے بلوچستان کا وسیع وعریض علاقہ آخری علاقوں میں سے ہے جس پر صفوی قبضہ کرسکے، صفویوں کے بلوچستان پر تاخیر سے قبضہ کی وجہ کی ”تبریز“ سے دوری اور ان کی دیگر خطرناک اور گرم محاذوں پر مصروفیت تھی۔
صفویوں کو مغربی سرحدوں پر عثمانی حکام کا چیلنج در پیش تھا جن سے کئی سالوں تک لڑائیاں جاری رہیں جبکہ مشرقی علاقوں میں ازبک قبائل سے محاذ آرائی ہوتی رہی۔ اسی وجہ سے بلوچستان پر صفویوں کا قبضہ بہت تاخیر سے ہوا۔
1502ء میں جب ”آذربائیجان“ میں صفویوں کی حکومت قائم ہوئی تو انہیں اپنا دائرہ حکومت بڑھانے میں دس برس لگ گئے اور بڑی مشکل سے ایران کے دیگر علاقے ان کے زیرنگین آگئے۔ 1503ء میں بلوچستان کے جوار میں واقع ”کرمان“ کا علاقہ صفویوں کے قبضے میں آیا مگر کرمان کے حکام کو بلوچستان پر چڑھائی کی ہمت اس لیے نہیں ہوئی کہ ان کی حکومت شروع میں بہت کمزور تھی۔ (تاریخ بلوچستان، فارسی ص244)
بلوچستان پر صفویوں کی قبضہ گیری اور آمد ایک معاہدے کے بعد ہوئی جو شاہ اسماعیل صفوی اور پرتگالی ملاح ”آلبروک“ کے درمیان اگست 1515ء میں منعقد ہوا۔ اس معاہدے کی دوسری شق میں آیاتھا ”پرتگال کی بحری قوات صفوی حکومت کی مدد کریں گی تاکہ بلوچستان اور مکران کے ساحل پر اٹھنے والی بغاوت کا قلع قمع کیا جائے۔“ (صفوی دور میں تاریخ ایران ویورپ، از نصراللہ فلسفی؛ فارسی زبان میں)
بلوچستان صفوی شاہ کی نظروں میں کس قدر اہمیت اور خطرے کا حامل تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسماعیل صفوی نے پرتگالیوں سے مذاکرات ومعاہدہ کیلیے اپنا سفیر خاص بھیج دیا اور ”ہرمز“ جیسے اسٹریٹجک جزیرے کو پر تگالیوں کے لیے خالی چھوڑ دیا۔ سب سے اہم بات جو صفویوں کو اجنبی قوتوں سے مدد لینے پر مجبور کردیا وہ یہ تھی کہ مقامی ذرائع اور ہدایات کے مطابق ایک بلوچ سردار ”میر شیہک“ سارے بلوچ قبائل کو متحد کرنے میں کامیابی ہوا تھا۔
ان کے بعد ”میرچاکر“ جو سردار میر شیہک کے بیٹے تھے اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھانے اور بلوچوں کو ایک جھنڈے تلے متحد رکھنے میں کامیاب نظر آرہے تھے۔ میر چاکر نے اپنے والد کی جانشینی کے بعد بلوچ حکومت کا دائرہ سندھ اور پنجاب تک بڑھادیا جہاں بلوچ آباد تھے۔ صفوی شاہ اسی حوالے سے شدید پریشان تھا کہ کہیں بلوچ ایران کے دیگر علاقوں کو اپنی حکومت کا حصہ نہ بنادیں، اسی لیے وہ ہر صورت میں بلوچستان پر قبضہ جمانے کی سوچ میں پڑگیا تھا۔
میر شیہک کی محنتوں کے نتیجہ میں منظرعام پر آنے والی حکومت وقوت کیسے کمزور پڑگئی؟ تاریخی معاہدہ کے بعد بلوچوں کی حکومت محدود یا کمزور ہوگئی۔ دوسری جانب بلوچ بزرگوں کے مطابق اس حکومت کے زوال اور انحطاط کی اصل وجہ دو بڑے بلوچ قبائل ”رند“ اور ”لاشار“ کی باہمی پچیس سالہ لڑائی تھی۔
”تاریخ ألفی“ کے مصنفیں نے 1577ء کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ”کیچ“ اور ”مکران“ سے بڑی تعداد کے لوٹے گئے غنائم اور ساز وسامان کے لانے کا تذکرہ کیا ہے جو بلوچستان کے دو معروف اور وسیع وعریض علاقوں سے لوٹ کر شاہ طہماسب کے محل میں لائے گئے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے قزلباشوں نے بلوچستان پر حملہ کرکے اپنا دائرہ حکومت بڑھانے کی کوشش کی ہے چنانچہ لڑائیوں کے نتیجہ میں انہیں بہت مال اور سامان ہاتھ آیا۔
لیکن ان حملوں کے بعد بلوچستان پر کون مسند اقتدار پر رہا؟ اس بارے میں صحیح معلومات دستیاب نہیں البتہ یہ بات قطعی ہے کہ ”شاہ محمد خدابندہ“ کے دور میں صفویوں کی قوت بالکل ڈھیلی پڑگئی اور داخلی اختلافات وقزلباشوں سے لڑائیوں کی وجہ سے وہ مرکز کے علاوہ دوسرے علاقوں پر قدم نہ جما سکے اور ان کے توسیع پسندانہ عزائم پر علمدرآمد رک گیا۔ اس کے با وجود تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان پر شاہ عباس صفوی کے بڑے پیمانے پر حملے سے پہلے شاہ حسین سیستانی والی سیستان کی نمائندگی کرتے ہوئے بلوچستان کے علاقے ” دزک“ ، ”بمپور“ اور ”کیچ“ سے ٹیکس اکٹھے کرتے تھے اور عوام سے بھتہ وصول کرتے تھے۔
1612ء میں شاہ عباس صفوی کو اطلاع دی گئی کہ بلوچستان حکومتی عناصر کے ہاتھوں سے نکل چکاہے، مقامی حکمران باغی ہوچکے ہیں۔ بلوچستان سے واپس لوٹنے والے تاجروں نے بھی شکایت کی کہ بدامنی اور انتشار کی وجہ سے ان کاروبار متاثر ہوا ہے۔ صفوی شاہ نے ”شاہویردی سلطان محمودی“ کی قیادت میں اپنی فوج کا ایک دستہ بلوچستان کی سرکوبی کیلیے روانہ کردیا۔ یہ 1017 ھ۔ق کے آخری دنوں کی بات ہے۔ قابض فوج کی روانگی سے پہلے سیستان کے حکام سے مدد طلب کی گئی جو صفویوں کے صف اول کے اتحادی تھے۔ سیستان کے امراء وحکام نے بلوچستان کو زیر کرنے کے لیے 6 ہزار کے قریب مسلح افراد کا دستہ تیار کیا جو صفوی فوج کے ساتھ بلوچستان پر حملہ آور ہوئے۔ (تاریخ عباسی، روزنامہ ملا جلال/ فارسی زبان میں ص379)
تاریخ عباسی کے مصنف کے مطابق اس وقت بلوچستان دو بھائیوں ”ملک بہادر“ اور ”ملک شمس الدین“ کے زیر بگین تھا جو مختلف علاقوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ جب صفوی فوج بلوچستان کی طرف پیش قدمی کررہی تھی تو بہت سارے سرداروں نے شاھویردی سلطان کے پاس اپنے سفیر بھیج کر شاہ سے اطاعت کی یقین دہانی کرائی۔ بلوچ سرداروں کی یقین دہانیوں کے باوجود ”شاھویردی“ نے اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ دوسرے حملے کے نتیجے میں متعدد قلعے اور شہر صفویوں کے قبضے میں آگئے۔
ملا جلال جو شاہ عباس صفوی کے دور میں رونما ہونے والے واقعات کو قلمبند کیا کرتا تھا نے لکھا ہے کہ صفویوں نے بلوچستان کے متعدد علاقوں پر قبضہ کرکے 880 افراد کا سر قلم کیا۔
سیستانی حکام اور فوجیوں کے تعاون سے قبضہ گیری کا کام زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا تھا۔ مقبوضہ علاقوں سے بڑی تعداد میں اونٹ، بھیڑ بکرے اور اسیر اٹھا کر صفوی لشکر واپس ہوا۔ (تاریخ ملا جلال)
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان کے شمالی پڑوسی سیستانی حاکم نے بھی موقع غنیمت سمجھ کر بلوچستان پر چڑھائی کی ہمت کی۔ ”احیاء الملوک“ کے مصنف نے لکھا ہے: حاکم سیستان کے دل میں یہ خیال آیا کہ مکران پر ضرور حملہ کرکے ان علاقوں کو فتح کرنا چاہیے۔ (احیاء الملوک ص484)
صفوی اپنے زعم میں امن کی بحالی کیلیے فوجی آپریشن کررہے تھے۔ مگر ان کی پالیسیاں بری طرح شکست سے دچار ہوئیں۔ ان کے حملوں کے نتیجہ میں ہزاروں افراد قتل یا گرفتار ہوئے جو بچ گئے تھے وہ دربدری وکسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ متعدد آبادیاں اور مکانات صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور صفویوں کی نفرت بلوچوں کے دلوں میں جڑ پکڑ گئی۔
”تاریخ عالم آرائے عباسی“ کے مصنف کے مطابق شاہویردی سلطان کی موت کے بعد اس کا بھائی والئ بلوچستان مقرر ہوا۔ اس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ کرمان کے والی ”گنجعلی خان زیگ“ کو بلوچستان بھیجا جائے۔ تا کہ بن فہل قلعے پر قبضہ کرکے مکرانیوں کو بیدخل کیا جائے۔ اسی مقصد کے تحت 1613 میں گنجعلی خان ایک فوج کے ساتھ براستہ جیرفت (صوبہ کرمان کا اہم شہر) بلوچستان آیا۔ مشرقی بلوچستان کے حاکم ملک شمس الدین کو جب اطلاع ملی تو انہوں نے بھی بلوچوں کی ایک فوج مقابلے کیلیے تیارکی۔ بمپور کے قریب ”کردون“ میں ان کی لڑائی ہوئی۔ لڑائی میں ملک شمس الدین کو شکست ہوئی اور وہ پسپا ہوکر بمپور چلاگیا۔ دو مہینہ تک محاصرے میں رہنے کے بعد بمپور کا قلعہ بھی کھل گیا اور ملک شمس الدین اپنے بچوں سمیت گرفتار ہوئے۔ ملک شمس الدین کو صفویوں کے دارالحکومت اصفہان لیجایا گیا۔
بلوچستان کے حوالے سے گنجعلی خان کی پالیسیاں انتہائی نا کام رہیں جو قاجاریوں کے دور میں نافذالعمل تھیں۔ اس کی ایک پالیسی یہ تھی کہ سرکردہ افراد اور علاقائی سرداروں کو یرغمال بنا کر دور دراز شہروں میں قید رکھا جائے۔ امن کی بحالی کے لیے یہ انتہائی ناکام پالیسی تھی۔ گنجعلی خان صفوی کی دوسری غلط پالیسی یہ تھی کہ بلوچستان کے امور کا زمام ”ہم“ کے حاکم کے ہاتھ میں دیا گیا تھا جو خود بلوچستان کے حدود سے باہر تھا۔ اسی غلط پالیسی کے نتیجہ میں قاجاریوں کے دور میں ایسے واقعات وانقلابات رونما ہوئے کہ بلوچستان کے نصف سے زائد حصہ ایران سے الگ ہوگیا۔ صفوی اور ان کے بعد قاجار حکمران بلوچستانی عوام کی وفاداریاں اور مرضی حاصل کرنے میں ناکام ہوئے۔

شاہ عباس کے بعد بلوچستان میں صفویوں کا کردار

شاہ اسماعیل کے جانشین ” شاہ صفی“ کے دور میں سب سے بڑا واقعہ جو رونما ہوا وہ علاقائی حاکموں کی بغاوت تھی۔ شاہ صفی نے کرمان کے حاکم حاجی خان شاملوی کو بلوچستان پر چڑھائی کا حکم دیا۔ چنانچہ متعدد بلوچ رہ نما گرفتار کردیے گئے جنہیں کرمان میں بسادیا گیا۔
”خلد برین“ کے مصنف نے مکران کے حاکموں کی بغاوت کی کہانی دوسرے انداز میں لکھا ہے۔ اس کتاب کے مطابق سیستان کے حاکم حمزہ خان نے موقع غنیمت سمجھ کر بلوچستان پر حملہ کیا۔
سیستانی حاکم ایک طاقت ور فوج کے ہمراہ کیچ اور مکران جا پہنچا۔ لیکن ملک مرزا نے اپنی فوج کو مختصر جھڑپوں کے بعد قلعوں کی حفاظت پر مامور کردیا اور خود قزوین کا رخ کیا جہاں شاہ صفی مقیم تھے۔ ملک مرزا کی سفارش پر بلوچستان میں حکومت کی بھاگ دوڑ دوبارہ کرمان کے حاکم کے حوالے ہوئی۔
صفوی ذخائر کتب میں شاہ عباس ثانی کے دور میں بلوچستان کے حوالے سے خاص بات نظر نہیں آتی البتہ شاہ سلیمان صفوی کے دور میں ”بیگ یوزباشی“ کو بلوچستان پر لشکر کشی کا حکم موصول ہوا۔
بیگ یوزباشی نے حملے سے پہلے والی کرمان کو خط لکھ کر فوج تیار کرنے کا حکم دیا تا کہ مکران پر لشکر کشی کی جائے۔ کرمان کے حاکم نے بھی 1800 افراد پر مشتمل ایک دستہ تیار کیا۔ (تذکرہ صفویہ کرمان383)
اکتوبر 1671ء میں قوچہ بیگ کرمان پہنچا۔ کرمان سے ”قصر قند“ منتقل ہوا جب کرمانی دستہ اس کے ساتھ تھا۔ قصر قند پہنچنے کے بعد سیستانی حاکم ”ملک نصرت خان“ اور بندرعباس کے حاکم ”ملک مرتضی قلی خان“ اپنے فوجیوں سمیت صفوی حکمران کے ساتھ ہوئے۔ اسی لیے تھوڑے عرصے میں سارے قلعوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور”تذکرہ صفویہ کرمان“ کے مطابق قلعوں کے باہر موجود درختوں کو اکھاڑ کر عوام کی بڑی تعداد کو قتل یا پھر گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ فیروز آباد اور سرباز کے علاقے بھی اس یورش میں ان کے قبضہ میں آئے۔
6 مہینہ تک جاری رہنے والی غارتگری ولڑائی کے بعد قوچہ بیگ مکرانی حاکموں کے گرفتار شدہ افراد کے ساتھ مئی 1679ء میں بلوچستان سے واپس چلا گیا۔ یرغمالیوں میں سربازی حاکم ”میر شنبہ“ اور شکر اللہ جو بنت کا حاکم تھا ودیگر افراد شامل تھے۔
اس کاروائی کے بعد قوچہ بیگ اور ملک نصرت خان ”مرتضی قلی خان“ کی فوج سے الگ ہوئے۔ ان کا خیال تھا اب مہم پوری ہوگئی ہے۔ مرتضی قلی خان کا اصرار تھا کہ کیچ قلعے پر قبضہ کرنا چاہیے جو بلوچستان کا اہم قلعہ تھا۔ اسی لیے مرتضی قلی خان بلوچستان میں مقیم رہا جبکہ حکومت صوبہ فارس کے علاقے دشستان کے سابق حمران ”صفر قلی خان“ کے حوالے ہوئی۔
صفر قلی خان کی فوج کے رویے سے تنگ آکر بلوچ سرداروں نے مزاحمت کی راہ اپنائی۔ چنانچہ عوامی مزاحمت جس کی قیادت میرحسین لاشاری اور شیخ تنگہ ای کر رہے تھے مرکزی حکومت کی قوتوں پر گوریلا طرز کے حملے کرتی رہی۔ بالاخر صفرقلی خان کے فوجی پسپا ہوئے اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد حکومت نواز قبائلی رہ نما مقامی حکمرانوں کی کمزوری دیکھ کر مزاحمت کار سرداروں سے جاملے۔ چناچنہ بلوچ سرداروں نے اپنے حملوں کا دائرہ وسیع کرکے کرمان پر چڑھ دوڑے۔ دراصل یہ مرکزی حکومت کی کئی عشروں کی ظالمانہ کارروائیوں کا رد عمل تھا۔ 1689ء میں بلوچ قبائل کے انتقامی حملوں کے بعد افغانیوں نے ایران پر پہلی دفعہ حملہ کیا۔ چنانچہ ستمبر 1690ء کو ”کامران افغان“ کی قیادت میں افغانیوں نے انار اور بیاض نامی علاقوں میں اصفہان قافلے پر حملہ کیا۔ (تذکرہ صفویہ کرمان)
1700ء سے لیکر 1722ء تک بلوچوں نے کرمان وملحقہ شہروں پر اپنے انتقامی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا جو در حقیقت صفوی حکمرانوں کی جارحیت اور توسیع پسندانہ عزائم کے نتائج تھے۔ کرمان بلوچستان کا پڑوسی صوبہ ہے جس کے حکمران مرکزی حکومت (صفویہ) کے دست بستہ آلہ کار تھے اور بلوچستان پر ہر حملے میں پیش پیش تھے۔ صفوی حکومت کے سقوط میں ان انتقامی حملوں کا بڑا اثر تھا۔
لیکن تاریخ نویسوں نے بلوچ قبائل کی ان کاروائیوں کے نتائج سے جان بوجھ کر چشم پوشی اختیار کی۔
بلاشبہ افغانیوں نے صفوی حکومت کا تختہ الٹ دیا لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اگر افغانیوں کو ایران کے قلب میں جانے کی ہمت ہوئی اور دارالحکومت تک انہیں رسائی ملی تو اس کی وجہ بلوچ قبائل کے مسلسل گوریلا حملے تھے جو صفویوں کو غیر مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔ چونکہ بلوچوں نے ایران کے مشرقی علاقوں میں صفویوں کا صفایا کیا تھا اس لیے افغانی حملہ آور بغیر کسی مزاحمت کے مرکز تک پہنچ گئے۔ صفوی دور کے آخری سالوں میں بلوچستان کی تاریخ اور کردار پر نئے سرے سے بحث وتحقیق کرنی چاہیے۔ اس سے نئے پہلو اور حقائق سامنے آسکتے ہیں۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں