دنیا کے اس پار (2)

دنیا کے اس پار (2)
life_after_life_2پچهلے ہفتے میں نے امریکہ کے ڈاکٹر ریمنڈ اے مودی کی کتابوں کے حوالے سے ان لوگوں کے کچهـ تجربات و مشاہدات ذکر کۓ تهے جو کسی شدید بیماری یا حادثے کے نتیجے میں موت کے دروازے تک پہنچ کر واپس آگۓ، ان میں سے بہت سے لوگوں نے یہ بتایا کہ ایک تاریک سرنگ سے گذرنے کے بعد انہیں ایک عجیب و غریب نورانی وجود نظر آیا، اس نے ہم سے ہماری پچهلی زندگی کے بارے میں سوال کیا، اور پهر اس نے پل بهر میں خود ہی ہمیں ہماری زندگی کے سارے واقعات ایک ایک کرکے دکهادیۓ، مثلا ایک خاتون اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوے کہتی ہیں:

“جب مجهے وه نورانی وجود نظر آیا تو اس نے سب سے پہلے مجهـ سے یہ کہا کہ تمہارے پاس اپنی زندگی میں مجهے دکهانے کے لۓ کیا ہے؟ اور اس سوال کے ساتهـ ساتهـ پچهلی زندگی کے نظارے مجهے نظر آنے شروع ہوگۓ، میں سخت حیران ہوئی کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ کیونکہ اچانک ایسا لگا کہ میں اپنے بچپن کے بالکل ابتدائی دور میں پہنچ گئی ہوں، اور پهر میری آج تک کی زنگی کے ہر سال کا نظاره ایک ساتهـ میرے سامنے آگیا، میں نے دیکها کہ میں ایک چهوٹی سی لڑکی ہوں، اور اپنے گهر کے قریب ایک چشمے کے پاس کهیل رہی ہوں، اسی دور میں بہت سے واقعات جو میری بہن کے ساتهـ پیش آۓ تهے، مجهے نظر آۓ، اپنے پڑوسیوں کے ساتهـ گذرے ہوے واقعات دیکهے، میں اپنے آپ کو کنڈر گارٹن میں نظر آئی، میں نے وه کهلونا دیکها جو مجهے بہت پسند تها، میں نے اسے توڑدیا تها، اور دیر تک روتی رہی تهی، پهر میں گرلز اسکاؤٹس میں شامل ہوگئی، اور گرامر اسکول کے واقعات میرے سامنے آنے لگے، اسی طرح میں جونیر ہائی اسکول سینئر ہائی اسکول اور گریجویشن کے مراحل سے گذرتی رہی، یہاں تک کہ موجوده دور تک پہنچ گئی.
تمام واقعات میرے سامنے اسی ترتیب سے آرہے تهے جس ترتیب سے وه واقع ہوے، اور یہ سب واقعات انتہائی واضح نظر آرہے تهے، مناظر بس اس طرح تهے جیسے تم ذرا باہر نکلو اور انہیں دیکهـ لو، سب واقعات مکمل طور پر سہ ابعادی (Three- dimensional) تهے، اور رنگ بهی نظر آرہے تهے، ان میں حرکت تهے، مثلا جب میں نے اپنے آپ کو کهلونا توڑتے دیکها تو میں اسکی تمام حرکتیں دیکهـ سکتی تهی.
جب مجهے یہ مناظر نظر آرہے تهے، اس وقت میں اس نورانی وجود کو دیکهـ نہیں سکتی تهی، وہ یہ کہتے ہی نظروں سے اوجهل ہوگیا تها کہ تم نے کیا کچهـ کیا ہے؟ اسکے باوجود میرا احساس یہ تها کہ وه خود یہ معلوم کرنا چاہتا ہو، کہ میں نے اپنی زندگی میں کیا کیا ہے؟ وہ پہلے ہی سے یہ ساری باتیں جانتا تها، لیکن وه یہ واقعات میرے سامنے لاکر یہ چاہتا تها کہ میں انہیں یاد کروں.
یہ پورا قصہ ہی بڑا عجیب تها، میں وہاں موجود تهی، میں واقعة یہ سب مناظر دیکهـ رہی تهی، اور یہ سارے مناظر انتہائی تیزی سے میرے سامنے آرہے تهے، مگر تیزی کہ با وجود وه اتنے آہستہ ضرور تهے کہ میں ان کا بخوبی ادراک کرسکتی تهی، پهر بهی وقت کا دورانیہ اتنا زیادہ نہ تها، مجهے یقین نہیں آتا، بس ایسا معلوم ہوتا تها کہ ایک روشنی آئی اور چلی گئی، ایسا لگتا تها کہ یہ سب کچهـ پانچ منٹ سے بهی کم میں ہوگیا، البتہ غالبا تیس سیکنڈ سے زیادہ وقت لگا ہوگا، لیکن میں آپ کو ٹهیک ٹهیک بتاہی نہیں سکتی”
ایک اور صاحب نے اپنے اس مشاہدے کا ذکر اس طرح کیا:
“جب میں اس طویل اندهیری جگہ سے گذر گیا تو اس سرنگ کے آخری سرے پر میرے بچپن کے تمام خیالات، بلکہ میری پوری زندگی مجهے وہاں موجود نظر آئی جو میرے بالکل سامنے روشنی کی طرح چمک رہی تهی، یہ بالکل تصویروں کی طرح تہیں تهی، بلکہ میرا اندازه ہے کہ وه خیالات سے زیاده ملتی جلتی تهی، میں اس کیفیت کو آپ کے سامنے بیان نہیں کرسکتا، مگر یہ بات طے ہے کہ میری ساری زندگی وہاں موجود تهی، وه سب واقعات ایک ساتهـ وہاں نظر آرہے تهے، میرا مطلب ہے کہ ایسا نہیں تها کہ ایک وقت میں ایک چیز نظر آۓ، اور دوسری وقت دوسری، بلکہ ہر چیز  بیک وقت نظر آرہی تهی، میں وه چهوٹے چهوٹے برے کام بهی دیکهـ سکتا تها جو میں نے کۓ تهے، اور میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہورہی تهی کہ کاش میں نے یہ کام نہ کۓ ہوتے، اور کاش میں واپس جاکر ان کاموں کو منسوخ (Undo) کرسکتا”.
(Life after Life P. 65-69)
جن لوگوں نے اپنے یہ مشاہدات ڈاکٹر مودی کے سامنے بیان کۓ، ان میں سے بعض نے یہ بهی بتایا کہ اس مشاہدے کے آخری مرحلے پر انہوں نے کوئی ایسی چیز دیکهی جیسے کوئی رکاوٹ ہو، اور یا تو کسی نے کہا یا خود بخود ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ ابهی ان کے لۓ اس رکاوٹ کو عبور کرنے کا وقت نہیں آیا، اور اسی کے معاً بعد وه دوباره اپنے جسم میں واپس آگۓ، اور معمولی کی دنیا کی طرف پلٹ اۓ، بعض لوگوں نے بتایا کہ یہ رکاوٹ پانی کے ایک جسم کی سی تهی، کسی نے کہا کہ یہ ایک مٹیالے رنگ کی دهند تهی، کسی نے اسے دروازے سے تعبیر کیا، کسی نے کہا کہ وه اس طرح کی ایک باڑهـ تهی جو کهیت کے گرد لگادی جاتی ہے، اور کسی نے یہ بهی کہا که وه صرف ایک لکیر تهی.
ڈاکٹر مودی کی یہ کتاب Life after Life سب سے پہلے سنہ 1975 میں شائع ہوئی تهی، جس میں انہوں نے آٹهـ سال تک تقریبا ڈیڈهـ سو افراد سے انٹرویو کے نتائج بیان کۓ تهے، ساتهـ ہی انہوں نے یہ بهی کہاتها که ابهی انکی یہ ریسرچ نہ پوری طرح سائنٹفک ثبوت کہلانے کی مستحق ہے، نہ وه اس قسم کے واقعات کے ذمہ دارانہ اعداد و شمار دینے کی پوزیشن میں ہیں، لیکن انکی اس کتاب نے دوسرے بہت سے ڈاکٹروں کو اس موضوع کی طرف متوجہ کیا، اور انکی بعد بہت سے لوگوں نے اس قسم کے مشاہدات کو اپنا موضوع بنایا، اور اس پر مزید کتابیں لکهیں، ان میں سے ایک کتاب ڈاکٹر میلون مورس (Melvin Morse) نے لکهی ہے جو Closer To the Light کے نام سے شائع ہوئی ہے، یہ صاحب بچوں کے امراض کے اسپیشلسٹ ہیں، اور انہوں نے اس بات کی جستجو شروع کی کہ کیا اس قسم کے مشاہدات بچوں کو بهی پیش آۓ ہیں؟ ان کا خیال تها کہ بالغ لوگ اپنے ذہنی تصورات سے مغلوب ہوکر کچهـ نظارے دیکهـ سکتے ہیں، لیکن بچے اس قسم کے تصورات سے خالی الذہن ہوتے ہیں، اس لۓ اگر ان میں بهی ان مشاہدات کا ثبوت ملے تو ان نظاروں کی واقعی حیثیت مزید پختہ ہوسکتی ہے، چنانچہ اس کتاب میں انہوں نے بتایا ہے کہ بہت سے بچوں نے بهی اس قسم کے مشاہدات کۓ ہیں، اور انہوں نے خود ان بچوں سے ملاقات کرکے ان کے بیانات کو مختلف ذرائع سے ٹسٹ کیا ہے،  اور ان کا تاثر یہ ہے کہ ان بچوں نے جهوٹ نہیں بولا، بلکہ واقعة انہوں نے یہ مناظر دیکهے ہیں. 236 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اسی قسم کے بیانات اور انکے سائنٹفک تجزیے پر مشتمل ہے.
ایک اور صاحب پالسٹر جارچ گیلپPollster George Gallup  نے پورے امریکہ میں ایسے لوگوں کا سروے کیا جو اس قسم کے مشاہدات سے گذر چکے تهے، ان کے سروے کا چونکادینے والا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کی کل آبادی کے تقریبا پانچ فیصد افراد موت کے قریب پہنچ کر اس قسم کے مشاہدات سے گذر چکے ہیں. ڈاکٹر مودی نے بهی اپنی تحقیق مزید جاری رکهی، اور اپنی دوسری کتاب The Light Beyond میں انہوں نے لکها ہے کہ پہلے ڈیڑهـ سو افراد کے بعد انہوں نے مزید ایک ہزار افراد سے انٹرویو کیا، اور اس کے نتائج بهی کم وبیش وہی تهے، البتہ اس دوران بعض افراد نے کچهـ نئی باتیں بهی بتائیں، مثلا پہلے ڈیڑهـ  سو افراد میں سے کسی نے صراحة جنت یا دوزخ قسم کی کسی چیز کا ذکر نہیں کیا تها، لیکن اس نئی تحقیق کے دوران کئی افراد نے ایک روشنیوں کے خوبصورت شہر کا ذکر کیا، بعض نے بڑے خوبصورت باغات دیکهے، اور اپنے بیان میں انہیں جنت سے تعبیر کیا، بعض افراد نے صاف صاف دوزخ کے مناظر بهی بیان کۓ، ایک صاحب نے بتایا کہ میں نیچے چلتا گیا، نیچے اندهیرا تها، لوگ بری طرح چیخ چلا رہے تهے! وہاں آگ تهی، وه لوگ مجهـ سے پینے کے لۓ پانی مانگ رہے تهے، انٹرویو کرنے والے نے پوچها کہ کیا آپ کسی سرنگ کے ذریعے نیچے گۓ تهے؟ انہوں نے جواب دیا نہیں، وه سرنگ سے زیاده بڑی چیز تهی، میں تیرتا ہوا  نیچے جارہا تها، پوچها گیا کہ وہاں کتنے آدمی چیخ پکار کر رہے تهے؟ اور انکے جسم پر کپڑے تهے یا نہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ اتنے تهے کہ آپ انہیں شمار نہیں کرسکتے، میرے خیال میں ایک ملین ضرور ہونگے، اور ان کے جسم پر کپڑے نہیں تهے.
(The Light Beyond P.26, 27)
ان تمام مشاہدات کی حقیقت کیا ہے؟ بعض حضرات کا خیال ہے کہ کہ مغربی ملکوں میں پر اسراریت کا شوق ایک جنون (craze) کی حد تک بڑهتا جارہا ہے، اور یہ کتابیں اسی جنون کا شاخسانہ ہوسکتی ہیں، اگر چہ اس احتمال سے بالکلیہ صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، لیکن سنہ 1975 کے بعد سے جس طرح مختلف سنجیدہ حلقوں نے ان واقعات کا نوٹس لیا ہے، اور ان پر جس طرح ریسرچ کی گئی ہے، اس کے پیش نظر یہ احتمال خاصا بعید ہوتا جارہا ہے، ڈاکٹر مودی نے اس احتمال پر بهی خاصی تفصیل سے بحث کی ہے کہ جن لوگوں سے انہوں نے انٹرویو کیا وه بےبنیاد گپ لگانے کے شوقین تو نہیں تهے، لیکن بالاخر نتیجہ یہی نکلا ہے کہ اتنے سارے آدمیوں کا جو مختلف علاقوں اور مختلف طبقہ ہاۓ خیال سے تعلق رکهتے ہیں، ایک ہی قسم کی گپ لگانا انتہائی بعید از قیاس ہے.
بعض ڈاکٹروں نے یہ خیال بهی ظاہر کیا کہ بعض منشیات اور دواؤں کے استعمال سے بهی اس قسم کی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں، جن میں انسان اپنے آپ کو ماحول سے الگ محسوس کرتا ہے، اور بعض اوقات اس کا دماغ جهوٹے تصورات کو مرئی شکل دیتا ہے، ایسے میں اسے بعض پر فریب نظارے (Hallucinations) نظر آنے لگتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان افراد کو اسی قسم کی کسی کیفیت سے سابقہ پیش آیا ہو، لیکن ڈاکٹر مودی نے دونوں قسم کی کیفیات کا الگ الگ تجزیہ کرنے کے بعد یہی راۓ ظاہر کی ہے کہ جن لوگوں سے انہوں نے انٹرویو کیا بظاہر ان کے مشاہدات ان پر فریب نظاروں سے مختلف تهے، ڈاکٹر میلون مورس نے اس احتمال پر زیاده سائنٹفک انداز میں تحقیق کرنے کے بعد اپنا حتمی نتیجہ یہ بتایا ہے کہ یہ مشاہدات (Hallucinations) نہیں تهے.
انہوں نے اس احتمال پر بهی گفتگو کی ہے کہ ان لوگوں کے مذہبی تصورات ان کے ذہن پر اس طرح مسلط تہے کہ بےہوشی یا خواب کے عالم میں وہی تصورات ایک محسوس واقعے کی شکل میں ان کے سامنے آگۓ، ڈاکٹر مودی نے اس احتمال کو بهی بعید قرار دیا جس کی ایک وجہ یہ تہی کہ جن لوگوں سے انکی ملاقات ہوئی، ان میں سے بہت سے لوگ ایسے بهی تهے جو مذہب کے قائل نہ تهے، یا اس سے اتنے بےگانہ تهے کہ ان پر مذہبی تصورات کی کوئی ایسی چهاپ غالب نہیں آسکتی تهی.
پهر یہ مشاہدات کیا تهے؟ ان سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ اور اس بارے میں قرآن و سنت سے کیا معلوم ہوتا ہے؟ اس موضوع پر انشاءالله آئنده ہفتے کچهـ عرض کروں گا.

جاری ہے…

مفتی محمد تقی عثمانی حفظه الله


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں