تو پھر یہ جنگ کس کے خلاف ہے؟

تو پھر یہ جنگ کس کے خلاف ہے؟
american-army-propoganda”اسلام پسندوں اور جہادیوں کو دشمن نہیں سمجھتے۔ جہاد معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام یا کسی اور مذہب کے خلاف ہماری جنگ نہیں ہے۔ البتہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بہرصورت جاری رہے گی۔“ یہ الفاظ 52 صفحات پر مشتمل امریکا کی نئی سیکیورٹی پالیسی سے لیے گئے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت اوباما انتظامیہ سابق صدر بش کی بنائی ہوئی ”دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ“ کی اصطلاح اور پیشگی حملے کی حکمت عملی چھوڑدے گی۔ نئی پالیسی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد، افغانستان کی تعمیرنو، افغانستان وعراق سے امریکی واتحادی افواج کے انخلا پر زور دیا گیا ہے جبکہ ایران، شمالی کوریا اور امریکا کے خلاف نفرت سے سختی سے نمٹنا بھی اس پالیسی کے بنیادی نکات میں شامل ہے۔

سب سے اہم سوال یہ ہے آج جن لوگوں کو امریکا ”دہشت گرد“ قرار دے رہا ہے، دو عشرے قبل یہی لوگ ”مجاہدین“ تھے۔ کل کے انہی مجاہدین کو روس کے خلاف لڑنے کے لیے امریکا سپورٹ کرتا رہا۔ اگر کل روس نے افغانستان میں فوج اُتاری تھی تو یہی فوج آج امریکا نے بھی اُتاری ہوئی ہے۔ افغانستان میں روسی فوجوں کی موجودگی کے خلاف مسلح جنگ مغرب کے نزدیک جہاد تھی مگر عراق، افغانستان اور خلیج عرب میں امریکی فوجوں کی موجودگی کے خلاف ناراضگی کا اظہار دہشت گردی ہے۔ مشرقی تیمور کی مسیحی اکثریت کو حق خودارادیت کے ذریعہ آزادی دلوانے میں اقوام متحدہ کا کردار ایک متحرک اور فعال ادارے کا کردار ثابت ہوا مگر مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریت کا حق خود ارادیت کی قرار دادیں اقوامِ متحدہ کی فائلوں میں نصف صدی سے سڑرہی ہیں۔ سوڈان میں ان قوتوں کو دارفر کا مسئلہ اُجاگر کرنے میں کوئی باک نہیں لیکن ہندوستانی جارحیت ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ 62 سالوں میں بھارتی فوج کے ہاتھوں 92 ہزار کشمیری شہادت پاچکے۔ کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہوچکی۔ گرفتاریاں، تشدد، فائرنگ، کریک ڈاؤن اور ہلاکتیں معمول بن چکی ہیں جس کے ردعمل میں آزادی کے حصول کے لیے جب کشمیریوں نے مسلح جدوجہد شروع کی تو اسے دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔ اگر امریکا اور برطانیہ کے اہم لوگ اور شہزادے عراق اور افغانستان کے محاذوں پر مذہبی فریضہ سمجھ کر جنگ میں حصہ لیں تو مستحسن اور لائق تعریف لیکن اگر کوئی مسلمان شہزادہ اس میں شریک ہو تو اسے عالمی امن کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے اور اسے شدت پسند اور دہشت گرد جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ فرق کیوں؟ جنگ تو جنگ ہے اس میں شریک اسامہ دہشت گرد ہے تو افغانستان میں جارح افواج کے ہمراہ آنے والے ہیری کو بھی دہشت گرد سمجھا جائے۔ اگر یہ جنگ صلیبی اور مذہبی ہے تو پھر اس میں حصہ لینے والے خواہ کوئی بھی ہوں ان پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے۔ اب سوال یہ ہے بھارت کو کشمیریوں پر ظلم وستم سے کون روکے؟ اسرائیلی جارحیت کو عالمی عدالت انصاف میں کون چیلنج کرے؟ عراق وافغانستان میں امریکی جارحیت کو کون روکے؟ بوسنیا اور کوسوو میں سربوں کے مظالم کے آگے کون سداسکندری بنے؟
اصل بات یہ ہے دہشت گرد کسے کہا جائے؟ مذہبی انتہا پسندی کا اطلاق کن پر ہو؟ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟ دہشت گردی کی تعریف کون متعین کرے؟ یہ سب وہ پہلو ہیں جن پر سنجیدہ غور و فکر کرنے اور مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت پہلے بھی رہی ہے لیکن اب سب سے زیادہ ہے۔ ویسے اقوام متحدہ میں دہشت گردی کی تعریف متعین کرنے پر بحث ہوتی رہی ہے جو اب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی اور نہ ہی دوغلی پالیسی رکھنے کی صورت میں کبھی ہوسکتی ہے۔ در حقیقت حق خودارادیت کی جدوجہد اور مبینہ دہشت گردی کی تعریف کے متعین کرنے اور اس کے لیے بنیادی اصول بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ سامراجی اور جارحیت پسند طاقتیں ہیں جنہوں نے چھوٹے ممالک اور مظلوم قوموں پر جبراً ناجائز قبضہ جمارکھا ہے۔ اس سے چھٹکارے کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں تحریکیں چل رہی ہیں۔ آزادی کی اس جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں اور حریت پسندوں کو دہشت گرد باور کرایا جاتا ہے جبکہ کئی ممالک آزادی اور حق خودارادیت کی جدوجہد کو جائز قرار دیتے ہوئے ان کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر حق خود ارادیت کی جدوجہد اور دہشت گردی میں فرق تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ استعماری طاقتوں کو مقبوضہ علاقے واپس کرنا ہوں گے اس لیے وہ اس بحث کو نمٹانے پر کبھی سنجیدگی سے تیار نہیں ہوتیں۔ عالمی سامراجی طاقتوں نے طویل عرصے سے مسلم علاقوں پر ناجائز قبضہ جمایا ہوا ہے جس کا مقصد ان علاقوں کے وسائل پر مستقل قبضہ جمائے رکھنا اور عوام کا استحصال کرنا ہے۔ سابق سوویت یونین کے دور میں وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں پر دھاوا بولا گیا۔ ان کے سیاسی واجتماعی نظام کو پامال کرکے اشتراکیت کو نافذ کیا گیا۔ مسلم عوام کو دینِ اسلام سے برگشتہ کرنے اور اسلامی تہذیب وثقافت کے تمام آثار مٹانے کی کوشش کی گئی۔ افغان جہاد کے بعد یہ ریاستیں آزاد ہوگئیں مگر روس نے چیچنیا کو آزادی دینے سے انکار کردیا جس کے ردعمل میں چیچن عوام نے آزادی کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد شروع کردی جس کے بعد چیچنیا پر روسی ظلم وستم میں اضافہ ہوگیا۔ عالمی برادری چیچن عوام کی آزادی کی جدوجہد کو جائز تسلیم کرتی ہے لیکن روس اسے دہشت گردی قرار دے کر ان کے خلاف ریاستی دہشت گردی جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد مغربی طاقتوں کی کھلم کھلا اعانت کے ساتھ یہودیوں نے فلسطین پر قبضہ کرکے اسرائیلی ریاست کا اعلان کردیا۔ یہودیوں کا فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ تاریخی، سیاسی، اخلاقی کسی بھی صورت جائز نہ تھا لیکن عالمی طاقتوں کے زیر سایہ اسرائیلی ریاست دن بدن مضبوط ہی ہوتی جارہی ہے جبکہ لاکھوں فلسطینی مہاجرین مختلف ممالک میں کیمپوں میں بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے سامراجی طاقتیں مسلم علاقوں پر ناجائز قبضہ کرتے ہیں، وہاں کے امن وامان کو تباہ کرکے ہر قسم کے ظلم کو روا رکھتے ہیں اور آزادی کے حصول کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو ”دہشت گرد“ قرار دیتے ہیں۔ بعد ازاں ”دہشت گردی“ کو دینِ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ ایسے میں دنیا کا امن تباہ نہ ہو تو پھر کیا ہو؟
نئی پالیسی میں دوسری بات یہ کہی گئی ہے بش کی جاری کردہ ”دہشت گردی“ اور ”اسلامی انتہا پسندی“ جیسی اصطلاحات ختم کردی جائیں گی۔ الفاظ کے گورکھ دھندے سے کچھ نہیں بنتا۔ اصل کام عملی اقدامات ہیں۔ اگر امریکا واقعتا مخلص ہے اور مسٹر اوباما دنیا کو بدلنے اور عالم اسلام کے ساتھ بہتر تعلقات میں سنجیدہ ہیں تو صرف چند کام کرکے وہ اس دنیا کو امن کا گہوارہ بن سکتے ہیں۔ اوباما عالم اسلام اور دیگر پسماندہ ممالک اور اقوام کے ساتھ برابری کا سلوک کریں۔ وہ مظلوم اقوام کے خلاف ناانصافی پر مبنی پالیسیاں فی الفور بند کریں۔ مسلمہ انسانی حقوق اور قوانین کی پاسداری کریں۔ عراق، افغانستان، کشمیر، چیچنیا اور فلسطین کے تنازعات ختم کریں تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ گوانتاناموبے، ابوغریب اور بگرام جیل سمیت دنیا بھر میں قائم عقوبت خانے بند کریں۔ جس طرح چند لاکھ یہودیوں کے تحفظ کے لیے ”ہولوکاسٹ“ پر قانون موجود ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کوئی بول نہیں سکتا، اسی طرح ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری سے بچنے کے لیے ان کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کا بھی قانون بنایا جائے۔ عالم اسلام میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کی سرپرستی ختم کریں۔ ایران پر پابندیاں لگانے او رشب خون مارنے سے باز رہیں۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے معاملے میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا 1948ء سے پہلے ایک ہی ملک تھا۔ استعماری طاقتوں نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر مداخلت کی۔ شمالی میں روس نے اور جنوب میں امریکا نے اپنی فوجیں داخل کردیں اور پھر علیحدگی کے لیے خون ریز جنگ ہوئی۔ 1950ء سے 1953ء تک تین سالوں میں 41 لاکھ کوریائی افراد مارے گئے اور ناقابلِ تلافی مالی نقصان بھی اُٹھانا پڑا تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد شمالی کوریا پر امریکا کی کڑی نظر رہی۔ پابندیاں اور حملے کی دھمکیاں دیتا رہا۔ آج 28 مئی 2010ء کو ایک دفعہ پھر جنگ کے آثار پیدا ہوگئے ہیں، یہ سب کچھ امریکی مداخلت کی بنا پر ہوا ہے۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔ دنیا بھر کی مظلوم قوموں اور پسماندہ ممالک میں غربت کے خاتمے کے لیے فنڈز جاری کریں۔ غربت، جہالت، بے روزگاری، بیماری، ناخواندگی اور پسماندگی کا شکار قوموں اور ملکوں کے لیے اپنی توانائیاں صرف کریں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ”دہشت گردی کے خلاف“ جنگ صرف مسلمان ممالک پر ہی کیوں مسلط ہے؟

انور غازی
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں