عذاب الہی کا ایک اہم سبب ظلم وناانصافی ہے،مولاناعبدالحمید

عذاب الہی کا ایک اہم سبب ظلم وناانصافی ہے،مولاناعبدالحمید
molana32حضرت شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اس جمعے کے خطبے کا آغاز قرآنی آیت: «إَنَّ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءنَا وَرَضُواْ بِالْحَياةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّواْ بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ* أُوْلَئِكَ مَأْوَاهُمُ النُّارُ بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ*إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ» سے کیا اور “غفلت” کے حوالے سے بعض مسائل پرروشنی ڈالی۔

انہوں نے کہاغفلت کامطلب یہ ہے کہ آدمی دینی احکام، قیامت، حساب وکتاب اوراپنی عاقبت سے غافل ہوجائے۔ اس بارے میں دانشوروں اور علمائے کرام میں دورائے نہیں کہ سارے انسانوں اور مسلمانوں میں فکرآخرت وقیامت کمزور پڑچکی ہے حالانکہ یہی چیز فرد کو انفرادی اور معاشرتی گناہوں سے دور رکھتی ہے۔ جوشخص گناہ کاارتکاب کرتاہے اور گناہوں کاعادی بن چکا ہوتاہے تو اس کی وجہ آخرت کو بھولنا اور اپنی عاقبت سے غافل رہناہے۔
نمازکی ادائیگی میں سستی، مساجد سے دوری، جمعے کی نماز اور باجماعت نمازوں میں عدم شرکت اورغیبت وجھوٹ جیسے خطرناک گناہ غفلت کے نتائج ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا گناہ چاہے صغیرہ ہو یا کبیرہ اس کا فردی واجتماعی زندگی پرانتہائی منفی اثرپڑتاہے۔حدیث شریف میں آیاہے کہ کسی بھی گناہ کو کم مت سمجھو نیزکسی نیک کام کوحقیرنہیں سمجھناچاہیے۔
مولاناعبدالحمید دامت برکاتہم نے کہاسب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی حدتک اسلامی تعلیمات کیخلاف ہونے والے کاموں کاراستہ بندکرنے کی کوشش کریں۔ بے پردگی ودیگرگناہوں اور منکرات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ غافلوں کوتنبیہ کرکے انہیں نصیحت کرنی چاہیے۔ والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے بچوں پرنظررکھیں اورانہیں اچھی صحبت مہیاکردیں۔ بچوں کوعلم سیکھنے کے مواقع فراہم کرنے چاہیے، چاہے دینی علوم ہوں یاجدید تعلیم ان سب علوم سے اپنی اولاد کوآراستہ کرناچاہیے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کے ایک حصے میں ملک میں وقوع زلزلہ کے حوالے بعض علماء اور پروفیسرز کے تجزیوں اور آراء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کچھ عرصے قبل اس بات کا چرچا ہوا کہ تہران میں زلزلہ آسکتا ہے۔ جو بات میرے لیے حیرت کا باعث بنی وہ یہ تھی تہران کے ایک خطیب نے کہا تھا خواتین اور لڑکیاں پردے کا اہتمام نہیں کرتی ہیں جس سے زلزلہ آسکتا ہے، ایک یونیورسٹی لیکچرار نے کہا تھا زلزلہ ایک قدرتی وحادثاتی چیز ہے اور گناہوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
بات آگے بڑھاتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے ان دونوں نظریات پر تنقید کرکے یونیورسٹی لیکچرار کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہا یہ بات صحیح ہے کہ دنیا دارالاسباب ہے اور ہر واقعہ کا کوئی سبب ہوتا ہے لیکن یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ سارے اسباب کا ایک رب بھی ہے، ایک ذات ہے جو ربّ الاسباب ہے۔ ہر واقعہ، سانحہ اور کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے اور علت اللہ تعالی ہی ہے۔ اس لیے یہ بات صحیح نہیں ہے کہ تمام واقعات نیچرل اور حادثاتی ہیں اور اللہ تعالی کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلمان اساتذہ وپروفیسرز کو چاہیے قرآن وسنت کا مطالعہ کرکے تحقیق کریں۔ زلزلہ، سیلاب اور طوفان جیسے قدرت کے مظاہر کا ہمارے اعمال اور گناہوں سے سو فیصد تعلق اور ربط ہے۔
قرآن پاک میں متعدد قوموں کے واقعات موجود ہیں جنہیں اللہ تعالی نے زلزلہ یا طوفان کے ذریعہ سزادی اور بعض نافرمان قوموں کو زمین میں دھنسا دیا۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: «فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ..» ؛ ترجمہ: سو ہم نے (ان میں سے) ہر ایک کو اس کے گناہ کے باعث پکڑ لیا، اور ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جس پر ہم نے پتھر برسانے والی آندھی بھیجی اوران میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جسے دہشت ناک آواز نے آپکڑا اور ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے (ایک) وہ (طبقہ بھی) تھا جسے ہم نے غرق کر دیا اور ہرگز ایسا نہ تھا کہ اللہ ان پر ظلم کرے بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے.
اس لیے اس لیکچرار کا نظریہ تخصصی نہیں ہے، اگر اسے ماہرین کی رائے کہا جائے تو یہ نقطہ نظر اسلامی ودینی نہیں ہے۔
حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم نے ایک خطیب کی بات کی طرف اشارہ کیا جس نے کہا تھا بے پردگی زلزلہ کا سبب ہے۔ انہوں نے کہا بلا شبہ عریانی و بے پردگی گناہ ہے مگر اس سے بڑا گناہ ظلم وبے انصافی ہے۔ جہاں ظلم وستم اور بے انصافی کا بازار گرم ہو وہاں خدا کا عذاب آتا ہے۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ خطباء واساتذہ تمام مسائل کا حقیقی رخ مدنظر رکھیں۔ جو شخص جس مقام پر ہے اور گناہ کرتا ہے اسے توبہ کرنی چاہیے۔ عام لوگوں کے علاوہ علماء، حکام ودیگر طبقہ کے افراد اگر گناہ کا ارتکاب کریں تو انہیں توبہ کرکے خالق کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ بے پردہ خواتین، سود خور افراد سمیت سب کو توبہ کرنی چاہیے۔ یہ طرز عمل بالکل غلط ہے کہ آدمی دوسروں کے گناہوں کی بات کرے، انہیں ملامت کرے مگر اپنے گناہوں سے چشم پوشی کرے اور اپنا احتساب بھول جائے۔ بلکہ ہر شخص کو اپنے عمل کی فکر بھی کرنی چاہیے، قاضی حضرات، نظم وامن کے محافظ اہلکار اور بندہ بحیثیت پیش امام، کاروباری افراد اور دیگر حضرات کی ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے اپنے اعمال کا احتساب کریں۔
آخر میں مولانا عبدالحمید نے تاکید کرتے ہوئے کہا یہ مسئلہ بالکل واضح اور دلائل کے ساتھ ثابت ہے کہ حادثات و واقعات جو آئے روز رونما ہوتے ہیں ان سب کا ہمارے اعمال سے ربط ہے، ہمارے جیسے اعمال ہوں گے ویسے ہی حالات کا ہمیں سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لیے ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح کرکے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں