غزہ میں اسرائیلی قذاقی اور پاکستان پر حملے کی امریکی منصوبہ بندی…کیا مسلم امہ کے بیدار ہونے کا اب بھی وقت نہیں آیا؟

غزہ میں اسرائیلی قذاقی اور پاکستان پر حملے کی امریکی منصوبہ بندی…کیا مسلم امہ کے بیدار ہونے کا اب بھی وقت نہیں آیا؟
ghaza-sofonاسرائیل نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کیلئے امداد لے جانیوالے فریڈیم فلو ٹیلا پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہوگئے ہیں تاہم امدادی قافلے نے اسرائیلی بحریہ کی طرف سے واپس لوٹ جانے کے حکم کو نظر انداز کردیا ۔

دوسری جانب اسرائیل کے اس اقدام کیخلاف امریکہ اور ترکی میں زبردست احتجاج کیا گیا ہے ترکی میں اسرائیلی سفیر کو طلب کیا گیا عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق غزہ کے شہریوں کیلئے آنیوالے امدادی بحری جہازوں کو روکنے کیلئے اسرائیلی جنگی جہازوں نے بحری ناکہ بندی کررکھی ہے۔ فلسطین کے رکن اسمبلی نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ امدادی جہازوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے‘ جہازوں میں سات سو امدادی کارکنوں کے علاوہ یورپی یونین کے ارکان اسمبلی بھی سوار ہیں۔ ایک پاکستانی نجی ٹی وی چینل کے اراکین بھی اس قافلے میں موجود ہیں۔
غزہ کے پندرہ لاکھ لوگ 2007ء سے انسانی امداد پر اسرائیلی پابندی کے بعد سے سخت مشکلات کا شکار ہیں اور وہاں پانی ، دوائوں اور تعمیراتی سامان کی سخت قلت ہے‘ ان مشکلات کے پیش نظر برطانیہ ، یونان ، الجیریا ، کویت، ملائیشیا اور آئرلینڈ کے چھ جہاز ترکی کی سربراہی میں دس ہزار ٹن امدادی سامان اور سینکڑوں امدادی کارکنوں کے ساتھ غزہ کے لوگوں کی مدد کو پہنچے ہیں مگر ان پر جہازوں پر موجود انسانی امداد کو غزہ کے شہریوں تک پہنچنے سے روکنے کیلئے اسرائیلی جنگی جہاز سمندر میں پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے علاقے کی ناکہ بندی کردی ہے۔ اسرائیل اور مصر غزہ تک امداد کو پہنچنے سے روکنے کیلئے زمینی سرحدیں پہلے ہی بند کرچکے ہیں اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اگر خبردار کرنے کے باوجود جہاز واپس نہ گئے تو اسرائیلی فورسز ان پرقبضہ کرلیں گی۔ ادھر اسرائیلی نیوی کے جہاز محصور فلسطینیوں کیلئے امداد لے جانیوالے فریڈم فلوٹیلا کی مانیٹرنگ کررہے ہیں ‘ امدادی قافلہ ابھی غزہ کی سمندری حدود میں داخل بھی نہیں ہو پایا تھا کہ علی الصبح چار بجے کے قریب اسرائیلی نیوی کے آٹھ جہازوں نے غزہ سے 65 کلو میٹر دور قافلے پر حملہ کردیا جس میں ہیلی کاپٹروں کا بھی استعمال کیا گیا جس میں کم از کم 20 افراد جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہوگئے ۔ جہاز پر موجود افراد کا دنیا بھر سے انٹرنیٹ رابطہ بھی منقطع کردیا گیا ہے ‘قافلے میں شامل کارکنوں اور میڈیا اہلکاروں کو حراست میں لے لیا ہے۔ایک عرب ٹی وی چینل کے مطابق فریڈیم فورٹیلا میں شامل ترکی کے بحری جہاز سے ٹیلی فون موصول ہوا ہے کہ اسرائیلی بحریہ نے بحری جہاز پر فائرنگ کی جس میں بحری جہاز کا کیپٹن زخمی ہوگیا علاقے میں فائرنگ کی آوازیں جاری ہیں۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسرائیل نے امریکہ کی شہ پر اور اسکی سرپرستی میں ہی اسرائیلی ریاست عربوں کے قلب میں قائم کرکے فلسطینی عوام کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے جس کا مقصد فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی کے آگے بند باندھ کر فلسطین کی آزاد ریاست کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے سے روکنا ہے۔ ابھی دو روز قبل ہی امریکی صدر اوبامہ نے دہشت گردی کیخلاف جنگ سے متعلق نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اسلام کے فلسفۂ جہاد کی اہمیت کا اعتراف کیا اور اعلان کیا کہ ہماری جنگ جہاد کیخلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کیخلاف ہے جبکہ اب امریکی شہ پر اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بے بس اور محصور شہریوں کی امداد کیلئے جانے والے قافلے پر دھاوا بولنا‘ درحقیقت ان امریکی عزائم کو بے نقاب کرنے کے مترادف ہے جو پوری مسلم امہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے اسکے دل میں موجود ہیں‘ جن کا اسرائیل اور بھارت کے ذریعے فلسطین اور کشمیر میں عملی مظاہرہ کرانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ امریکی مفادات کی جنگ درحقیقت اسلام کے فلسفۂ جہاد کیخلاف ہی جنگ ہے کیونکہ وہ جذبہ جہاد سے سرشار مسلمانوں کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے اور اس بنیاد پر جہادی تنظیمیں امریکہ اور اسکے فطری اتحادی بھارت کے ہدف پر ہیں اور وہ جہاد کو دہشت گردی قرار دے کر پوری مسلم امہ کو اپنے نشانے پر لانا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ نے اس خطہ میں اپنے مفادات کی جنگ شروع کرکے درحقیقت خود دہشت گردی کی بنیاد ڈالی ہے اور اس کو فروغ دیا ہے‘ ورنہ کوئی کلمہ گو مسلمان دہشت گردی کے ذریعے بے گناہ انسانوں کا خون بہانے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘ جبکہ اپنی آزادی کیلئے جہاد کرنے اور دشمن کا مقابلہ کرنے والے آزادی کے متوالوں کو دہشت گرد قرار دے کر حقائق کو چھپایا جا سکتا ہے‘ نہ آزادی کی کسی تحریک کو دبایا جا سکتا ہے‘ امریکہ اور بھارت کو اسی بنیاد پر جذبۂ جہاد سے سرشار مسلمانوں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں فلسطین اور کشمیر پر ان کا تسلط ختم نہ ہو جائے اور مسلم امہ کو متحد ہو کر طاغوتی طاقتوں کے مدمقابل آنے کا موقع نہ مل جائے‘ چنانچہ جس طرح اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینی عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں‘ جس کی تازہ مثال غزہ کیلئے جانے والے امدادی قافلے کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے کی صورت میں سامنے آئی ہے‘ اسی طرح ظالم بھارتی فوجوں کے ہاتھوں مظلوم و بے گناہ کشمیری عوام گزشتہ ساٹھ سال سے زائد عرصہ سے برباد ہو رہے ہیں اور بے بہا جانی و مالی قربانیاں دے رہے ہیں۔ کیا اس ننگی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے دنیا کو متحرک اور بیدار نہیں ہونا چاہئے جبکہ یہ سفاکی ہی ردعمل میں خودکش حملوں کی راہ دکھاتی ہے اس لئے جس نیت اور ارادے کے تحت امریکہ بھارت‘ اسرائیل باہم متحد ہو کر مسلم امہ کیخلاف صف آراء ہیں‘ کیا مسلم امہ کیلئے بھی ضروری نہیں ہو گیا کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر اسلام کے جذبہ جہاد کی بنیاد پر اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کے مقابلہ کیلئے تیار ہو جائیں اور انکی اسلام پر غالب آنے کی سازشوں کا اپنے اتحاد و یکجہتی سے توڑ کریں۔ امریکہ کو پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا بھی اسی لئے کھٹکتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اس سے مسلم امہ کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع ملے گا۔ اس لئے اسرائیلی فضائیہ کو ایک بار ہماری ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا جا چکا ہے جس میں اسے منہ کی کھانی پڑی تھی مگر ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی پر کنٹرول کرنے کے امریکی عزائم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں اب ہمیں براہ راست حملے کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے‘ وہ ہمیں تو ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کرتا ہے مگر اس نے نہ خود اور نہ ہی اسکے فطری اتحادی بھارت نے این پی ٹی پر دستخط کئے ہیں جبکہ اب اسرائیل نے بھی این پی ٹی پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ شہ اسے امریکی آشیرباد سے ہی حاصل ہوئی ہے‘ اگر امریکہ اپنی اور اپنے اتحادیوں کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے دفاع کے جواز پیش کرتا ہے اور پاکستان اور ایران کی ایٹمی ٹیکنالوجی پر پابندی عائد کرنے کے اقدامات کرتا ہے تو اس کی نیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد صرف مسلم امہ کو صف آراء ہونے سے روکنا ہے۔
اس صورتحال میں کیا اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اور اسلامی کانفرنس کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل کے ہاتھ روکنے کیلئے متحرک کردار ادا کرے اور اپنی روایتی غفلت کا لبادہ اتار دے۔ اسرائیلی بحریہ کی جانب سے غزہ کے شہریوں کو امداد سے محروم کرنے کی خاطر پورے امدادی قافلہ کی لوٹ مار اور قتل عام کرنا ایسا واقعہ ہے جس کی صرف مذمت ہی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے‘ یہی مناسب وقت ہے کہ خطہ میں ایک الگ اسلامی بلاک تشکیل دے کر طاغوتی طاقتوں کا راستہ روکا جائے‘ اس وقت اتفاق سے ترکی اور ایران بھی اس اتحاد کے خواہاں ہیں اور اسرائیل کے تازہ ترین حملے کا اصل شکار تو ترکی بنا ہے‘ البتہ پاکستان مشرف دور سے بھی زیادہ امریکی بکل میں جا چھپا ہے‘ کیا پاکستان پارلیمنٹ وطن عزیز کو اس سے نکال کر اس اسلامی بلاک کا خواب پورا نہیں کر سکتی جو صحیح معنوں میں شیطانی اتحاد ثلاثہ کا مقابلہ کر سکتا ہے‘ورنہ یہ ظالم قوتیں تو مسلم امہ کو نیست و نابود کرنے پر تلی بیٹھی ہیں۔
پہلے دہشت گردی کے محرکات کا سدباب کریں
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب میں چھپے دہشت گرد اب سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں‘ جہاں بھی دہشت گرد ہوئے‘ پنجاب حکومت کے ساتھ مل کر ان کیخلاف سخت کارروائی کی جائیگی۔ گزشتہ روز ماڈل ٹائون لاہور میں قادیانیوں کی عبادت گاہ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے 1764‘ تربیت یافتہ افراد میں سے 726 صرف جنوبی پنجاب میں ہیں اور دیگر کراچی‘ آزاد کشمیر‘ گلگت اور دوسرے علاقوں میں ہیں۔ انکے بقول تحریک طالبان پنجاب میں دہشت گردی کیلئے جنوبی پنجاب کے ان افراد کو استعمال کر رہی ہے‘ جو افغان جنگ میںحصہ لے چکے ہیں۔ یہ پنجابی دہشت گرد تحریک طالبان کا حصہ ہیں‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا۔ چاہے اس میں انکی اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ اسلام کا تو فلسفۂ حیات ہی قرآن شریف کی سورۃ المائدہ میں موجود خدائے بزرگ و برتر کے اس فرمان پر مبنی ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے‘ اس لئے کوئی مسلمان بھلا دہشت گردی کی وارداتوں میں انسانی قتل عام کی کیسے حمایت کر سکتا ہے؟ تاہم دہشت گردی کے سدباب کیلئے پہلے اسکے پس منظر کا جائزہ لینا اور اسکے محرکات کا سدباب کرنا ضروری ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اس خطہ میں دہشت گردی کی آگ خود امریکہ کی لگائی ہوئی ہے اور 2001ء میں بش انتظامیہ کے پہلے دور میں نائن الیون کے واقعہ کی آڑ میں القاعدہ کو فوکس کرکے جس وحشیانہ انداز میں افغانستان اور عراق میں امریکی اتحادی افواج کے ذریعے چڑھائی کی گئی‘ زہریلے بموں کے ذریعہ کارپٹ بمباری کرکے انسانوں کا قتل عام کیا گیا‘ وہاں کی مقبول عوامی حکومتیں ختم کی گئیں اور اپنی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کی گئیں اور پھر افغان جنگ کا طولانی سلسلہ شروع کرکے پاکستان کے اندر بھی ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ہماری سرزمین پر اب تک ہونیوالی دہشت گردی اور خودکش حملے اسی کا ردعمل ہے۔ اب اگر وزیر داخلہ رحمان ملک کسی غلط فہمی یا غلط اطلاع کی بنیاد پر مبینہ دہشت گردوں کی جنوبی پنجاب‘ آزاد کشمیر‘ گلگت اور کراچی کے مختلف علاقوں میں موجودگی کا دعویٰ کرکے ان کیخلاف اپریشن کا سوچ رہے ہیں تو درحقیقت وہ متذکرہ علاقوں میں امریکہ کو ڈرون حملوں کی دعوت دے رہے ہیں جس کے ردعمل میں پہلے ہی دہشت گردی کا شکار اس وطن عزیز میں جو انسانی خون بہے گا‘ اسکی ذمہ داری بھی رحمان ملک اور انہی کی سوچ کے حامل دیگر حکومتی اکابرین پر عائد ہو گی۔اس صورتحال میں بجائے اس کے کہ ملک کو مزید تباہی کی جانب دھکیلا جائے‘ ضروری ہے کہ دہشت گردی کے اسباب و محرکات کا خاتمہ کیا جائے جو خود کو امریکی مفادات کی جنگ سے باہر نکالنے سے ہی ممکن ہے۔ جب تک ہم امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بنے رہیں گے‘ یہاں دہشت گردی رک سکے گی‘ نہ ہمیں امن و سکول حاصل ہو سکے گا۔

فیس بک مشروط طور پر بحال
گستاخانہ خاکوں کیخلاف دینی و سیاسی اور سماجی تنظیموں کے مظاہروں ریلیوں اور کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہے۔ لاکھوں فرزندان توحید تحفظ ناموس رسالت صلى الله عليه وسلم کیلئے کٹ مرنے کا عزم لئے دیوانہ وار پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں اور گستاخ ملکوں کے پرچم نذر آتش کر کے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں‘ بدبخت اور سیا ہ دلوں والے کیا جانیںکہ مسلمان کے دل و دماغ میں حضرت آمنہ صلى الله عليه وسلم کے لعل کا کیا مرتبہ مقام ہے۔ آقائے نامدار صلى الله عليه وسلم کی محبت و عقیدت کو وہ اپنی جان مال اور اولاد سے کہیں زیادہ قیمتی اثاثہ تصور کرتے ہیں۔ اسلام دنیا میں انتہائی سرعت سے پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے اور محمد صلى الله عليه وسلم عربی کی محبت و عقیدت کا رنگ گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اسی بنا پر یہ مجہول نسب والے لوگ مسلم نوجوانوں کے دل و دماغ میں طوفان برپا کرنیوالی انتہائی قبیع حرکات کرتے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ اس حوالے سے قابل ستائش ہے کہ اس نے اس مذموم فعل پر پابندی عائد کی اور دل ِمسلم سے اٹھنے والی صدا پر لبیک کہا‘ فیس بک ایک معلومات کاذخیرہ بھی ہے‘ ہر صاحبِ علم اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے لیکن ہر ایک نے اس فیصلے کو دل و جان سے قبول کیا۔ ہائیکورٹ نے گزشتہ روز فیس بک حکام کی یقین دہانی پر کہ آئندہ ایسی مذموم حرکت نہیں کی جائیگی۔ فیس بک پر سے عائد پابندی اٹھا لی ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آنیوالی انٹرنیٹ ٹریفک پر ایک فلٹر لگا دیا جائیگا جس کے بعد ایسے خاکوں تک کسی کی رسائی نہیں ہو گی اور انٹرنیٹ کی دیگر سروس پر اس کا اثر نہیں پڑیگا۔ یہ بھی ایک اچھا فیصلہ ہے تاکہ عوام فیس بک کی سہولت سے فائدہ بھی اٹھا سکیں لیکن حکومت پاکستان اور او آئی سی کو توہین رسالت کیلئے عالمی سطح پر قانون بنوانے کیلئے ذمہ دارانہ کوشش کرنی چاہئیں۔ او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلا کر جرات مندانہ حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ کوئی بدبخت دوبارہایسی گھٹیا حرکت کر ہی نہ سکے۔

(بہ شکریہ نواۓوقت)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں