رپورٹ: مقابلہ تقریر و مقالہ نویسی کا اختتام

رپورٹ: مقابلہ تقریر و مقالہ نویسی کا اختتام
mosabaqat01رپورٹ (سنی آن لائن) بارہویں تقریب تقریر ومقالہ نویسی، شعر ومشاعرہ اور نظم خوانی (فارسی، عربی، بلوچی، اور انگریزی زبانوں میں) بمقام دارالعلوم زاهدان منگل 25 مئی سے شروع ہوکر جمعرات 27 مئی کی شام تک جاری رہی۔

یہ مقابلہ صوبہ سیستان وبلوچستان کے دینی مدارس کے طلبہ کے درمیان منعقد ہوا۔ اس تقریب کے علاوہ زاہدان شہر کی سطح پر متعدد مدرسۃ البنات سے تعلق رکھنی والی طالبات نے بھی تقریب مقابلہ منعقد کرایا۔ تقریر ومقالہ نویسی میں مقابلے فارسی، عربی اور بلوچی زبانوں میں منعقد ہوئے۔
تقریب کے افتتاحی پروگرام میں سرپرست دارالافتاء دارالعلوم زاہدان، مولانا مفتی محمد قاسم قاسمی نے خطاب کیا۔ مدیر “ندائے اسلام” اور استاذ حدیث دارالعلوم کے فکر انگیز خطاب کا خلاصہ ملاحظہ ہو:
کس قدر افسوسناک بات ہے کہ آج کل دنیا میں کوئی ہماری نہیں سنتی۔ مثلاً چند دن پہلے انٹرنیٹ پر دنیا کا موجودہ اور مستقبل کا نقشہ شائع ہواتھا۔ میں نے سوچا ہم مسلمان نقشوں اور سرحدوں کی تعیین میں کس قدر موثر ہیں؟ بہت سارے ممالک بظاہر سامراج کے قبضہ سے آزاد ہوئے مگر فکری ونظریاتی طور پر ابھی تک مغرب کے فلسفے ونظریات کے غلام ہیں۔
در حقیقت عالم اسلام ذہنی غلامی کا شکار ہوچکاہے اس لیے مسلمانوں کو غلامانہ ذہنیت سے نجات دلانے کے لیے سوچنے اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ کام علمائے کرام اور داعیان دین کا ہے۔ فتنہ تاتار ومغل کامقابلہ علمائے کرام، عرفاء اور داعیان دین ہی نے کیا۔ چنانچہ مغل اور تاتاریوں کے حملے کے بعد دنیا کے قانون کے برعکس فاتح اور حملہ آور مفتوح سے متاثر ہوا اور علمائے اسلام حملہ آور مغلوں پر غالب آئے۔ علماء کی کامیابی کا راز اخلاص و احتساب میں ہے۔
محترم طلبہ! یہ ساری کاوشیں، درس وتدریس، تقاریر وتحریر کے مقابلے وغیرہ سب اس لیے ہیں کہ ہم علم وحکمت سیکھنے کے بعد معاشرے کے فرد فرد تک دین کا پیغام پہنچائیں۔
مقابلے میں حصہ لینے والے طلبہ کو مخاطب قرار دیتے ہوئے آخر میں مفتی صاحب نے مجدد الف ثانی امام احمد سرہندی رحمہ اللہ سے نقل قول کیا: “حقیقی انقلاب صرف دھواں دار اور پر جوش تقریروں اور کثرت معلومات سے حاصل نہیں ہوتاہے مگر یہ کہ تقریر کے ساتھ چار چیزیں ہوں: 1۔ اصلاح شدہ نفس؛ 2۔ اخلاص سے مالامال دل؛ 3۔ مسلمانوں کی حالت زار کا احساس ہونا؛ 4۔ اسلام کی اجنبیت ومظلومیت کا احساس ودرد۔
مفتی محمد قاسم قاسمی نے مزید کہا مجدد الف ثانی نے ان چار خصوصیات کے حصول کا نسخہ بھی بیان فرمایا ہے: پہلا نسخہ: کثرت ذکر وعبادت « فاذا فرغت فانصب»؛ دوسرا نسخہ: صلحاء کی صحبت ومجالست اور تیسرا نسخہ سلف کے اچھے طریقوں کی اتباع اور ان کے نقش قدم پر چلنا۔

اختتامی نشست میں حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کا خطاب
صوبے کے بین المدارس تقریب مقابلے کی آخری نشست شب جمعہ کو مغرب کی نماز کے بعد تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوئی۔ تلاوت کے بعد ،،محبان رسول،، نامی نظم گروپ نے بلوچی زبان میں نعت رسول پیش کی۔ نعت نبوی کے بعد حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے خطاب کا آغاز کیا۔
مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم نے خطبہ مسنونہ اور قرآنی آیت «فلولا نفر من کل فرقۃ۔۔۔ » کی تلاوت کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے: جس زمانے میں ہم رہتے ہیں اس کے اپنے تقاضے اور خصوصیات ہیں، دعوت وتعلیم کا کام بھی زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
دنیا نے ذرائع کے اعتبار سے بہت ترقی کی ہے، انٹرنیٹ کے ذریعہ لمحوں میں اپنی بات دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچائی جاسکتی ہے۔ جس طرح عیسائیت ویہودیت سمیت دیگر مذاہب کی تبلیغ اس ذریعے سے ہوتی ہے اس طرح اگر ہم مسلمان اپنی بات دوسروں کو پہنچانا چاہتے ہیں اور اس محاذ پر اسلام کا دفاع کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس نوزائیدہ ذریعہ ابلاغ کا استعمال کرنا ہوگا۔ انٹرنیٹ کے بہتر استعمال کے لیے دنیا کی اہم زبانوں پر مہارت و دسترسی حاصل کرنی پڑے گی۔ اسلام اور دین کے حوالے سے صحیح معلومات رکھنے والا شخص بآسانی اسلام کا تعارف پیش کرکے شبہات کا جواب دے سکتا ہے۔ چند لمحوں میں اس کی بات پوری دنیا کے سامنے آتی ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا ایک کامیاب اور مفید تقریر وہ ہے جو تعصب اور جذباتیت سے پاک ہو اور استدلال، منطق اور حقیقت پسندی کے زیور سے آراستہ ہو۔ جو شخص اچھا اور کامیاب مقرر بننا چاہتا ہے تو اْسے متعلقہ زبان پر مکمل دسترسی حاصل کرنے کے علاوہ، دیگر نظریات وخیالات کو مدنظر رکھ کر اپنا نقطہ نظر مستدل انداز میں پیش کرنا چاہیے۔
شعر وشاعری کی اہمیت واضح کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا شیخ سعدی، مولوی، اقبال لاہوری و۔۔۔ وہ مسلمان شعراء ہیں جنہوں نے شاعری کے ذریعے اسلام کی خدمت کی۔
اس لیے کہ ان عظیم شاعروں نے شعر گوئی کا صحیح راستہ اختیار کیا تھا۔ لیکن قرآن کریم نے ان شاعروں کی مذمت کی ہے جو نامناسب، عشقی اور شہوانی اشعار سے اپنی خباثت ظاہر کرتے ہیں۔
دینی مدارس کی طالبات کی بڑی تعداد حضرت شیخ الاسلام کی تقریر سن رہی تھیں، طالبات کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا پوری تاریخ میں بے شمار مائیں معاشرے کو دیندار اور لائق افراد مہیا کر گئیں۔ خواتین ہمیشہ مردوں کے حامی وپشتیبان رہی ہیں۔ آج بھی بعض ملکوں میں خواتین اہم مناصب پر فائز ہیں، اس لیے مسلمان خواتین کو چاہیے زندگی کے مختلف میدانوں اور شعبوں میں فعال کردار اداء کرکے اسلام اور انسانی معاشرے کی خدمت کا عزم کریں۔
مولانا عبدالحمید حفظہ اللہ نے مزید کہا یہ ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے، اگر ہم زمانے کے تقاضوں کو نظر انداز کریں تو کوئی ہماری بات پر کان نہیں دھرے گا اور ہم دنیا سے پیچھے رہ جائیں گے۔
انہوں نے فارسی وعربی زبانوں کے علاوہ انگریزی اور روسی زبانوں پر دسترسی حاصل کرنے کی تاکید کرتے ہوئے حاضرین کو یہ زبانیں سیکھنے کی ترغیب دی۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا وہ زمانہ گزر گیا جب دنیا کمیونیزم اور سرمایہ دارانہ نظام کے دو بلاکوں میں تقسیم تھی، آج پوری دنیا اس بات پر متحد ہوچکی ہے کہ اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا کر مسلمانوں کو منحرف کیا جائے۔ عراق وافغانستان پر چڑھائی اور اسلامی ملکوں میں دخل اندازی کا مقصد بھی یہی ہے۔ ہمارے دشمنوں کی کوشش یہ ہے کہ اسلام کا اصل چہرہ مسخ کرکے لوگوں کو اسلام کے بارے میں بد ظن کیا جائے۔ جہاد اور اسلامی تعلیمات کا معنی ومفہوم تبدیل کیا جائے چنانچہ بعض شیعہ اور سنی دانشور اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب سارے اسلامی ممالک متحد تھے اور ایک فرد سرزمین کی سربراہی کرتا تھا لیکن سامراجیوں نے اختلاف وخانہ جنگی کے بیج بو کر مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا۔
سرپرست دارالعلوم زاہدان نے علماء وطلباء کو نصیحت کی کہ عالم اسلام کی بحرانی صورتحال سے خود کو لا تعلق نہ رکھیں، تعلیم وتبلیغ اور غیر مسلموں کی جانب سے پھیلائے جانے والے شبہات کے ازالے کے حوالے سے فعال کردار ادا کریں۔
بات آگے بڑھا کر مولانا عبدالحمید نے دینی مدارس کے بعض نصابی کتابوں پر تنقید کی جو علم کلام کے بارے میں ہیں۔ انہوں نے کہا ہمیں زمانہ ماضی کے تقاضوں کا مقلد نہیں ہونا چاہیے۔ جو قوانین صدیوں پرانے اور اْس زمانے کے مطابق ہیں ہمارے لیے غیر مفید ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے فقہی مسائل سے بالاتر ہوکر اب اسلام پر ہونے والے حملوں اور پھیلائے گئے شبہات کا ازالہ کرنا چاہیے۔
آخر میں حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے طلبہ وطالبات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سب کو ہر قسم کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلیے تیار رہنا چاہیے۔ دینی مدارس کی چھٹیاں قریب آچکی ہیں اس لیے طلبہ کرام مختلف فنون وعلوم میں مہارت حاصل کرنے اور معاشرے کے ہر طبقہ تک دین کا پیغام پہنچانے کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کریں۔ آج کل جماعتیں او مختلف تنظیمیں منصوبہ بندی اور جدید ذرائع و آلات کے استعمال سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ہمیں بھی جدید آلات اگر چہ محدود ہوں سے لیس ہوکر کام کرنا چاہیے۔ کم ذرائع سے زیادہ سے زیادہ کام لیکر مقصد کی طرف بڑھنا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید دامت برکاتہم کے حکیمانہ و پدرانہ خطاب کے بعد  مختلف زبانوں میں تقریر، شعر و مقالہ نویسی میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو انعامات دیے گئے۔
مقابلوں کی یہ تقریب “شورائے مدارس اہل سنت سیستان وبلوچستان” کی جانب سے منعقد ہوئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ “انتشارات صدیقی” کی طرف سے منعقد ہونے والا کتب میلہ شرکائے تقریب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں