کیا تحریک طالبان پاکستان کی امریکہ تک رسائی ہے؟

کیا تحریک طالبان پاکستان کی امریکہ تک رسائی ہے؟
hakim-talibanعمومی طور پر پاکستان اور خصوصاً طالبان اور وزیرستان کو 30سالہ پاکستانی نژادامریکی فیصل شہزاد کے نیویارک میں کار بم دھماکے میں ناکامی کے بعد گرفتار ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال میں دھکیل دیا گیا ہے۔یہ بات اب سمجھ آرہی ہے اور اب ایسا مسلسل ہو گا کہ ہمیں ایسی غیر ضروری اہمیت اس وقت دی جاتی رہے گی جب تک القاعدہ ،طالبان یا دیگر جنگجو گروپ منظر نامے سے ہٹ نہیں جاتے ۔ ایسا اس وقت ممکن ہوتا نظر نہیں آرہا جب تک پڑوسی ملک افغانستان میں جنگجو یا اتحادی فورسز میں سے کوئی ایک فاتح کے طور پر سامنے نہیں آجاتا ۔ افغانستان کا معاملہ اور ساتھ میں پاکستان کی اندرونی صورتحال نے ہمارے ملک اور خطے کو عدم استحکام سے دوچار کردیاہے اور یہ صورتحال آنے والے وقتوں میں بھی پیچھا نہیں چھوڑے گی۔

فیصل کے کیس میں کئی موڑ آئے۔ پہلے اسے ’Lone Wolf‘قرار دیا گیایعنی اس نے یہ کارروائی اکیلے انجام دی، اب امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹائمز اسکوائر میں ہونیوالے بم دھماکوں کی کوششوں میں پاکستانی طالبان ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیصل پاکستانی طالبان کے حکم پر کام کرتا تھا، جنہوں نے ممکنہ طور پر کاربم دھماکے میں معاونت کی اور فنڈ ز بھی فراہم کئے ۔یہ سرکاری طور پر امریکی موقف ہے جس کی بنیاد فیصل سے کی جانے والی تفتیش پر ہے جو کہ تفتیش کاروں سے اس بنا پر مکمل تعاون کر رہاہے تاکہ اسے کم سے کم سزا ملے اور اگرالزام کو سویلین کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو مزید واضح تصویر سامنے آئیگی لیکن امریکی اٹارنی جنرل نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ اگر فیصل غلطی تسلیم کرلے گا تو کیس داخل نہیں کیا جائیگا۔ زندگی کے 18سال پاکستان میں گزارنے والے تعلیم یافتہ نوجوان کا مقدر عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے جس کے والد ایک سینئر ایئر فورس افسر ایئر مارشل بہارالحق ہیں۔ابتداء میں کچھ لوگوں نے چاہا کہ نیویارک بم دھماکوں کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان پر ڈال دی جائے۔حقیقتاً امریکی سول اور فوجی حکام دونوں ہی کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کے اس کارروائی میں ملوث ہونے کے دعوے کو مسترد کردیا گیا جس میں اس نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انہوں نے امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کے لئے بندے بھیجے ہیں ۔تاہم صورتحال مکمل طور پر بدل گئی ہے لیکن اس کا انحصار امریکی حراست میں موجود فیصل کے اعتراف پر ہے۔تحریک طالبان پاکستان نے فیصل کی بم دھماکوں کی کوشش کی ذمہ داری 2مئی کو قبول کی اور 6مئی کو اس سے پیچھے ہٹ گئے۔یہ قاری حسین ہی تھا جس نے آڈیو ٹیپ میں جاری بیان میں اس کی ذمہ داری قبول کی (قاری حسین جنگجوؤں میں خودکش حملہ آوروں کے استاد کے نام سے مشہور ہے)۔اس بیان کی اس کے کزن اور تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے بالواسطہ طور پر تصدیق کی، جس کے بارے میں پاکستانی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو گمان تھا کہ وہ 14جنوری کو جنوبی وزیرستان میں ہونے والے ڈرون حملے میں مارا گیا ہے۔اپنے ویڈیو ٹیپ بیان میں حکیم اللہ محسود نے فیصل کا نیویارک بم دھماکوں کی کوشش کا کوئی ذکر نہیں کیالیکن اس کی جانب سے امریکہ کو دھمکی دی گئی کہ ڈورن حملوں کے جواب میں امریکہ میں حملے کئے جائیں گے۔
یہ کوئی انکشاف نہیں ہے کہ تحریک طالبان پاکستان ،القاعدہ اوردیگر جنگجو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔ ان کی جانب سے امریکہ اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے خلاف ’جہاد ‘کا اعلان کیا ہوا اور بالکل اسی طرح مغربی ممالک نے القاعدہ اور اس کے حامیوں کو تباہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے خواہ وہ افغانستان میں ہوں، عراق میں یا کہیں اور۔یہ موت کی جنگ طاقتور ممالک اور (غیر ریاستی)مسلمانوں کے درمیان ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک غیر متوازی لڑائی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں القاعدہ، طالبان اور ان جیسے دیگر اپنی چالاکیوں سے دہشت گردانہ کارروائیوں سے دشمن کے اعصاب پر سوار ہیں اور ان کی معیشت کو بھرپور نقصان پہنچا رہے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ابھی تک افغانستان اور پاکستان کے علاوہ امریکہ ودیگر ممالک میں حملے کرنے کی اپنی صلاحیت کا اظہار نہیں کیا۔اگر القاعدہ جو کہ پرانی ،عالمی اور وسائل سے مالا مال تنظیم ہونے کے ناتے 9/11کے بعد امریکہ پر حملے کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے تو تحریک طالبان پاکستان سے توقع کرنا کہ یہ محفوظ امریکہ میں حملہ کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود اور اس کے جانشین حکیم اللہ محسود کی قیادت میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں کئی پیچیدہ اور خطرناک کارروائیاں کی گئیں جن میں پاکستان آرمی کے راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈ کوارٹراور پشاور،اسلام آباد،لاہور اور ملتان میں آئی ایس آئی ، ایف آئی اے اور پولیس کی تنصیبات پر حملے شامل ہیں ۔افغان طالبان کے تعاون سے پاکستانی طالبان نے افغانستان میں کئی مشکل اہداف کو نشانہ بنایا۔تحریک طالبان پاکستان کشمیر میں جہادی گروپ جیسے جیش محمد کے ساتھ ملکر بھارتی کشمیر میں حملوں کیلئے جہادی گروپ تشکیل دے سکتی ہے اور یہ بھارت میں بھی حملے کر سکتی ہے لیکن کوئی شہادت نہیں اور نہ ہی ایسا ابھی تک کچھ ہوا ہے۔بہرحال امریکہ یا یورپ میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنا فی الحال تحریک طالبان پاکستان کے لئے ممکن نہیں یا یوں کہہ لیا جائے کہ اس کے پاس اس کی صلاحیت نہیں ۔
افغان طالبان کے برعکس جنہوں نے اپنی سرگرمیاں افغانستان تک محدود کی ہوئی ہیں پاکستانی طالبان نے کئی مواقعوں پر خود کو شیخی باز ثابت کیا ہے ۔اگر ماضی پر نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے 2009ء کے اوائل میں بیت اللہ محسود نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں ویتنامی نژاد امریکی نے فائرنگ کر کے کئی بیگناہوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ تحریک طالبان کے ترجمان مولوی جوکہ اس وقت حراست میں کہیں بھی کوئی دہشت گردی کی کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنے میں بہت تیزی دکھاتے تھے جن میں ماضی میں امریکہ اور اسپین میں ہونے والے واقعات بھی شامل ہیں ۔یہ دعوے غلط تھے اور ان سے تحریک طالبان پاکستان کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا۔حقیقتاً ان جھوٹے دعوؤں ہی کی وجہ سے قاری حسین اور حکیم اللہ محسود کے امریکہ میں حملوں کی دھمکیوں کو اہمیت نہیں دی جا رہی ۔بہرحال اگر فیصل شہزاد جیسا کوئی تحریک طالبان سے رابطہ کرکے امریکہ پر حملہ کرنے کی خدمات پیش کرے تو تحریک یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔یہ تحریک اپنے بندوں کو پیسہ دے کر امریکہ نہیں بھیج سکتی نہ ہی اتنی دور سے کوئی حملہ نہیں کروا سکتی لیکن حکیم اللہ محسود ،قاری حسین اور تحریک طالبان پاکستان کے دیگر رہنماء کسی کو رہنمائی فراہم کرنے میں خوشی محسوس کریں گے کہ کسی کو بم بنانے کی تربیت دی جائے یا مغرب میں رہنے والا کوئی شخص اپنا آخری بیان تحریک طالبان کی جانب سے ریکارڈ کرائے ۔
مغربی ممالک میں اسلام میں داخل ہونے والے افراد کو القاعدہ بہت پسند کرتی ہے کیونکہ ان پر کوئی شک نہیں کرتا اور ان کو آنے جانے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ دوسرے نمبر پر القاعدہ مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے کیونکہ وہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی مسلمان ممالک کے خلاف غیر منصفانہ پالیسیوں سے آگاہ ہوتے ہیں ۔
اگر اردنی خود کش حملہ آور ڈاکٹر ہمام ال خلیل البلاوی کے واقعے سے اس بات کا کھلا اظہار ہوتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان مشترکہ مقصد رکھنے والے شخص کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے تیار ہے ۔ وہ اردن میں تحریک طالبان پاکستان میں بھرتی نہیں ہوا تھالیکن خود کو حکیم اللہ اور قاری حسین کے سامنے جنوبی وزیرستان میں پیش کیا اور افغانستان کے صوبہ خوست میں سی آئی اے کے اسٹیشن کو دھماکے سے اڑانے کی پیشکش کی ۔حکیم اللہ کے ساتھ ریکارڈکرائی گئی اپنی آخری ویڈیو میں اس نے کہا کہ وہ امریکی ڈورن حملے میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ خوست میں سی آئی اے کے اسٹیشن پر حملہ کر کے لے گاجس کے بعد ڈرون پروگرام کی نگرانی اور طالبان اور القاعدہ کے حوالے سے معلومات کا حصول بڑھا دیا گیا۔ اسی ویڈیو میں حکیم اللہ نے کہاکہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کا بدلہ لینے کی دھن اس پر سوار تھی کہ خدا نے اردن سے ایک مسلمان بھائی بھیج دیاجس نے سی آئی اے سینٹر پر حملہ کرنے کیلئے اپنی خدمات پیش کر دیں۔
قاری حسین نے خوست میں ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری سب سے پہلے قبول کی جس میں سی آئی اے کے 7/اور اردن کا ایک ایجنٹ چند افغان جاسوس بھی مارے گئے تھے۔ابتدا ء میں کم لوگوں نے اس کا یقین کیالیکن بعد میں قاری حسین سچا ثابت ہواجبکہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان اعظم طارق نے 2مختلف موقعوں پرنیویارک والے واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی اور اصرار کیاکہ پاکستانی طالبان فیصل کو نہیں جانتے جس کے بعد قاری حسین کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ بہرحال کوئی ایسا سوچ سکتاہے کہ اگر فیصل کا قار ی حسین سے رابطہ ہواہو تو اس نے فیصل کوخود کش حملہ آور بننے پر متاثرکیا ہو گااور اسے بم بنانے کی بہترین تربیت دی ہوگی لیکن جس بھونڈے انداز میں فیصل نے کار میں بم نصب کئے اور ایسے شواہد چھوڑے جن کی مدد سے وہ گرفتار ہو گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے مناسب تربیت فراہم نہیں کی گئی۔ فیصل کی تحقیقات کی بنیاد پر سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس سے ظاہرہوتا ہے کہ اس نے یہ قدم پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے سبب اٹھایا لیکن ہلاکتوں کا بدلہ لینے کا جو طریقہ اختیار کیا وہ غلط تھا۔اس کی اپنا مقصد حاصل کرنے کے حوالے سے تیاری بھی مکمل نہیں تھی۔اس المناک واقعے کے نتائج نہ صرف خود اس کے گھروالوں بلکہ آبائی وطن کے لئے بھی شدید مقصان دہ ہوں گے۔

رحیم اللہ یوسف زئی
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں