استنبول کے بعد لندن

استنبول کے بعد لندن
turkey-ordoganترکی کا شہر استنبول ان دنوں اللہ اکبر اور قاتل قاتل اسرائیل قاتل کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ محصورین غزہ کی امداد کے لیے استنبول سے جانے والے بحری قافلے پر اسرائیلی حملے کے بعد سے پورے ترکی میں احتجاج جاری ہے اور استنبول اس احتجاج کا مرکز ہے۔

استنبول شہر مشرق اور مغرب کا حسین امتزاج ہے۔ آدھا شہر ایشیا میں اور آدھا یورپ میں ہے۔ اسے مسجدوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اور یہاں ہر چند سو گز کے فاصلے پر ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت مسجد نظر آتی ہے۔ دوسری طرف اس شہر میں نائٹ کلب اور تھیٹر بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ کسی پر کوئی جبر نہیں۔ وزیراعظم طیب اردگان ایک اسلام پسند لیڈر بن کر اُبھرے ہیں لیکن اُن کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے اسلام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا۔انہوں نے اسلام کو سیاسی نعرہ بنانے کی بجائے اسلام کو ایک طرز زندگی کے طور پر اپنانے کو ترجیح دی ہے۔ اُن کی طاقت اُن کے فتوے نہیں بلکہ ”جسٹس“ اور ”ڈیولپمنٹ“ ہے۔
ماضی کی امریکا نواز فوجی حکومتوں نے ترکی کو دہشت گردی اور انتشار میں مبتلا کردیا تھا۔ ترک معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی۔ سیاسی عدم استحکام کے اس دور میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی صاف ستھری قیادت نے ووٹ کی طاقت سے اقتدار حاصل کیا اور دھیرے دھیرے ترکی کو انصاف اور ترقی کے راستے پر ڈال دیا۔ آج ترکی کے اسلام پسند خوف اور دہشت گردی کی نہیں بلکہ خدمت اور دیانت کی علامت ہیں۔ یہاں ایک ہی وقت پر تمام مساجد سے اذان کی آوازیں آتی ہیں۔ جمعہ کے خطبے میں کسی کو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں۔ دین نے ترکوں کو منتشر نہیں بلکہ متحد کردیا ہے۔ ہفتہ کی شب ترکی کے اسلام پسند ڈنڈے ہاتھوں میں لے کر نائٹ کلبوں کا رخ کرنے کی بجائے مسجدوں کا رخ کرتے ہیں، پرامن انداز میں نماز عشاء ادا کرتے ہیں اور برائی کا مقابلہ برائی سے کرنے کی بجائے اچھے عمل کو اپنی طاقت بناتے ہیں۔
ترکی میں احیائے اسلام کی نئی تحریک میں تشدد کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ ترک اسلام پسند جھوٹ اور منافقت کی گندگی سے بہت دور ہیں اور انہوں نے حقیقی معنوں میں صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دے رکھا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کی سب سے زیادہ توجہ صفائی اور نظم و ضبط قائم رکھنے پر رہتی ہے اور یہ وہ خوبی ہے جو جدید ترکی کو آہستہ آہستہ اُس کی عظمت رفتہ واپس دلا رہی ہے۔ وزیراعظم طیب اردگان فتوے باز اور مفاد پرست مولوی کی بجائے ایک عالم اور مجاہد بن کر سامنے آرہے ہیں۔ وہ فاتح قسطنطینیہ سلطان محمد فاتح دوئم کی طرح مظلوم مسلمانوں کی آواز بن چکے ہیں۔ سلطان محمد فاتح دوئم بھی ایک عالم اور مجاہد تھے۔ آج کے استنبول کو انہوں نے فتح ضرور کیا لیکن انہوں نے یہاں کوئی ظلم و ستم نہیں کیا۔ وہ صرف ترک زبان نہیں بلکہ عربی، فارسی، یونانی، عبرانی اور لاطینی زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے فوجی چھاؤنیوں کی بجائے ترکی میں یونیورسٹیاں قائم کی تھیں اور اسی علم دوستی اور انصاف پسندی کے باعث اسلام کو بوسنیا تک پہنچا دیا۔ آج کا ترکی صرف بوسنیا کے مسلمانوں کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے مظلوموں کے حقوق کا علمبردار ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ استنبول میں اسرائیل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں صرف مسلمان نہیں بلکہ مسیحی اور یہودی بھی شامل ہورہے ہیں۔
یہ خاکسار 4/جون کو راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے ایک وفد کے ہمراہ ترک صحافی جوادت خلجر کے جنازے میں شرکت کے لیے استنبول پہنچا۔ اس وفد میں آر آئی یو جے کے صدر اشفاق ساجد، پاکستان اسپورٹس رائٹرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری زاہد فاروق ملک اور خبیب فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر زبیر خان بھی شامل تھے۔ ہم ایئرپورٹ سے سیدھے استنبول یونیورسٹی کے اُس میدان میں پہنچے جہاں جوادت کا جنازہ پڑھا جانا تھا۔ جوادت محصورین غزہ کی امداد کے لیے جانے والے فریڈم فلوٹیلاپر حملہ آور اسرائیلی فوجیوں کے ظلم و بربریت کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر رہا تھا کہ ایک ہیلی کاپٹر سے برسنے والی چار گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ اُس کے جنازے کے اجتماع میں دو پہلو انتہائی قابل غور تھے۔ پہلا یہ کہ نماز جنازہ میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی بڑی تعداد میں موجود تھیں اور اس مخلوط اجتماع میں اسرائیل کے خلاف صرف مردانہ نہیں زنانہ آوازیں بھی گونج رہی تھیں۔ دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ جنازے کے اجتماع سے برطانیہ کے سابق رکن پارلیمنٹ جارج گیلوے نے بھی خطاب کیا۔ اس اجتماع میں اللہ اکبر کے نعرے لگ رہے تھے۔ جوادت کا تابوت گیلوے کے سامنے تھا اور اُن کی تقریر سننے والے اسرائیل کے خلاف نعرے لگارہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ کیا پاکستان میں کسی جنازے کے اجتماع سے کوئی مسیحی خطاب کرسکتا ہے؟
فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے میں نو ترکوں کی شہادت نے ترکی کو فلسطین کی تحریک آزاد ی کا نیا مرکز بنادیا ہے۔ شہداء میں اناطولیہ کا 19سالہ فرقان دوگان بھی شامل ہے جو امریکی شہری تھا۔ فرقان کی شہادت پر طیب اردگان نے انگریزی اور عبرانی میں اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم نے ایک نہتے بچے کو قتل کرکے اپنے بزرگوں کی کوئی خدمت نہیں کی۔ طیب اردگان نے فریڈم فلوٹیلا پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں اسرائیل کے خلاف نفرت کو یہودیت کے خلاف نفرت میں تبدیل نہیں ہونے دیا بلکہ انہوں نے حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف تحریک کو مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں ہم آہنگی کی تحریک بنادیا ہے۔ اس سلسلے میں ترک این جی او ”انسانی حق حریت“ (آئی ایچ ایچ) کا کردار بہت اہم ہے۔ ”انسانی حق حریت“ بظاہر اردو زبان کے الفاظ لگتے ہیں لیکن انہیں ترک زبان میں بھی اسی طرح اور اسی مفہوم میں ادا کیا جاتا ہے جس سے ترک زبان اور اردو زبان میں قربت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ”انسانی حق حریت“ نامی این جی او نے محصورین غزہ کی امداد کے لیے فریڈم فلوٹیلا پر 40ممالک کے 600رضاکاروں کو اکٹھا کیا تھا۔ اس تنظیم کے سربراہ بلند یلدرم خود بھی فریڈم فلوٹیلا پر موجود تھے۔
وہ صرف مسلمانوں کی نہیں بلکہ افریقی ممالک میں غربت اور بیماری کے شکار مسیحیوں کی مدد بھی کرتے ہیں لیکن اسرائیلی قید سے رہائی کے بعد اُن پرمغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ ترک میڈیا بھی کچھ عناصر تنقید کررہے ہیں۔
ترکی میں جمہوریت ہے اور اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ ایک ترک سیاستداں فتح اللہ گولن کھل کر فریڈم فلوٹیلا کو غزہ بھیجنے والوں اور طیب اردگان کے اسرائیل مخالف بیانات پر تنقید کررہے ہیں۔ کچھ مغرب نواز سیکولر کالم نگار ”انسانی حق حریت“ کا تعلق القاعدہ سے جوڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ حماس دہشت گرد تنظیم ہے لیکن طیب اردگان کو ان کی کوئی پروا نہیں۔ وہ حماس کو اور ”انسانی حق حریت“ کو دہشت گرد تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم امریکا اور مغرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھنے پر یقین کرتے ہیں لیکن اس دوستی کی خاطر مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ اردگان کے انہی بیانات نے اُنہیں عربوں میں بھی بہت مقبول بنادیا ہے۔ استنبول میں ایک عرب صحافی نے مجھے بتایا کہ اردگان کی جرأت و بہادری کے بعد اُس کے دل میں یہ خواہش بیدار ہوئی کہ کاش وہ بھی ایک ترک ہوتا۔ اردگان کی بہادری صرف ترکی تک محدود نہیں رہی۔ جارج گیلوے بھی ترکوں کو قافلے میں شامل ہوچکا ہے۔ وہ آنے والے رمضان میں لندن سے گاڑیوں کا ایک قافلہ لے کر محصورین غزہ کی امداد کے لیے روانہ ہوگا۔ یہ قافلے اب نہیں رکیں گے اور بہت جلد جب غزہ آزاد ہوگا تو اُس کی آزادی کی تاریخ میں فریڈم فلوٹیلا کے نوترک شہداء کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

حامد میر
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں