بلوچستان کی شکایات دور کرنے میں تاخیر نہ کی جائے

بلوچستان کی شکایات دور کرنے میں تاخیر نہ کی جائے
baloch-poorsبلوچستان کی گزشتہ 63سال کی تاریخ محرومیوں اور مسائل کی تاریخ ہے۔ اس سارے عرصے میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا جب وہاں امن و آشتی اور خوشی و اطمینان کا دور دورہ رہا۔

اس صورتحال کی بنیادی ذمہ داری تو ان سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے جن کے پاس مرکز اور صوبے میں اقتدار آیا تو انہوں نے پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے کے گوناگوں مسائل کے دیرپا حل کے لئے یہاں کے عوام کی خواہشات اور امنگوں کو درخوراعتنا نہیں سمجھا اور ایسے فیصلے اور اقدامات کئے جن سے دلوں میں شکایتیں اور ذہنوں میں بدگمانیاں بڑھتی گئیں۔ نوبت بایں جار سید کہ وہاں کی نوجوان نسل میں مرکزگریز رحجانات پرورش پانے لگے جن کا آج مختلف واقعات کی صورت میں اظہار ہو رہا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے علاوہ بلوچستان میں فوج کے کردار پر بھی ہمیشہ انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔ پاکستان آرمی نے ابتلا و آزمائش کے وقتوں میں جہاں بلوچستان میں مثالی امدادی کام کئے وہاں کچھ کارروائیاں ایسی بھی کیں جن سے بلوچستانی عوام کے دل زخمی ہوئے۔ اس پس منظر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بلوچستان میں آج جو بھی مسائل ہیں وہ سیاسی حکمرانوں اور فوج ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ اور انہیں حل بھی انہی کو کرنا ہوگا ۔
لہٰذا یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ پیر کو ملک کے سیاسی اور فوجی دونوں سربراہ ایک ہی وقت میں بلوچستان میں موجود تھے اور دونوں نے بلوچستان کے مسائل اور محرومیوں کے خاتمے کے لئے پختہ عزم کا اظہار کیا۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں اعتراف کیا کہ بلوچستان کے ساتھ پچھلے 63سالوں میں زیادتیاں ہوئی ہیں اور اعلان کیا کہ ہم ان زیادتیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے ضروری ہے کہ بلوچستان کے عوام کا اعتماد بحال ہو۔ صدر آصف علی زرداری پہلے ہی ان زیادتیوں پر اہل بلوچستان سے معافی مانگ چکے ہیں۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ ہم زبانی جمع خرچ پر نہیں بلکہ عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان کے بیس ہزار بے روزگار نوجوانوں کے لئے ملازمتوں کے اعلان کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ جلد ہی بین الصوبائی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہو گا جس میں صوبائی خودمختاری کے علاوہ بلوچستان کے دوسرے مسائل اور معاملات کو بھی زیرغور لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کو ایک پیکج کے ذریعے حقوق دینے کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہم نے یہ آغاز نیک نیتی سے کیا ہے اور یہ صرف آغاز ہے اختتام نہیں۔ جمہوری حکومت بلوچستان میں صورتحال کی نزاکت سے بخوبی آگاہ ہے اور وہ صوبے کی محرومیاں اور مرکز اور صوبے میں اعتماد کے فقدان کو دور کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ وزیراعظم کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی بلوچستان کی تعمیرو ترقی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان آرمی بلوچستان کے عوام کی آواز پر ہمہ وقت ان کی خدمت کیلئے تیار ہے۔ انہوں نے چمالنگ میں طلبا اور والدین سے ملاقات کے دوران کہا کہ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے اس لئے یہاں کے عوام اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں۔ جنرل کیانی نے اعلان کیا کہ پاک فوج بلوچستان کے 350ذہین بچوں کے سارے تعلیمی اخراجات خود برداشت کرے گی۔
ملک کے انتظامی اور فوجی سربراہوں نے اہل بلوچستان کی شکایات اور محرومیوں کا ذکر کر کے انہیں دور کرنے کے جن عزائم کا اظہار کیا ہے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک میں ان کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان اس وقت جس قسم کی صورتحال سے گزررہا ہے اس پر خاص توجہ سے ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس صورتحال کے بارے میں بعض بین الاقوامی اداروں کی رپورٹیں منظرعام پر آ چکی ہیں اور بعض ملکی اداروں نے بھی اپنی رپورٹیں پیش کی ہیں جو فوری توجہ اور اقدامات کا تقاضا کرتی ہیں کیونکہ حالات جیسے نظر آرہے ہیں اس سے کہیں زیادہ تشویشناک ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بددل بلوچ نوجوانوں کی تنظیمیں کسی لگی لپٹی کے بغیر ان واقعات کی ذمہ داری قبول کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے سات ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں جو بقول ان کے خفیہ ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں، انہیں رہا نہیں کیا جا رہا۔ معاملے کی تحقیقات کیلئے حکومت نے جوڈیشل کمیشن قائم کر رکھا ہے جو ابھی کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچا۔ بعض تنظیمیں اعلانیہ آزادی کے نعرے لگاتی ہیں اور سکیورٹی فورسز پر حملوں اور انہیں نقصان پہنچانے کی تفصیلات پر مبنی پریس ریلیزیں جاری کرتی ہیں، دوسری طرف عدم تحفظ، سکیورٹی خدشات اور اعتماد کے فقدان کی وجہ سے بلوچستان میں مقیم دوسرے صوبوں کے ہزاروں خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ان میں بعض ایسے خاندان بھی شامل ہیں جو سو سو سال سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آباد تھے اور تجارت و تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ تاجر برادری کے انخلا سے جہاں بلوچستان میں کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثر پڑا ہے وہاں پروفیسر اور ٹیچرز کی نقل مکانی بلوچستان کے تعلیمی مستقبل کے لئے دوررس نقصانات کا باعث ہے۔ جب تک صوبے کے نوجوان خود ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل نہ ہوں، خاص طور پر اساتذہ کے تحفظ کو یقینی بنا کر ان کی نقل مکانی کا سلسلہ روکنا چاہئے۔
ہم اس مرحلے پر وفاقی حکومت سے گزارش کریں گے کہ جس طرح امریکہ نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی مسائل حل کرنے کے لئے ایک خصوصی ایلچی مقرر کر رکھا ہے اسی طرز پربلوچستان کے متعلق حقائق جاننے کے لئے ایک خصوصی رابطہ کار مقرر کرے جوتمام مسائل کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات تیار کرے۔ یہ مسائل بہت پرانے ہیں اور ان کے حل کے لئے تحریکیں چلتی رہی ہیں لیکن حکومتوں نے ان کی بات سننے کی بجائے انہیں طاقت کے ذریعے ناکام بنانے پر زیادہ توجہ دی۔ بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ ان مسائل کے حوالے سے حقائق کا سامنا کر کے حالات کو درست کیا جائے۔ یہ اعتماد کے فقدان کا نتیجہ تھا کہ گزشتہ انتخابات میں بلوچستان کی بعض اہم قوم پرست پارٹیوں نے حصہ ہی نہیں لیا۔ وفاقی حکومت کے مقررکردہ خصوصی رابطہ کار کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ ان پارٹیوں کے لیڈروں، منتخب سیاسی نمائندوں، بزرگ قائدین، معتبرین اور نوجوانوں کی تنظیموں کے صلاح مشورے سے بلوچستان کے مسائل کا پائیدار حل تجویز کرے جس پر لفظی و معنوی دونوں اعتبار سے خلوص نیت کے ساتھ عمل کیا جائے۔

(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں