افغانستان ۔ آنے والے دن سخت ہوں گے!

افغانستان ۔ آنے والے دن سخت ہوں گے!
afghanistan-american-army-attack”افغانستان میں آنے والے دن انتہائی سخت ہوں گے۔ طالبان کو قندھار سے نکالنے کے لیے منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ قندھار شہر کے نواح میں کیا جانے والا آپریشن روایتی نہیں ہوگا۔“ یہ الفاظ امریکا کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ”جنرل ڈیوڈ پیٹریاس“ کے ہیں۔

گزشتہ ہفتے انہوں نے انتہائی سخت سیکیورٹی میں افغانستان کے چند شہروں کا خفیہ دورہ کیا۔ آخر میں قندھار کی صورتِ حال کا تفصیلی جائزہ لیا۔ واپسی پر انہوں نے نیوز پریس کانفرنس میں اعتراف کیا: ”قندھار میں سیکیورٹی کی صورتِ حال بگڑتی جارہی ہے۔ آنے والے ہفتوں میں تکلیف دہ لمحات آئیں گے۔ قندھار کے رہائشیوں کو سخت مسائل کے لیے تیار رہنا ہوگا کیونکہ آپریشن کی صورت میں طالبان کی طرف سے سخت مزاحمت متوقع ہے۔ تمام مشکلات کے باوجود نیٹو فورسز اور افغان فوج مشترکہ فیصلہ کن آپریشن کرے گی۔ قندھار آپریشن کا مقصد طالبان کو اس شہر سے نکالنا ہے۔ امریکا اپنی تمام طاقت اس آپریشن میں جھونک دے گا۔ قارئین! آج سے ٹھیک چار ماہ پہلے امریکا نے طالبان کے دوسرے بڑے مرکز ہلمند پر شب خون مارا تھا۔ ”مرجع“ پر یورپی طاقت سے وار کرنے سے پہلے بھی اس طرح کا اعلان کیا تھا۔ امریکا بہادر نے اپنے اتحادیوں سمیت اس عزم کا اعلان کیا تھا طالبان کے مضبوط گڑھ ہلمند سے بہرصورت صفایا کردیا جائے گا۔ اپنے اس عزم کی پختگی اور اس پر عملدرآمد کا بڑا زور وشور سننے میں آتا رہا۔ امریکا سے آنے والے تازہ دم تیس ہزار فوج میں سے دستوں کا انتخاب کیا گیا۔ اتحادیوں کو فتح اور کامیابی کا مژدہ سنایا گیا۔ 15 ہزار افراد کو چار سو طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے حصار میں ہلمند روانہ کیا گیا۔ یہ مشترکہ افواج اعلان کرچکی تھی اس علاقے سے طالبان کا صفایا کردیا جائے گا، لیکن تمام طاغوتی قوتیں مل کر بھی طالبان کا صفایا نہ کرسکیں۔ البتہ امریکا، برطانیہ، کینیڈا، سویڈن، جرمنی، اسپین وغیرہ کو ناقابلِ تلافی جانی ومالی نقصان اُٹھانا ضرور پڑا۔
باوثوق ذرائع کے مطابق 15 جنوری سے 15 فروری تک ہلمند آپریشن شروع کرنے کے پہلے ایک مہینے میں مرنے والوں کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق 877 ہے۔ یہ اعداد وشمار وہ ہیں جن کی لاشیں خوبصورت تابوتوں میں لپیٹ کر اپنے ہوائی اڈوں پر اُتری تو ان کو سیلوٹ کرنے ان کو بڑے حاضر تھے۔ 16/ فروری سے 15 مارچ تک حالات زیادہ خوفناک تھے۔ امریکی واتحادی افواج میں سے جن کے تابوت اپنے گھروں کو لوٹے ہیں، وہ 1391 ہیں۔ امریکی واتحادی تباہ شدہ فوجی گاڑیوں کی تعداد 141 ہے۔ بکتر بند اور ٹینکوں کی تعداد 342 ہے۔ ٹرک اور آئل ٹینکرز 51 ہیں۔ ہیلی کاپٹر اور طیارے 7 ہے۔ جاسوس طیارے 5 ہیں۔ امریکی واتحادیوں کی کل تعداد تقریباً 2268 ہے۔ دورانِ تحریر میرے سامنے انگلش، عربی اور اُردو رپورٹس کا پلندہ ہے۔ جس میں 2001ء سے لے کر مارچ 2010ء تک افغانستان میں مرنے والی امریکی فوجیوں کی تعداد ہے۔ عرق ریزی سے جمع کیا تو جو ہندسے سامنے آئے وہ کچھ یوں تھے۔ کل امریکی آرمی 7374، امریکی نیو 176، میرین 1686، ایرفورس 260۔ یہ کل تعداد 9496 بنتی ہے۔ اس کے علاوہ زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد کا شمار نہیں۔ باقی صحیح سلامت بچ جانے والے فوجی وسیکیورٹی اہلکار شدید نفسیاتی دباؤ میں ہیں۔ امریکی عوام کی طرف سے جنگ ختم کرنے کا مطالبہ زور پکڑچکا ہے۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق اوباما کی مقبولیت میں 55 فیصد کمی آچکی ہے، کیونکہ اس نے اپنی الیکشن مہم کے دوران پوری دنیا کو بدلنے اور جنگیں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن آج کی دنیا پہلے سے زیادہ خوفناک ہوچکی ہے۔ افغانستان کے حالات بد سے بدترین ہی ہوتے چلے جارہے ہیں۔ امریکی واتحادی افواج بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ بدحواسی کے عالم میں طالبان سے زیادہ افغان عوام اور نہتے شہریوں پر بم برسارہی ہے۔ آپ اس بات سے اندازہ لگائیے اتحادی فوجی اس قدر خوفزدہ ہیں وہ اپنے ٹارگٹ تک کو صحیح نشانہ نہیں بناپارہے۔ 14 اور 15 فروری کو اتحادی طیاروں نے 17 بے گناہ، معصوم اور عام شہریوں کو نشانہ بناڈالا۔ ”ایمنسٹی انٹرنیشنل“ جیسے اداروں کا کہنا ہے مشترکہ آپریشن میں طالبان سے زیادہ عام شہری نشانہ بن رہے ہیں۔ جس پر اتحادی فوج کے کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کو معذرت بھی کرنا پڑی۔ گویا طالبان پہلے سے زیادہ منظم انداز میں لڑرہے ہیں۔ انہوں نے شہر کے تمام داخلی راستوں پر بارودی سرنگیں بچھارکھی ہیں۔ اندرون شہر حساس علاقوں میں بھی بارودی سرنگوں کا جال بچھا ہے۔ خود ساختہ بموں سے امریکی واتحادیوں کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف اتحادی فوجوں کا یہ عالم ہے وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کررہی ہیں۔ اس کے باوجود وہ مٹھی بھر طالبان پر کنٹرول حاصل نہیں کرپا رہیں۔
مزید یہ کہ افغانستان کے کئی گروہ اور دھڑے طالبان کے ساتھ مل رہے ہیں، خبر کے مطابق 25/ افغان پولیس اہلکار جو اتحادی افواج کے شانہ بشانہ لڑرہے تھے وہ طالبان سے جاملے ہیں۔ انہوں نے اپنا اسلحہ اور سامان بھی طالبان کے حوالے کیا اور طالبان کے ساتھ مل کر اتحادیوں کے خلاف لڑنے کا اعلان کردیا۔ یہ رپورٹ انتہائی حیران کن ہے۔ 20 فروری کو افغان پارلیمنٹ کے اسپیکر صبغت اللہ مجددی نے طالبان کی حمایت میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جس کی وجہ سے امریکی واتحادی پریشان ہیں۔ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن انہیں انخلا کا کوئی باعزت راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے نیٹو میں شامل 28 ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس مشرقی یورپ کے ملک ”اسٹونیا“ کے شہر ٹالین میں ہوا۔ اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ سمیت تمام وزرائے خارجہ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ رواں سال افغانستان میں سیکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا آغاز کردیا جائے گا۔

انور غازی
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں