ہم مسلمان ہیں؟

ہم مسلمان ہیں؟
muslims-haramہم مسلمان ہیں… صفر جمع صفر ، جمع صفر …57 اسلامی ممالک کے ڈیڑھ ارب مسلمان جو نہ تو افغانستان کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کر سکے… نہ عراق کے ستم رسیدہ مسلمانوں کیلئے کچھ کر سکے اور نہ غزہ کے مجبور و مقہور محصورین کی مدد کو پہنچ سکے۔

گزشتہ گیارہ ماہ سے غزہ کے محصور مسلمان اسرائیلی فوج کے محاصرے میں ہیں۔ غزہ کی پٹی دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکی ہے لاکھوں مرد، خواتین ،بوڑھے اور بچے ،بجلی ،پانی اور دواؤں کے بغیر گزارہ کر رے ہیں خوراک کا ذخیرہ بدستور ختم ہو رہا ہے۔ اور ایک عظیم انسانی المیہ ظہور پذیر ہونے کو ہے۔ لیکن ”مہذب“ عالمی برادری اور بے جان امت مسلمہ مہر بہ لب ہے۔ ان مظلوم فلسطینیوں کی امداد کیلئے دس ہزار ٹن امدادی سامان جو کہ خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء پر مشتمل تھا چھ جہازوں کے بیڑے کی صورت میں روانہ کیا گیا جس میں ترک ، مغربی ، آسٹریلوی، عرب ، کویتی،پاکستانی ، اور افریقی امدادی کارکنان ، صحافی اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے شامل تھے۔ قافلے کو منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے ہی اسرائیلی بحریہ نے گھیر لیا اور آگے جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
اسرائیل کا تو قیام ہی ایسا واقعہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی، برطانیہ نے مسئلہ فلسطین کو 2اگست1947کو اقوام متحدہ میں پیش کیا تھا۔ جس نے کثرت رائے سے تقسیم فلسطین کی سفارش کی اور فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی منظور دی گئی، ساڑھے چار ہزار مربع میل علاقہ عربوں کیلئے پانچ ہزار تین سو اڑتیس مربع میل کا علاقہ یہودیوں کیلئے اور یروشلم بین الاقوامی علاقہ قرار پایا اور حیفہ کی بندرگاہ اور ملحقہ علاقے برطانوی کنٹرول میں دے دیئے گئے۔ ہے کوئی ایسی نظیر دنیا میں…؟خانماں برباد فلسطینوں پر اسرائیل کا ظلم آج کی بات نہیں ہے…یہ کہانی اسرائیل کے قیام سے جاری ہے۔ جس نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے کھدیڑ کر نکالا اور پھر کبھی سکھ چین سے نہ رہنے دیا.
آج غزہ کے مظلوم مسلمانوں کو محاصرے میں جکڑنے والا اسرائیل وہی ہے جس نے 7جون 1982کو لبنان میں مقیم فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں پر شدید حملے کئے اور انہیں تہہ تیغ کیا ۔14ستمبر 1982کو جنوبی لبنان کے کیمپوں صابرہ اور شتیلہ پر وحشیانہ کارروائی کی اور بے بس فلسطینیوں کا قتل عام کیا ۔ پناہ گزینوں کے کیمپوں پر حملے اسرائیل ہی کے سیاہ کارنامے ہیں جن کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ جولائی2006میں اپنے دو یرغمال فوجیوں کی رہائی کیلئے اسرائیل نے لبنان پر وحشیانہ بمباری کی اور ہزاروں بے گناہ لوگ شہید کر دیئے … اب گزشتہ گیارہ ماہ سے اسرائیل نے غزہ کے مسلمانوں کو گھیر رکھا ہے اور نہ تو O/Cکچھ کر پائی ہے نہ اقوام متحدہ نے کوئی کردار ادا کیا ہے۔امدادی قافلے پر حملے کے بعد بھی امریکہ اور اقوام متحدہ نے رسمی سے اظہار افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا… اور نہ ہی کوئی ایسی توقع کھنے کا جواز ہے کہ اسرائیل کا ہاتھ روکا جائے گا …جن ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں وہ اگر محض اسرائیلی سفیروں کو دفتر خارجہ طلب کر کے اور اپنے سفراء کو واپس بلا کر ان اقدامات کو کافی سمجھ بیٹھے تو یہ ان کی بھول ہو گی۔ملت اسلامیہ جسد واحد کی مانند ہے گزشتہ کئی دہائیوں کے مسلسل جبر ناردا کے باعث عام مسلمانوں میں مغربی طاقتوں کے ساتھ ساتھ اپنی بے حمیت قیادت کیلئے بھی نفرت بڑھ رہی ہے۔ یہ بڑھتا ہوا اضطراب سب سے پہلے بے عمل مسلم حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ توہین آمیز خاکوں کے ذریعے پہلے ہی مسلم امہ کو مشتعل کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل اور اس کے پشتیبان امریکہ و برطانیہ نے اقوام متحدہ کو فقط ایک نمائشی ادارہ بنا رکھا ہے۔ وہ وقت آ چکا ہے کہ مسلم ممالک اقوام متحدہ سے اجتماعی طور پر مستعفی ہوں۔ کسی ایک یا ایک سے زائد اسلامی ریاستوں کو عسکری و فنی اعتبار سے مضبوط تر کیا جائے۔ یورپی یونین کی طرز پر مشترکہ کرنسی مرکزی بینک، تیل اور قدرتی وسائل سے استفادے کا مشترکہ نظام، مرکزی اسٹاک ایکسچینج اور نیٹو کی طرز پر مشترکہ فوج تشکیل دی جائے۔ بصورت دیگر غزہ جیسے المئے امت مسلمہ کو لہو رلاتے رہیں گے۔

وقار اعوان
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں