** ہمارا مستقبل طلباء سے وابستہ ہے۔ پوری دنیا میں اگر انسانیت ترقی پاچکی ہے تو اس کا سہرا جدید تعلیمی اداروں کے سر ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی ان اداروں کا محتاج ہے اور یہ ناممکن ہے کہ معاشرہ یونیورسٹیوں اور دینی مدارس سے بے نیاز ہو۔ یونیورسٹیز سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ اسی بنا پر ہم نے جامعہ دارالعلوم زاہدان میں یونیورسٹی طلباء کے لیے ایک مستقل شعبہ قائم کیا ہے۔ غریب اور نادار طلباء وطالبات کے لیے ہاسٹل کا انتظام بھی جامعہ کی طرف سے کیا گیا ہے۔ ہم ہمیشہ دعاؤں اور بیانات میں یونیورسٹیز کے طلباء واساتذہ کو یاد کرتے ہیں، ان کی کامیابی کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔
* کیا آپ نے کبھی سیستان وبلوچستان یونیورسٹی میں با قاعدہ خطاب کیا ہے؟
** نہیں، میں کبھی براہ راست وہاں طلباء سے ملنے اور خطاب کرنے کے لیے نہیں گیا ہوں۔
البتہ ایک مرتبہ کسی پروگرام میں شرکت کے لیے یونیورسٹی کے ہال میں گیا تھا اور خطاب بھی کیا، اسی طرح رمضان المبارک میں سنی طلباء نے مجھے وہاں آنے کی دعوت دی تو ختم قرآن کے موقع پر میں نے خطاب کیا۔ میرے خیال میں اگر یونیورسٹی کی طرف سے مجھے مدعو بھی کیا جائے تو یہ بعض عناصر کو ناگوار گزرے جن کیلیے میری موجودگی ناقابل برداشت ہے۔
* اگر یونیورسٹی کے بعض طلباء کسی جلسے کا انتظام کریں اور خطاب کے لیے آپ سے درخواست کریں کیا آپ لبیک کہیں گے؟
** جی بالکل، ضرور آؤں گا۔
* کیا ملک کی یونیورسٹیوں میں اہل سنت کے طلباء کو دینی فرائض سرانجام دینے کی مکمل آزادی حاصل ہے؟
** یونیورسٹیز میں تمام طلباء کو اپنی تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ دینی چاہیے، ساتھ ساتھ دین پر بھی سختی سے عمل کرنا چاہیے۔ جہاں تک اہل سنت والجماعت کے طلباء کا تعلق ہے تو مجھے یہ کہنا چاہیے کہ سنی طلباء کی طرف سے مسلسل یہ شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں کہ کلاسز میں اساتذہ ان کے عقائد کا احترام نہیں کرتے، بعض اوقات اہل سنت کی مقدس شخصیات کی توہین بھی کرتے ہیں اور سنی رہنماؤں کو برے القاب کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ کئی مرتبہ ہم نے یونیورسٹیوں کے ذمہ داروں اور صدور کو یاد دہانی کرائی ہے کہ اتحاد ویکجہتی کو یقینی بنانے کے لیے ایسے لوگوں کو منع کیا جائے۔
مرید بر آں گزشتہ کچھ عرصے سے مختلف تہواروں کا بہانہ بناکر یونیورسٹیوں میں کتابچے تقسیم کیے جاتے ہیں جن میں اہل سنت والجماعت کے عقائد کو نشانہ بنایا جاتاہے۔ ایک اور مسئلہ جو پریشان کن ہے وہ ہاسٹلز اور یونیورسٹیز کی مساجد میں با جماعت نماز پڑھنے پر پابندی کے حوالے سے ہے، افسوسناک بات یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے علاوہ فوجی چھاؤنیوں اور پولیس ٹریننگ سینٹروں میں بھی سنیوں کو با جماعت نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک با جماعت نماز پڑھنا واجب ہے اگر اس کا امکان ہو۔
* سیاست کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا طلباء کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے اور آپ اپنے متعلقین کو اس کی اجازت دیتے ہیں؟
** اسلامی انقلاب (1979ء) سے پہلے ایران میں بادشاہت اور ایک ہی خاندان کی حکومت قائم تھی، وہ لوگ خود کو ہر چیز کا مالک سمجھتے تھے، ایسی صورتحال میں کسی علمی ادارے کو سیاسی موضوعات پر تحقیق کی اجازت نہیں تھی۔ مگر انقلاب کے بعد “اسلامی جمہوریہ” کی تاسیس ہوئی تو کلیدی فیصلوں کا اختیار عوام کے پاس آیا جو جمہور ہیں۔ قوانین اسلامی اصولوں کے تحت مرتب ہوتے ہیں۔
اسلام آزادی کا سبق دیتا ہے یہاں تک کہ صدر اسلام میں ایک یہودی شخص نے حضرت علی (رض) کے خلاف شکایت دایر کی۔ قاضی نے جسے حضرت علی (رض) نے خود منصوب کیا تھا شواہد کے پیش نظر یہودی کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہ آزادی اور جمہوریت کی علامت ہے جو اسلام کے دور زرین میں فراہم تھی۔ کیا اتنی آزادی آج کل دنیا میں کہیں دستیاب ہے؟ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) نے مسجد النبی (ص) میں تقریر کے دوران گویا ہوئے: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے روگردانی کروں تم لوگ کیا کروگے؟ ایک اعرابی نے تلوار نیام سے نکال کرکہا اس سے آپ کو سیدھا کریں گے۔ حضرت عمر (رض) نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا جب تک یہ لوگ زندہ ہیں عمر سنت سے خطا نہیں کرے گا۔ یہ آزادی ہے۔ کیا دنیا کے سرکردہ حکمران مثلاْ مسٹر اوباما ایسی آزادی دینے کے لیے تیا ہیں؟
میرے خیال میں طلباء کو تحقیق وعلمی کاوش سے کوئی روک نہیں سکتا۔ طلباء کو سیاست کے میدان میں فعال ہونا چاہیے۔ یہ طبقہ معاشرے کے دانشور اور اسکالرز ہیں۔ اگر یہ سرگرم نہ ہوں تو کوئی باقی نہیں رہے گا۔
* حالیہ صدارتی انتخابات کے نتائج پر بعض لوگ راضی اور کچھ گروہ ناراض ہوئے، آپ کا نقطہ نظر اس الیکشن اور بعد کے واقعات کے بارے میں کیا ہے؟
** صدارتی الیکشن کے نتائج پر عوام کی بڑی تعداد تحفظات رکھتی ہے، اس کا حل یہ تھا کہ ان کے تحفظات دور کیے جاتے، ان کی بات سنی جاتی۔ اگر لوگوں کے تحفظات غلط تھے تو ان کو سمجھا کر قانع کردیتے، اگر صحیح تھے تو عوام کے سامنے تسلیم ہوجاتے۔ دنیا کے کسی علاقے میں معترض کو نہیں دبایا جاتاہے۔ حکام اعتراضات وتنقید سے گھبراتے نہیں اور عوام کی شکایات دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ کہ کوئی ڈکٹیٹر لوگوں کا حکمران ہو۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پرتشدد مظاہرے اور اعتراض کے حق میں کوئی نہیں ہے جہاں عوامی مقامات کو نقصان پہنچایا جائے۔ لیکن ریلی نکالنا، نعرے لگا کر اپنی شکایت کا اظہار کرنا آئین کی رو سے قانونی حق ہے بشرطیکہ متعلقہ حکام کی اجازت سے ہو۔
انتخابات کے طریقہ کار کے حوالے سے عرض کردوں کہ تجربہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ الیکشن قوانین کی ترمیم کرنی چاہیے۔ قوانین کی عدم اصلاح ہی کی وجہ سے اتنا بڑا بحران پیش آیا۔ اقتدار پر قابض حضرات کو چاہیے قانون کی اصلاح کریں تا کہ انتخابات کی صحت ودرستگی یقینی ہوجائے اور عوام اس کے نتائج پر رضامند ہوں۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو اس بات کا قوی احتمال ہے کہ آنے والے الیکشنوں میں عوام کی بڑی تعداد شرکت نہ کرے۔ پوری دنیا میں قوانین کی ترمیم کی جاتی ہے، انسان سے خطا سرزد ہوتی ہے، اجتماعی غلطی کا امکان منتفی نہیں ہے، تھنک ٹینکس سے غلطی ہوسکتی ہے۔ صرف اللہ کا قانون حکیمانہ اور غلطی سے پاک ہے۔
* کیا حالیہ ہونے والے انتخابات میں آپ نے کسی امیدوار کی باقاعدہ حمایت کی تھی؟
** حالات اس طرح تھے کہ میں غیرجانبدار رہوں اور کسی خاص امیدوار کے بارے میں اپنا موقف بیان نہ کروں۔
* ساتواں اور آٹھواں صدارتی انتخابات میں اہل سنت کے اکثر ووٹ مسٹر خاتمی کے حق میں ڈالے گئے، کیا تمہارے مطالبات پورے ہوئے؟ مجموعی طور پر اصلاح پسندوں کے دور حکومت کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
** سنی برادری کو دو بڑے بحرانوں کا سامنا تھا۔ پہلا یہ تھا کہ اہل سنت مذہبی آزادی کے حوالے سے شدید دباؤ میں تھے اور مذہبی آزادی سے محروم تھے۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ وفاقی عہدوں کے علاوہ علاقائی مناصب سے بھی محروم چلے آرہے ہیں اور اس حوالے سے سنی مسلمان شدید امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ اسی لیے سنیوں نے اصلاح پسندوں کو ووٹ دیا تا کہ ان کی مشکلات کا خاتمہ ہو اور برابری ومساوات ملک میں قائم ہو۔ شیعہ سنی کی تفریق ختم ہوجائے۔ مذہبی آزادی کے حوالے سے ہم کسی حد تک آزاد ہوئے اور ملک کی فضا تمام طبقات، سنی شیعہ، علماء اور دانشوروں کے لیے قدرے مناسب ہوئی۔ البتہ یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ پوری آزادی ہمیں ملی چونکہ قدرت کے مراکز مختلف دھڑوں میں منقسم تھے۔
امتیازی سلوک کے خاتمہ کے حوالے سے ہم نے وقت کے حکمرانوں سے کئی ملاقاتیں کیں مگر ایک نائب صدر، وزیر حتی کہ نائب وزیر کا منصب بھی کسی سنی کو نہیں دیا گیا۔ اسی لیے اصلاح پسندوں پر تنقید بھی ہوتی رہی اور اہل سنت والجماعت بھی پریشان ہیں۔ ہمارے خیال میں اصلاح پسند بہت کچھ کرسکتے تھے مگر انہوں نے فرصت کھودی۔
* عام طور پر حضرت فاطمہ (رض) کے یوم الوفات کے موقع پر ناخشگوار واقعات پیش آتے ہیں، آپ کے خیال میں مسئلے کی جڑ کیا ہے؟
** پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے قابل احترام ہیں اور ان کی مقدسات دینیہ میں شامل ہیں، آپ کے خاندان اور حضرت علی (رض) کی محبت ہر مسلمان کے دل میں ہے۔ اہل سنت حضرت علی (رض) اور ان کے خاندان وگھروالوں سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں اور یہ اتحاد کے لیے مشترکہ امر ہے۔ ہمارا عقیدہ حضرت فاطمہ الزہرا کی وفات کا ہے نہ شہادت کا۔ یہ اصلاح پسندوں کی غلطی تھی کہ بعض مراجع تقلید (شیعہ اسکالرز) کے اشارے پر پارلیمان میں ایک بل پیش کیا گیا اور اس کے بعد وفات فاطمہ “شہادت فاطمہ” میں بدل گئی۔
* کیا اصلاح پسندوں کے دور میں یہ بل پاس ہوا؟
** جی ہاں، اور یہ مسئلہ اختلاف وفرقہ واریت کی بنیاد بن گیا۔ اس بل کا اتحاد بین المسلمین کے داعی اسلامی جمہوریہ ایران، عالم اسلام کے ام القریٰ کا دعویدار اور تقریب بین المسالک کے بانی ملک سے کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی۔ اس بات سے عالم اسلام کو نقصان پہنچا اور اتحاد کو دھچکا لگا۔ اس بل کو پاس کراتے وقت دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ عالم تشیع میں بعض بڑی علمی شخصیات جن کا تعلق شیعہ مدارس اور جدید تعلیمی اداروں سے ہے شہادت فاطمہ کو درست نہیں مانتے۔
* گزشتہ برس مسجد امیر المومنین (زاہدان) کا واقعہ پیش آیا اور بعض شہریوں کو نقصان اٹھانا پڑا، ایسے ناخوشگوار واقعات کی روک تھام کے لیے آپ کی تجویز کیا ہے؟
** مسلمان چاہے سنی ہوں یا شیعہ اختلافی مسائل سے پرہیز کریں اور ایک دوسرے کو ابھارنے اور مشتعل کرنے کی کوشش مت کریں۔ تاریخی اختلافات و واقعات کو جاری رکھنے اور دہرانے میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ اس سے ہمیں اور اسلام کو نقصان پہنچتا ہے۔
* آپ کے لیے کامیابی کی امید رکھتے ہیں، آپ نے “بامداد” کو اپنے قیمتی وقت کا تحفہ دیا، بہت بہت شکریہ۔
آپ کی رائے