ہم صحابہ کرام سے کیوں محبت کرتے ہیں اور ان کی توہین کو جرم عظیم سمجھتے ہیں؟

ہم صحابہ کرام سے کیوں محبت کرتے ہیں اور ان کی توہین کو جرم عظیم سمجھتے ہیں؟
love-sahabahیہ بات یقینی ہے کہ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اہل سنت والجماعت کے نزدیک اصول ایمان میں سے ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بنی نوع انسان کے برگزیدہ ومنتخب افراد میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے پیارے رسول صلى الله عليه وسلم کی مصاحبت ونصرت اور دین کی دعوت واشاعت کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين امت کا وہ طبقہ ہے جس نے حفاظت دین اور اگلی نسلوں تک اس کی تبلیغ کی اہم اور سنگین ذمہ داری کو اچھی طرح پوری کرچکاہے۔ اگر یہ منتخب گروہ نہ ہوتا تو اسلامی شریعت بھی یہودیت ومسیحیت کی طرح تحریف کا شکار ہوجاتی۔ اب اگر کوئی شخص صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين کی صلاحیت وراستگوئی اور امانتداری کے حوالے سے شک وشبہ کا اظہار کرتاہے تو در اصل وہ قرآن وسنت کی حقانیت پر طعن کرتا ہے اور ان مآخذ ومنابع کو مشکوک بناتاہے جو صحابہ کرام کے ذریعے ہم تک پہنچے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين کی فضیلت میں موجود متعدد آیات واحادیث ان کی محبت کو ہم پر واجب بناتی ہیں، نیز جو افراد صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ان سے دشمنی کرنے کا سبق بھی ہمیں انہی قرآنی آیات واحادیث نبوی سے ملتاہے۔

ہمیں صحابہ کرام سے بے پناہ محبت ہے چونکہ:
1۔ اللہ تعالی ان سے راضی ہے، چنانچہ فرماتاہے: {لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا} (الفتح/ 18). (بیشک اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا جب وہ (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، سو جو (جذبۂ صِدق و وفا) ان کے دلوں میں تھا اﷲ نے معلوم کر لیا تو اﷲ نے ان (کے دلوں) پر خاص تسکین نازل فرمائی اور انہیں ایک بہت ہی قریب فتحِ (خیبر) کا انعام عطا کیا).

2۔ اس لیے کہ اللہ تعالی نے انہیں ایمان کی صفت سے متصف کرکے یاد کیا ہے، ارشاد الہی ہے: {وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ} (الانفال/ 62). (اور اگر وہ چاہیں کہ آپ کو دھوکہ دیں تو بیشک آپ کے لئے اللہ کافی ہے، وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ذریعے اور اہلِ ایمان کے ذریعے طاقت بخشی).

3۔ ہمیں صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين سے محبت ہے چونکہ اللہ تعالی نے ان کی تصدیق کرکے انہیں کامیاب قرار دیا ہے اور انہیں جنت کا وعدہ بھی دیا ہے، اس بارے میں قرآن کہتا ہے: {لَـكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَهُ جَاهَدُواْ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ وَأُوْلَـئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ* أَعَدَّ اللّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ} (التوبہ/89-88). (لیکن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور انہی لوگوں کے لئے سب بھلائیاں ہیں اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں* اللہ نے ان کے لئے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے).

4۔ صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ رب العالمین نے انہیں یوں مخاطب کیا ہے: {كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ} (آل عمران/110)؛ (تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں). ابن عبداللہ رضي الله عنه کے مطابق مقصد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ ہجرت کی۔

5۔ حب صحابہ رضي الله تعالى عنهم أجمعين ہمارے ایمان کا حصہ ہے چونکہ اللہ تعالی بھی صحابہ کرام سے محبت کرتا ہے، چنانچہ فرماتاہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ} (المائدہ؛ 54)؛ (اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (انقلابی کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے). حسن بصری (رح) فرماتے ہیں: اللہ کی قسم یہ آیت “حروراء” کے لوگوں کے بارے میں نازل نہیں ہوئی بلکہ حضرت ابوبکر وعمر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

6۔ صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں چونکہ اللہ تعالی نے انہیں سچے مومن قرار دیا ہے، ارشاد خداوندی ہے: {وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَـئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ} (الانفال/ 74)؛ (اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (راہِ خدا میں گھر بار اور وطن قربان کر دینے والوں کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد کی، وہی لوگ حقیقت میں سچے مسلمان ہیں، ان ہی کے لئے بخشش اور عزت کی روزی ہے).

7۔ صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين ہمارے محبوب ہیں چونکہ نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے محبت کرنے کو ایمان کی علامت اور بغض صحابہ کو نفاق کی علامت قرار دیا ہے۔
عَن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: «آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ»؛ (بخاری شریف/ 33). ترجمہ: حضرت ابوھریرۃ رضي الله عنه سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: “منافق کی تین علامات ہیں: جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ خلافی کرتا ہے، امانت میں خیانت کرتا ہے۔”

8۔ انصار سے محبت مومن کی علامت اور ان سے نفرت منافق کی نشانی ہے۔

9۔ ہمیں صحابہ کرام سے پیار ہے چونکہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کی بدزبانی سے منع کیا ہے، ارشاد نبوی ہے: {اذا ذکر اصحابی فامسکوا}۔ (الطبرانی) جب بھی میرے صحابہ کے بارے میں بات ہو رہی ہو تو ان کی طعن وتشنیع مت کرو۔

10۔ صحابہ کرام سے ہمیں محبت ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امت مسلمہ کے امن وقرار کا سبب قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: {لنجوم أمنة للسماء، فإذا ذهبت النجوم أتى السماء ما توعد، وأنا أمنة لأصحابي فإذا ذهبتُ أتى أصحابي ما يوعدون، وأصحابي أمنة لأمتي، فإذا ذهب أصحابي أتى أمتي ما يوعدون}؛ (مسلم)۔ ترجمہ: ستارے آسمان کے لئے امان ہیں جب ستاروں کا نکلنا بند ہو جائے گا تو پھر آسمان پر وہی آجائے گا جس کا وعدہ کیا گیا میں اپنے صحابہ کے لئے امان ہوں اور میرے صحابہ میری امت کے لئے امان ہیں پھر جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ میری امت کے لئے امان ہیں تو جب صحابہ کرام چلے جائیں گے تو ان پر وہ فتنے آن پڑیں گے کہ جن سے ڈرایا جاتا ہے۔

11۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس امت کے بہترین افراد قرار دیا ہے اسی لیے ہمیں ان سے محبت ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: {خير أمتي القرن الذي بعثت فيه، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم} (مسلم)۔ ترجمہ: میری امت کے بہترین اشخاص وہ ہیں جن کے درمیان میری بعثت ہوئی (صحابہ کرام)، پھر (وہ نسل) جو ان کے بعد آئے (تابعین)، پھر (سب سے بہترین افراد وہ ہیں) جو ان کے بعد آئیں (تبع تابعین)۔

12۔ ہم صحابہ سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ ہمارے پیارے نبی علیہ السلام نے ہمیں صحابہ کو بُرا بھلا کہنے سے منع کیا ہے، فرمان نبوی ہے: {لا تسبوا أصحابي ، فوالذي نفسي بيده لو أنَّ أحدكم أنفق مثل أحد ذهباً ما بلغ مُدَّ أحدهم ولا نصيفه}۔ (مسلم)؛ ترجمہ: میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو، اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرڈالے تو ان کے ایک مد( مٹھی) غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر.

13۔ صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين سے محبت کرتے ہیں چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے ہر اس شخص پر جو صحابہ رضي الله تعالى عنهم أجمعين کو گالی دیتا ہے، فرماتے ہیں: {لعن اللہ من سبّ اصحابی}۔ (الطبرانی)؛ اللہ تعالی کی لعنت ہو اس شخص پر جو میرے صحابہ کو بُرا بھلا کہے۔

14۔ ہمیں صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين سے محبت ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ان کے ذریعے دین پھیلے گا اور اسلام کی نصرت ہوگی۔ امر واقع بھی یہی ہے۔ ارشاد نبوی ہے: {يأتي على الناس زمان، يغزو فئام من الناس، فيقال: فيكم من صاحب رسول الله صلی الله علیه وسلم ؟ فيقولون: نعم، فيفتح لهم، ثم يأتي على الناس زمان، فيغزو فئام من الناس، فيقال لهم: فيكم من صاحب أصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم ؟ فيقولون: نعم، فيفتح لهم، ثم يأتي على الناس زمان، فيغزو فئام من الناس، فيقال لهم: هل فيكم من صاحب من صاحب أصحاب رسول الله صلی الله علیه وسلم ؟ فيقولون: نعم، فيفتح لهم}۔ (بخاری ومسلم)؛ ترجمہ: ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ کچھ لوگ جہاد کریں گے، ان سے پوچھا جائے گا تمہارے ساتھ ایسا آدمی ہے جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ہمرکاب رہا ہو؟ وہ کہیں گے: جی ہاں، اس طرح (مقابلے کے بعد) وہ لوگ فتح یاب ہوں گے۔ پھر کسی اور زمانے میں مسلمانوں کا ایک گروہ جہاد کرنے جائے گا، ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تمہارے ساتھ ایسا بندہ ہے جو صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين کے ساتھ رہاہو؟ جواب آئے گا کہ جی ہاں، پھر مجاہدین کا وہ گروہ فتح یاب ہوگا۔ ایک ایسا دور بھی آئے گا کہ بعض لوگ جہاد کے لیے نکلیں گے تو ان سے سوال ہوگا کہ کیا تمہارے ساتھ ایسا آدمی ہے جو صحابہ کرام کے ساتھیوں کے ہمرکاب رہاہو؟ وہ کہیں گے: جی، تو کامیاب ہوں گے۔

15۔ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ہے چونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیر اور مدد گار ساتھی تھے، اس بارے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: {ن الله تبارك وتعالى اختارني، واختار لي أصحاباً، فجعل لي منهم وزراء وأنصاراً وأصهاراً، فمن سبهم فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل}۔ (رواہ حاکم وصحّحہ)۔ ترجمہ: حضور اکرم نے فرمایا: اللہ نے مجھے منتخب فرمایا ہے اور میرے لئے میرے صحابہ کو منتخب کیا ان کو میرا وزیر‘ مددگار اور رشتہ دار بنایا جو ان کو برا کہے اس پر اللہ تعالیٰ کی‘ فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا کوئی فرض اور کوئی کفارہ قبول نہ کرے گا.

16۔ صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ ان سے محبت کرنا نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے محبت کرنا ہے اور صحابہ سے نفرت آپ صلى الله عليه وسلم سے نفرت کی دلیل وعلامت ہے، اسی بارے میں فرمان نبوی ہے: {الله الله في أصحابي، لا تتخذوهم غرضاً بعدي، فمن أحبهم فبحبي أحبهم، ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم، ومن آذاهم فقد آذاني، ومن آذاني فقد آذى الله، ومن آذى الله أوشك أن يأخذه} (رواہ احمد وترمذی وجعلہ حسناً)؛ ترجمہ: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع کا )نشانہ نہ بنانا (یاد رکھو) جس نے اِن سے محبت کی ،پس میری محبت کی وجہ سے اِس نے اُن سے محبت کی ۔ جس نے اُن سے بغض رکھا پس میرے بغض کی وجہ سے اُن سے بغض رکھا اور جس نے اُن کو اذیت دی پس اس نے مجھے اَذیت دی جس نے مجھے اَذیت دی ، اس نے اللہ کواذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی، پس قریب ہے کہ وہ اس کو گرفت کر لے.

17۔ ہمیں صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين سے محبت ہے چونکہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ان کے احترام وعزت کو اپنے ہی احترام کے مترادف قرار دیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: {احفظوني في أصحابي، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم}۔ (ابن ماجہ وصححہ الالبانی)؛ ترجمہ: میری منزلت وعزت کی حفاظت کے لیے میرے صحابہ اور ان کے بعد آنے والے دو صدیوں کے لوگوں کی منزلت وعزت کا خیال رکھو۔

18۔ ہم صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين سے محبت کرتے ہیں اس لیے کہ بارشاد نبوی صلى الله عليه وسلم وہ اہل علم وفضیلت، اخلاق اور سچائی والے تھے، حدیث شریف ملاحظہ ہو: {أرأف أمتي بأمتي أبوبكر، وأشدهم في دين الله عمر، وأصدقهم حياء عثمان، وأقضاهم علي، وأفرضهم زيد بن ثابت، وأقرؤهم أبيّ، وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، ألا وإن لكل أمة أميناً، وأمين هذه الأمة أبوعبيدة بن الجراح}۔ (حاکم) ترجمہ: میری امت پرسب سے زیادہ رحیم ابوبکر ہے، دین پر سختی سے عمل کرنے والا عمر ہے، سب سے زیادہ سچے باحیا عثمان ہے،عدل میں سب سے آگے علی ہے، ہرامت کا ایک امین ہوتاہے اور اس امت کا امین ابوعبیدہ بن الجراح ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کی توصیف ان الفاظ میں کی ہے:
جب اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو بہترین پایا۔ تو انہیں منتخب کرکے اپنا نبی بنایا۔ پھر اللہ تعالی نے سارے قلوب پر نظر ڈالی تو صحابہ کرام کے دلوں کو بہترین پایا سو انہیں اپنے برگزیدہ پیغمبر کی صحبت کے لیے منتخب کرکے آپ صلى الله عليه وسلم کے وزیر بنادیا تا کہ اس کے دین کی راہ میں لڑیں۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو ان کی پیروی کرے جن کا انتقال ہوچکا ہے، چونکہ جو زندہ ہیں معلوم نہیں فتنے کا شکار ہوں گے کہ نہیں۔ جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں وہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے صحابہ ہیں جو امت میں عقائد کے اعتبار مضبوط ترین اور سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے، دین میں ان کا تکلف سب سے کم تھا۔ صحابہ کرام وہ لوگ تھے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے نبی کے مصاحبت اور دین کے قیام کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ ان کی جاہ ومقام کو پہچانو اور ان کے طریقے پر چلو اس لیے کہ وہ ہدایت اور راہ راست پر تھے۔

صحابہ کرام کے حوالے سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
واضح اور آشکار مسائل میں سے ایک صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين کی تمام خوبیوں کو بیان کرنا، ان کی غلطیوں اور آپس کے اختلافات کو بیان کرنے سے گزیر کرنا ہے۔ اس لیے جو شخص کسی بھی صحابی کی شاں میں گستاخی کرے، برا بھلا کہے اور  طعنہ زنی کرے یا کسی صحابی کی عیب جوئی کرے تو وہ شخص بدعتی، ناپاک، رافضی او اہل سنت کا مخالف ہے۔
اللہ تعالی (قیامت کے دن) نہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا نہ کوئی فدیہ وکفارہ اس کی جان چھڑا سکے گا۔
اس کے برعکس صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين سے محبت سنت اور ضروری ہے، ان کے لیے نیک دعاء کرنا قرب الہی کا باعث ہے۔ ان کی پیروی باعث نجات ہے اور ان کی راہ پرچلنا فضیلت شمار ہوتاہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سب سے اچھے لوگ تھے، کسی انسان کے لیے مناسب نہیں کہ انہیں گالیاں دے یا عیب جوئی کرکے ان کی شان میں گستاخی کرے اور انہیں گندی زبان سے یاد کرے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے سے امام آجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالی کی توفیق سے میں نے اپنی کتاب (شریعہ) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل تحریر کیا۔ اس کے بعد صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين کے فضائل کا تذکرہ ہوگا۔ جنہیں اللہ تعالی نے منتخب فرمایا اور اپنے برگزیدہ نبی کے لیے وزیر، رشتہ دار، ساتھی اور اس کی امت کے لیے خلیفہ مقرر فرمایا۔ مہاجرین وانصار وہ حضرات تھے جن کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بہترین اوصاف کے ساتھ یاد کیا ہے۔ قرآن میں آیا ہے اللہ تعالی نے توریت میں بھی صحابہ کرام کو اچھے الفاظ و اوصاف میں یاد کیا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالی کا فضل وکرم ہے۔ اللہ جلّ وعلیٰ کا فضل بہت بڑا ہے جسے چاہے وہ عطا فرماتاہے۔

مہاجرین: مہاجرین وہ جاں نثار صحابہ تھے جنہوں نے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم پر ایمان لایا اور اپنے عمل سے اسے ثابت کردکھایا، سختیوں اور برے دنوں میں آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ رہے، اللہ کی راہ میں ذلت اور بھوک کو غیر اللہ کے راستے میں عزت اور شکم سیری پر ترجیح دی۔ اللہ کی رضا کے لیے رشتہ دار اور اجنبی کی مخالفت کو بخوشی قبول کیا۔ مہاجرین اپنے والدین، خاندان، قبیلہ، جائیداد اور سب کچھ چھوڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم رکابی میں ہجرت کے لیے نکلے۔ ان سب چیزوں سے زیادہ اہم ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول تھے اس لیے کہ ان کا ایمان مضبوط، عقل سلیم، نفس پاک، رائے صائب اور صبر زیادہ تھا اور یہ اللہ تعالی کی توفیق تھی۔ ارشاد الہی ہے: { لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ } (المجادلہ :۲۲)؛ ترجمہ: آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے.

انصار: وہ لوگ تھے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے دین کی نصرت اور نبی صلى الله عليه وسلم کی پیروی کے لیے منتخب فرمایا۔
جب نبی کریم صلى الله عليه وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف فرماتھے انصاری صحابہ آپ کے پاس تشریف لاکر مومنوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ انصار اپنی بیعت میں مخلص تھے اور ہمہ تن آپ صلى الله عليه وسلم کی نصرت ومدد کیلیے کمر بستہ تھے۔ انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی مکمل پیروی کرنے والے تھے اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے محبت کی وجہ سے انہوں نے آپ کو مدینہ آنے کی دعوت دی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ابھی تک ہجرت کا وقت نہیں آیا ہے۔ انصار کا وہ دستہ جو آپ صلى الله عليه وسلم کے دست مبارک پر بیعت کر چکاتھا واپس مدینہ چلا گیا تو وہ دیگر اہل مدینہ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا ذریعہ بن گئے۔
تمام انصار اپنے ایمان میں ثابت قدم تھے چنانچہ جب مہاجرین مدینہ پہنچے تو انکا شاندار استقبال کیا گیا، انہوں نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم و دیگر مہاجرین کا خوب اکرام کیا۔ انصار کو معلوم ہوا یہ مبارک ہجرت اللہ تعالی کی طرف سے ان کے لیے بڑی نعمت ہے۔ اس کے بعد دیگر مہاجرین جب مدینہ پہنچے تو انصار نے ان کی بھی عزت وخدمت کی۔ اپنے گھروں کو تقسیم کرکے انہیں جگہ دینے کے علاوہ ان کو اپنے بچوں اور بیووں پر بھی ترجیح دی۔ اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں الفت ومحبت ڈالی تھی جس کی برکت سے وہ بھائی بھائی بن کر رہ رہے تھے۔ اللہ تعالی صحابہ کرام کی تعریف میں فرماتے ہیں: { وَإِن يُرِيدُواْ أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللّهُ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ* وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعاً مَّا أَلَّفَتْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ }؛ (الأنفال۔ 63۔62)؛ ترجمہ: اور اگر وہ چاہیں کہ آپ کو دھوکہ دیں تو بیشک آپ کے لئے اللہ کافی ہے، وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ذریعے اور اہلِ ایمان کے ذریعے طاقت بخشیo ور (اسی نے) ان (مسلمانوں) کے دلوں میں باہمی الفت پیدا فرما دی۔ اگر آپ وہ سب کچھ جو زمین میں ہے خرچ کر ڈالتے تو (ان تمام مادی وسائل سے) بھی آپ ان کے دلوں میں (یہ) الفت پیدا نہ کر سکتے لیکن اللہ نے ان کے درمیان (ایک روحانی رشتے سے) محبت پیدا فرما دی۔ بیشک وہ بڑے غلبہ والا حکمت والا ہے.
ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے: {وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ} (آل عمران۔ 103) ؛ ترجمہ: اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ.
ان آیات قرآنی سے معلوم ہوا سارے صحابہ کرام بشمول مہاجرین وانصار اللہ تعالی اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم کے خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی نصرت ومدد پر وہ متفق تھے، شریعت اور احکام کے نفاذ میں وہ متحد اور آپ صلى الله عليه وسلم کے بہترین ساتھی تھے۔ اس راہ میں وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور ہر حال میں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی نصرت اور اسلام کے لیے جاں نثاری ان کا مقصد حیات بن چکاتھا۔ اسی لیے ایک سے زائد مرتبہ اللہ تعالی نے مہاجرین وانصار کی تعریف کی ہے، انہیں جنت کا وعدہ دیا ہے اور اپنی رضامندی کا اعلان بھی فرمایا ہے: { لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُوْلَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُوْلَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ } (المجادلۃ۔ 22)؛ ترجمہ: آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے.

صحابہ کرام کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صحابہ کرام کے فضائل سے وہ شخص واقف ہوسکتاہے جو عہد نبوی صلى الله عليه وسلم میں ان کا تعامل اور اس کے بعد کی زندگی پر گہری نظر ڈالے۔ صحابہ کرام وہ عظیم شخصیات تھے جو ایمان، کفار سے جہاد وقتال، اشاعہ دین، قیام دین، اعلائے شان احکامات الہی ونبوی، فرائض اور سنن نبوی کی تعلیم وتعلم میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر صحابہ کرام رضي الله تعالى عنهم أجمعين نہ ہوتے تو ہرگز دین کا کوئی اصل یا فرع ہم تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہرگز نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی کوئی حدیث یا سنت سے ہم واقف نہیں ہوسکتے تھے۔
اس لیے جو شخص صحابہ کے حوالے سے طعنہ زنی وگستاخی سے کام لے وہ پوری طرح دایرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے چونکہ جو شخص صحابہ کو گالیاں دے کر طعنہ زنی کرتا ہے وہ اس طرح اپنے عقیدے کا اظہار کرتا ہے کہ صحابہ کرام ہی غلط راستے پر تھے اور قرآن پاک اور احادیث میں ان کے جتنے اوصاف مذکور ہیں یہ لوگ ان تعریفوں کی تردید کرتے ہیں۔ یہ قرآن وحدیث کا انکار ہے۔ جو شخص صحابہ پر طعن کرتا ہے در اصل وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتاہے۔ نصوص شریعت کے ناقلین کی توہین وگستاخی درحقیقت نصوص (قرآن وسنت) کی توہین ہے۔ یہ اہم بات ہر اس شخص کے لیے قابل فہم ودرک ہے جو تدبر کا اہل ہو، نفاق وکفر اور الحاد سے دور ہو۔ (الکبائر ص ۔ ۲۷۴)

فُضیل بن عیاض رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں:
صحابہ سے محبت ذخیرہ آخرت ہے۔ اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جو صحابہ رسول صلى الله عليه وسلم پر سلام ودرود بھیجے۔

عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نیز فرماتے ہیں:
اگر کسی شخص میں یہ دو صفات ہوں مجھے امید ہے کہ وہ قیامت کے عذاب سے محفوظ رہے گا، ایک سچائی اور دوسرا صحابہ رسول سے محبت۔

ابوبکر بن الطیب بعض صحابہ کے بارے میں زبردست اشعار کہہ چکے ہیں جن کا مطلب ہے:
علی کے مثالی ہونے میں مجھے اتنا یقین ہے جتنا ابوبکر کی جہنم سے نجات پر، عمر اور اس کے ساتھیوں سے راضی ہوں مگر عثمان کی اپنے ہی گھر میں شہادت پر ہرگز راضی نہیں۔ سارے صحابہ کرام میرے نظر میں قائد اور عظیم المرتبت ہیں، کیا میں اس طرح عقیدہ رکھنے پر قابل ملامت ہوں؟! اے پروردگار! اگر آپ جانتے ہیں کہ میں صرف آپ کی خوشنودی ورضا حاصل کرنے کے لیے صحابہ سے محبت کرتا ہوں تو جہنم کے عذاب سے مجھے بچادے!

خالد ابوصالح


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں