پاکستان کیلئے امریکی لب و لہجہ بدل گیا

پاکستان کیلئے امریکی لب و لہجہ بدل گیا
pak-usپاکستان کو امریکی دوستی اور مبینہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صفِ اول کا ساتھی ہونے پر بڑا فخر ہے جبکہ امریکی اقدام اور پالیسیوں سے محسوس ہوتا ہے کہ امریکا پاکستان کا دوست ہے اور نہ ہی حامی بلکہ طاقت کے بل بوتے پر وہ پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کررہا ہے اور ہم ہیں کہ کبھی خوف اور کبھی لالچ میں اس کی غلامی میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔ 8مئی 2010ئ کو امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران ایک مرتبہ پھر پاکستان کو دھمکی دی ہے کہ اگر ٹائمز اسکوائر جیسے واقعات پھر ہوئے تو پاکستان کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان ماضی میں امریکا کے ساتھ دوہری پالیسی پر عمل کرتا رہا ہے۔ انٹرویو میں امریکی وزیر خارجہ نے جو لہجہ اور زبان استعمال کی ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے پاکستان کے خلاف نئی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ٹائمز اسکوائر پر ناکام حملہ اسی سازش پر عملدرآمد کی کوشش کا آغاز ہے۔

دوسری جانب ہمارے حکمرانوں، بعض سیاسی قائدین، صحافیوں، سماجی رہنمائوں اور مغرب زدہ عوام کے ایک مخصوص طبقے کو آج بھی امریکی یاری پر ناز ہے اور یہ لوگ امریکا کے خلاف کچھ سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کی اس دھمکی سے ایک روز قبل پاکستان کے بعض اخبارات میں یہ خبر بھی شائع ہوئی کہ 2مئی 2010ئ کو امریکی شہر نیو یارک کے علاقے ٹائمز اسکوائر میں بارود سے بھری گاڑی کے پکڑے جانے اور اس میں مبینہ طور پر پاکستان نژاد امریکی شہری فیصل شہزاد کی گرفتاری کے بعد امریکی حکومت نے پاکستانی علاقوں میں نہ صرف ڈرون حملوں میں اضافہ بلکہ بغیر کسی شناخت کے حملے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل ہونے والے ڈرون حملوں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ حملے سخت جاسوسی اور درست معلومات کے حصول کے بعد مخصوص افراد اور اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرون حملوں میں القاعدہ اور طالبان کے کئی اہم رہنما نشانہ بنے تاہم ان حملوں کا نشانہ بننے والوں میں اکثریت بچوں، عورتوں اور عام لوگوں کی تھی۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے ہماری حکومت میڈیا اور قیادت اس حد تک بے حس اور عاری ہوچکی ہے کہ اب ان پر احتجاج کرنے یا لکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی۔ پہلے ان حملوں کی خبریں شہ سرخیوں کے ساتھ شایع ہوتی تھیں، اب پرنٹ میڈیا میں 2 یا زیادہ سے زیادہ 3 کالم جب الیکٹرونک میڈیا میں چوتھے اور پانچویں درجے کی خبر بن جاتی ہے جبکہ حکومت نے تو ان حملوں کے خلاف رسمی احتجاج تک کرنا ترک کردیا ہے بلکہ ڈرون حملوں کے حوالے سے اگر کوئی سوال کیا جائے تو حکومتی ذمہ دار ناراض ہوجاتے ہیں جبکہ میڈیا کے بعض افراد اس حوالے سے سوالات کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ جمعہ 7 مئی کی شب گورنر ہائوس سندھ میں تیسرے برانڈز ایوارڈز 2009ئ کی تقریب کے موقع پر راقم نے جب وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی سے فیصل شہزاد کی گرفتاری کے بعد ڈرون حملوں میں اضافے کے حوالے سے سوال کیا تو وزیراعظم نے سوال مکمل ہونے سے قبل ہی سوالیہ انداز میں راقم سے کہا: ’’کیا امریکا نے آپ کو بتایا ہے۔‘‘ جس پر راقم یہ جواب دے سکتا تھا کہ ’’جی!. اپنے عمل کے ذریعے.‘‘ مگر عزتمآب وزیراعظم کے مقام و مرتبے کا پاس رکھا اور صرف اتنا عرض کیا: ’’اس کا حوالہ پہلے ہی دے چکا ہوں۔‘‘
پھر وزیراعظم صاحب نے راقم کے سوال کا کوئی واضح جواب دینے کی بجائے یہ فرمایا کہ امریکا کو اس حقیقت کا اندازہ ہوچکا ہے کہ اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم کتنے شریک ہیں اور یہ پوری دنیا بھی جانتی ہے۔ ڈرون حملوں میں اضافے کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں اور اخبار میں شائع ہونے والی ہر خبر درست نہیں ہوتی ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم نے اپنی تقریر میں معروف صحافی زاہد ملک کی تقریر کے ایک نکتے کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ جس کا اعتراف امریکی صدر بارک حسین اوباما سمیت ساری دنیا کرچکی ہے۔ وزیراعظم نے اس موقع پر یہ شعر بھی پڑھا:
غیروں سے سنا تم نے، غیروں سے کہا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

ایک طرف ہمارے حکمران، سیاستدان اور بعض مغرب زدہ افراد امریکا کی خوشامد میں لگے ہوئے ہیں، خوف یا لالچ کی وجہ سے ایک لفظ بھی امریکا کے خلاف کہنے اور سننے کے لیے تیار نہیں، دوسری طرف یہی لوگ پاکستان کی اخلاقی، نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظ ہونے کے دعویدار بنتے ہیں۔
ہماری بدقسمتی کا آغاز قیام پاکستان کے فوری بعد اس وقت ہوا جب ہم نے امریکا کو اپنا اتحادی سمجھا اور اپنی خارجہ پالیسی کا محور امریکی خوشنودی کو بنایا، پھر کیا تھا کہ پاکستان کے در و دیوار کو پاک امریکا دوستی کے نعروں سے بھردیا گیا جس نے اس کی مخالفت کی اس کو ملک دشمن اور دقیانوس قرار دیا۔ پھر آہستہ آہستہ امریکا اور اس کے حواریوں نے ہماری اخلاقی سرحدوں کو مسمار کردیا اور امریکیوں نے یہاں تک کہا کہ پاکستانی چند ڈالر کے عوض اپنی ماں کو بھی فروخت کرسکتے ہیں۔ 9/11 کے بعد تو ہماری جغرافیائی سرحدیں بھی منہدم کردی گئیں۔ پہلے ہم نے لاجسٹک سپورٹ کے نام پر شہباز ائیر بیس، شمسی ائیر بیس اور دیگر ہوائی اڈے تھالی میں رکھ کر امریکا کو پیش کردیے۔ جن سے امریکی طیارے پرواز کرکے افغانستان کے ان مسلمانوں بھائیوں اور بہنوں کو نشانہ بناتے جو پاکستان کو اپنا دوسرا گھر اور پاکستانیوں کو ہر حوالے سے اپنا بھائی سمجھتے تھے۔ اس جنگ میں صف اول کے امریکی اتحادی ہونے پر ہمیں آج بھی فخر ہے جس میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ہم نے صرف ہوائی اڈے امریکا کو استعمال کے لیے نہیں دیے بلکہ کراچی کی بندرگاہ سے افغانستان کی سرحد تک محفوظ راہداری بھی دی بعض اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق نیٹو افواج کے لیے جو سامان کراچی پورٹ پر اترتا ہے نہ صرف وہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہے بلکہ اس حصے کا ٹیکس بھی پاکستانی عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔
امریکی اتحادی ہونے کا صلہ ہمیں ملک میں دہشت گردی کے واقعات اور بد امنی کی صورت میں ملا جبکہ ہم نے اپنی ناکام اور غلط پالیسی کی وجہ سے امریکی جنگ کو اپنی جنگ بنایا، میڈیا کے مطابق اس جنگ میں پاکستان کے 2273 فوجی جوان اور 78 اعلیٰ فوجی افسران جاں بحق ہوچکے ہیں۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو خود حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں جبکہ عوام کا ان اعداد و شمار پر اعتبار نہیں ہے۔ معاشی طور پر اس جنگ کے باعث ہم آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور امریکا کے غلام بن چکے ہیں۔ بجلی، گیس، پیٹرول اور دیگر اشیائ کی قیمتوں میں اضافہ ہو یا ٹیکسوں کا نفاذ انہی اداروں کے اشاروں پر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود امریکا ہمیں دھمکیاں اور طعنے تشنے دے رہا ہے۔ ہمارے خلاف نت نئی سازشیں بُن رہا ہے اور ہمارے صدر، وزیراعظم، سیاسی قیادت اور عاقبت نااندیش مغرب زدہ طبقہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ امریکا ہمارا دوست ہے۔ امریکا سے دوستی کے بعد پاکستان کے قبائل میں 138ڈرون حملے ہوچکے ہیں۔ 9/11 کے بعد بارک اوباما کے دور تک 45 ڈرون حملے ہوئے۔ 2009ئ میں 51 اور 2010ئ ابتدائی 4 ماہ میں 42 ڈرون حملے ہوچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2009ئ میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے ڈرون حملوں کے حوالے سے مشترکہ قرار داد منظور کی اور ان حملوں کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا مگر اس قرار داد کی منظوری کے بعد 111 سے زاید ڈرون حملے ہوئے اور موجودہ حکومت کے سوا سال کے دور میں ڈرون حملوں کی تعداد 125 سے زائد بتائی جاتی ہے۔ نیو یارک کے علاقے ٹائمز اسکوائر کے باہر ناکام مبینہ کار بم حملے کے بعد امریکا نے ان حملوں میں مزید اضافہ کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔ ہیلری کلنٹن کی سنگین نتائج کی دھمکی اسی سلسلے میں ہے اور بعض ذرائع تو یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ ڈرون حملوں کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخواہ کے بندوبستی اور صوبہ بلوچستان کے بعض علاقوں تک بڑھانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری قیادت ان حملوں کو روکنے کے لیے کسی پیش بندی کرنے کی بجائے صرف ڈالر بٹورنے میں دلچسپی لیتی نظر آتی ہے جبکہ ملک کی سیاسی اور مذہبی قیادت بھی اس نازک موقع پر اتحاد و یکجہتی کی بجائے اختلافات میں الجھی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں قیادت کا شدید فقدان ہے اگرچہ قیادت کے دعویدار درجنوں میں ہیں۔ ان میں ایک اور دعویدار بھی شامل ہونے کو جارہے ہیں، یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے اس ملک کی سلامتی کو ہر سطح پر دائو پر لگایا صرف اپنی کرسی اور ڈالروں کے لیے جس کا اعتراف وہ خود اپنی کتاب میں کرچکے ہیں یہ وہ حضرت ہیں کہ جنہوں نے قوم کی بیٹی کا سودا بھی 5 ہزار ڈالر میں کر ڈالا تھا۔ جی ہاں! سابق صدر جنرل ﴿ریٹائرڈ﴾ پرویز مشرف جنہوں نے 7 مئی 2010ئ کو یہ اعلان کیا کہ وہ اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ملکی سیاست میں اور آیندہ عام انتخابات میں بھر پور حصہ لینگے۔ پاکستان میں پرویز مشرف نے جو کچھ اپنے دورِ حکومت میں بویا ہے اس کے بعد اس ملک میں ان کی سیاست تو کیا ان کا نام تک لینا جرم بن چکا ہے۔ بلوچ ہوں کہ قبائل، مذہبی طبقہ ہو کہ عوامی سیاسی قوتیں، سب پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کے لیے موقع کی تلاش میں ہیں۔ پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا یہ پیغام ہی کافی ہے کہ ’’میں اور مشرف راجہ بازار بغیر سیکورٹی کے جاتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ عوام سر کا تاج اور پائوں کی جوتی کس کو بناتے ہیں اور کس کے کپڑے اور جسم کو نوچتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اس چیلنج کا جواب آج تک پرویز مشرف اور ان کے ساتھی نہیں دے سکے ہیں اور شاید ایسی جرأت کبھی نہیں کرپائیں گے۔ یوں تو یکم مئی 2010ئ کے بعد کراچی میں سیاسی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہوا، سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد، مسلم لیگ ﴿ق﴾ کے مشاہد حسین، چودھری وجاہت حسین، امیر مقام، پرویز مشرف کے قریبی ساتھی راشد قریشی، بیرسٹر سیف اور دیگر کافی سرگرم رہے۔ انہوں نے کئی لوگوں سے ملاقاتیں کیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض قوتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ﴿ن﴾ کے خلاف محاذ بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور حالات اگلے ماہ جون 2010ئ کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں مزید اضافے کے امکانات ظاہر کررہے ہیں۔ اگر امریکی دھمکی اور ان پٹے ہوئے سیاسی مہروں کی سرگرمیوں اور پرویز مشرف کے سیاست اور انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان کو ملاکر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ بعض قوتیں موجودہ سیاسی نظام کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کے لیے تیاری کررہی ہیں۔ اس لیے بعض مبصرین 2010ئ کے بجٹ کی منظوری کے بعد کے حالات کو کافی اہم قرار دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ محب وطن عوام اور قیادت پاکستان اور جمہوری نظام کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔

عبدالجبار ناصر


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں