حماس اور فتح موجودہ حالات میں اپنے اختلافات ختم کریں: ترکی

حماس اور فتح موجودہ حالات میں اپنے اختلافات ختم کریں: ترکی
erdogan2استنبول (ایجنسیاں) ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوان نے موجودہ صورت حال میں متحارب فلسطینی دھڑوں کے درمیان اختلافات ختم کر کے مصالحت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ انقرہ اس سلسلہ میں مدد دینے کو تیار ہے۔

انہوں نے یہ بات استنبول میں شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔ رجب طیب ایردوان نے کہا کہ فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت فتح اور حماس اسلامی تحریک کے درمیان اختلافات کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حماس نے انقرہ کے ثالثی کردار کا خیر مقدم کیا ہے۔
ترک وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ”موجودہ صورت حال میں دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات ختم ہونے چاہئیں اور مجھے یقین ہے کہ ہم حماس اور فتح کے درمیان امن قائم کرا سکتے ہیں”۔
انہوں نے کہا کہ حماس کے عہدے داروں نے ہمیں مصالحت کے لیے درکار مینڈیٹ دے دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ہم فتح کی جانب سے بھی ایسی ہی اپروچ چاہتے ہیں اور میں ان سے اس سلسلہ میں بات چیت کرنے والا ہوں”۔وہ فلسطینی صدر محمود عباس سے اپنی ہونے والی ملاقات کا حوالہ دے رہے تھے جو استنبول میں ہی ہیں۔
ترک وزیر اعظم نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ حماس کو امن کوششوں سے بے دخل نہیں کیا جانا چاہیے۔ بین الاقوامی برادری میں کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ حماس اور فتح کو مختلف حیثیت دے اور وہ فتح سے تو بات چیت کرے لیکن حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس سے مذاکرات مسترد کر دے لیکن اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ ایک سنگین غلطی ہو گی”۔

فریڈم فلوٹیلا پر حملے کی تحقیقات
ترک وزیر اعظم نے نیوز کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر اسرائیلی کمانڈوز کے غزہ جانے والے امدادی قافلے پر حملے کو بین الاقوامی قانون اور انسانی اقدار کی خلاف ورزی قرار دیا اور اسرائیل پر زور دیا کہ وہ واقعے کی بین الاقوامی تحقیقات کے لیے مطالبے کو تسلیم کرے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے فریڈم فلوٹیلا پر حملے کو اپنے دفاع میں کارروائی قرار دیا ہے اور واقعے کی تحقیقات کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔لیکن ترک وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ”اگر کوئی نفرت ہے تو یہ اسرائیل کی جانب سے نفرت ہے۔اگر کوئی دہشت گردی ہے تو یہ اسرائیل ہے جس کی جانب سے ریاستی دہشت گردی کا ارتکاب کیا گیا ہے”۔
طیب ایردوان نے کہا کہ ”اسرائیل کو آئینے میں دیکھنا چاہیے کہ کس نے دہشت گردی کی تیاری کی تھی”۔انہوں نے امریکا پر زور دیا کہ وہ اپنے ہی ایک شہری کی عزت کا تحفظ کرے”۔وہ اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے انیس سالہ فرقان دوگان کا حوالہ دے رہے تھے، جو ترک نژاد امریکی شہری تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیلی الزام کے مطابق پانچ امدادی کارکنان کے دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات تھے اور ان میں سے کوئی دہشت گرد تھا تو پھر انہیں رہا کیوں کیا گیا تھا؟
اس موقع پر شامی صدر بشار الاسد نے کہا کہ ”غزہ کا محاصرہ ختم کیا جانا چاہیے اور اس کے ساتھ اسرائیل کو مجرموں کے پنجرے میں بند کیا جانا چاہیے۔اسے الگ تھلگ رکھا جانا چاہیے تاکہ کسی اور میں وہ بیماری منتقل نہ کر سکے”۔
اس سے پہلے ترک وزیر خارجہ احمد داود اوغلو نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بین کی مون کی تجویز کے مطابق امدادی قافلے پر حملے کی تحقیقات پر رضا مندی کا اظہار کرنا چاہیے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ایسی کوئی ضروربات ہے جس کی اسرائیلیوں کی جانب سے پردہ داری کی جا رہی ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں