حدیث مدینہ

حدیث مدینہ
madina_22(علامہ سید ابوالحسن ندوی کی اس عربی تقریر کا ترجمہ جو سنہ 51 میں حجاز و مصر و شام کی واپسی پر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے “فی معهد الرسول” کے عنوان سے نشر کی گئی تهی. ان تقریروں کا ترجمہ “شرق اوسط میں کیا دیکها” کے نام سے مشیرالحق صاحب بحری آبادی کے قلم سے سنہ 52 میں شائع ہوا تها. یہ مضمون خفیف ترمیم کے ساتهـ اسی مجموعہ سے ماخوذ ہے)

لوگوں نے مجهـ سے فرمائش کی ہے کہ کچهـ حجاز کی باتیں کرو، جو کچهـ وہاں دیکها ہے وه ہمیں بهی دکهاؤ. مجهے یہ فرمایش بسر و چشم قبول ہے:
ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے
مجهے وه دن یاد نہیں جب مکہ اور مدینہ کا نام میرے لیے نیا تها اور وه پہلا دن تها جب میں نے رسول الله صلی الله علیه وسلم کی جاۓ پیدائش او اسلام کے گہوارے رسول صلی الله علیه وسلم کے شہر دارالہجرت کے بارے میں کچهـ سنا ہو.
میں نے تمام مسلمان بچوں کی طرح ایک ایسے ماحول میں پرورش پائ جہاں حجاز اور ان دونوں متبرک شہروں کا تذکرہ ہوتاہی رہتا ہے. مجهے اچهی طرح یاد ہے کہ لوگ تیزی میں اکثر “مکہ مدینہ” کہتے تهے گویا وه ایک ہی شہر کا نام ہے. وہ لوگ جب بهی ان میں سے کسی شہر کا ذکر کرتے تو دوسرے کا بهی ضرور ذکر کرتے. انهیں باتوں سے میں یہ سمجهتا کہ یہ دونوں ایک شہر کے نام ہیں، مجهے اس فرق کی تمیز اس وقت ہوئ جب میں کچهـ بڑا ہوگیا اور مجهے کچهـ عقل آگئی، اس وقت مجهے معلوم ہوا کہ دونوں الگ الگ مستقل شہر ہیں اور ان کی درمیانی مسافت کچهـ کم نہیں ہے.
میں نے بچپن میں جس طرح لوگوں کو جنت اور اس کی نعمتوں کا بڑے شوق شوق سے ذکر کرتے ہوۓ سنا اسی طرح حجاز اور اس کے دونوں شہروں کا تذکرہ بهی سنا تها. جنت کو حاصل کرنے اور حجاز کو دیکهنے کی تمنا اسی وقت سے میرے دل میں کروٹیں لینے لگی تهی.
جب میں کچهـ بڑا ہوا اور مجهے معلوم ہوا کہ جیتے جی جنت کو دیکهنا ممکن نہیں ہے. ہاں حجاز تک رسائ ممکن ہے، حجاج کے قافلے برابر آتے جاتے ہیں، تو میں نے کہا کہ پهر ایمان کی اس جنت کی سیر کیوں نہ کی جاۓ. دن پر دن گزرتے گۓ اور میں بڑهتا گیا، جب میں نے رسول الله صلی الله علیه وسلم کی سیرتِ مبارکہ اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا تم میرا پرانا شوق تازہ ہوگیا. تهپکی دے دے کر سلائ ہوئ تمنائیں جاگ گئیں اور میں دن رات حج و زیارت کی تمنا میں رہنے لگا.
پهر ایسا ہوا کہ میں اس جگہ آپہونچا جس کی سرزمین پر نہ تو سبزہ کا فرش ہے اور نہ اس کی گود میں ندیاں کهیلتی ہیں. اس کے چاروں طرف جلے ہوۓ پہاڑ کهڑے پہره دے رہے ہیں لیکن بقول حفیظ:
نہ اس میں گهاس اگتی ہے نہ اس میں پهول کهلتے ہیں
مگر اس سرزمیں سے آسماں بهی جهک کے ملتے ہیں
جب میں نے حسن ظاہری سے خالی یہ سرزمین دیکهی تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ شہر مناظر سے کتنا تہی دست ہے لیکن ساتهـ ہی ساتهـ میں نے یہ بهی سوچا کہ اس شہر نے انسانیت اور تمدن پر کتنا بڑا احسان کیا ہے، اگر یہ شہر جس کا دامن گلکاریوں سے خالی ہے روۓ زمین پر نہ ہوتا تو دنیا ایک سونے کا پنجرا ہوتی اور انسان محض قیدی! یہی وه شہر ہے جس نے انسان کو دنیا کی تنگناۓ سے نکال کر وسعتوں سے آشنا کیا. انسانیت کو اس کی کهوئ ہوئ سرداری اور چهینی ہوئ آزادی دلائ، اسی شہر نے انسانیت پر لدے ہوۓ بهاری بوجهوں کو اتارا، اس کے طوق و سلاسل کو جدا کیا جو ظالم بادشاہوں اور نادان قانون سازوں نے ڈال رکهے تهے.
جس وقت میں نے یہ سوچا… اگر یہ شہر نہ ہوتا؟ اسی وقت میرےدل میں یہ خیال آیا کہ میں دنیا کے بڑے بڑے شہروں کا اس شہر سے موازنہ کروں اور دیکهوں کہ اگر یہ شہر نہ ہوتے تو دنیا میں تمدن اور انسانیت میں کیا کمی ہوتی! میرے سامنے ایک ایک شہر آۓ اور میں نے دیکها کہ یہ تمام شہر مٹهی بهر انسانوں کے لیے زنده اور آباد تهے. انهوں نے انسانیت اور تمدن کے مجرم رہے ہیں، اپنے ذرا سے فائدے کے لیے بارہا ایک شہر نے سیکڑوں شہروں کو بےچراغ کردیا. ایک قوم نے بہت سی قوموں کو اپنی خوراک بنالیا. کتنی بار چند آدمیوں کی وجہ سے ہزاروں لاکهوں انسان برباد ہوگۓ گۓ. یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے نقشے پر اگر یہ شہر نہ ہوتے تو انسانیت و تمدن کا کچهـ نہ بگڑتا اور دنیا میں کوئ بڑی کمی نہ ہوتی.
لیکن اگر مکہ نہ ہوتا تو انسانیت ان معانی و حقائق، اخلاق و عقائد اور علوم و فضائل سے تہی دست ہوتی جو اس کا سب سے قیمتی سرمایہ اور اس کا سب سے بڑا حسن ہیں، اس کی بدولت دنیا نے ایمان کی اس لازوال دولت کو پهر سے پایا جسے لوگ ضائع کرچکے تهے. عالم نے اس صحیح علم کو پایا جو ظن و تخمین کے پردوں میں چهپ چکا تها وه عزت دنیا کو دوباره ملی جو سرکشوں اور ظالموں کے ہاتهوں پامال ہوچکی تهی. سچ تو یہ ہے کہ یہاں انسانیت نے جنم لیا اور تاریخ نۓ سرے سے ڈهل کر نکلی.
لیکن مجهے کیا ہوا ہے جو میں کہتا ہو “اگر مکہ نہ ہوتا…؟” اگر مکہ نہ ہوتا تو کیا ہوجاتا؟ مکہ تو اپنے خشک پہاڑوں، ریتلے ٹیلوں بلکہ خانہ کعبہ اور زمزم کے متبرک کنویں کو اپنی گود میں لیے ہوۓ چهٹی صدی مسیحی تک برابر سوتا رہا رہے اور انسانیت سسکتی اور دم توڑتی رہی ہے، لیکن اس نے مدد کا کوئ ہاتهـ نہ بڑهایا.
مکہ اس وقت تک خشک پہاڑوں اور ریتلے ٹیلوں سے گهرا ہوا، دنیا سے الگ تهلگ اس طرح زندگی کے دن کاٹ رہا تها گویا انسانیت کے کنبے سے اس کا کوئ جوڑ نہ تها. دنیا کے نقشے سے الگ تها.
اسلیے مجهے یہ کہنا چاہیے کہ مکہ نہیں بلکہ مکہ کا وه عظیم الشان فرزند اگر نہ ہوتا جس نے تاریخ کے رخ کو بدل دیا، زندگی کے دهارے کو موڑ دیا اور دنیا کو ایک نیا راستہ دکهایا تو دنیا کا یہ نقشہ نہ ہوتا.
یہ سوچتے سوچتے میری آنکهوں کے سامنے چند مناظر پهر گۓ. مجهے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے قریش کا سردار تن تنہا خانہ کعبہ کا طواف کررہا ہے، لوگ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں، اس سے بدزبانی کررہے ہیں، لیکن وه انتہائ اطمینان کے ساتهـ طواف کررہا ہے.
جب وہ طواف ختم کرتا ہے تو خانہ کعبہ میں داخل ہونا چاہتا ہے لیکن خانہ کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ اسے سختی سے روکتے ہیں، سردار صبر سے کام لیتا ہے اور کہتا ہے عثمان وہ دن بهی کیا ہوگا جب یہ کنجی میرے ہاتهـ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا اسے دوں گا؛ عثمان کہتے ہیں: اس دن کیا قریش ختم ہوچکے ہوں گے؟ وه جواب دیتا ہے: “نہیں بلکہ اس دن انہیں حقیقی عزت ملے گی”.
پهر میں نے دیکها کہ وہی سردار فتح مکہ کے دن خانہ کعبہ کا طواف کررہا ہے، اس کے وه ساتهی جنهوں نے اپنے کو اس پر قربان کردیا تها، اس کے اردگرد پروانہ وار ہورہے ہیں، اس وقت وه کعبہ کے کلید بردار کو بلاتا ہے اور کہتا ہے “عثمان! لو یہ تمهاری کنجی ہے، آج کا دن نیکی اور ایفاۓ عہد کا دن ہے”.
تاریخ شاہد ہے کہ وه شخص صرف اس کنجی کا مالک نہیں ہوا جس سے وه خانہ کعبہ کے دروازے کو کهول سکتا تها بلکہ اس کے پاس وه کنجی بهی تهی جس سے وه انسانیت کے ان تالوں کو بهی کهول سکتا تها جو کسی حکیم اور فلسفی سے اس وقت تک نہیں کهل سکے تهے. یہ کنجی قرآن کریم ہے جو اس پر نازل کیاگیا. رسالت ہے جو اسے سوپنی گئی جو انسانیت کی ساری گتهیوں کو سلجها سکتهی ہے اور ہر زمانہ کی مشکلات کا حل پیش کرتی ہے.
حج کے بعد میں اپنے شوق کے پروں پر اڑتا ہوا مدینہ منوره کی طرف چلا. محبت اور وفا کی کشش مجهے مدینہ منوره کی طرف بےساختہ کهینچ رہی تهی. راستہ کی زحمتوں کو میں رحمت سمجهـ رہا تها اور میری نگاه کے سامنے اس پہلے مسافر کا نقشہ گهوم رہا تها جس کا ناقہ اسی راستے سے گیا تها اور اس راستہ کو اپنی برکتوں سے بهر دیاتها.
جب میں مدینہ منورہ پہونچا تو سب سے پہلے میں نے مسجد نبوی میں دو رکعت نماز ادا کی اور سعادت کے نصیب ہونے پر اللہ کا شکر ادا کیا، پهر میں آپ صلی الله علیه وسلم کے سامنے حاضر ہوا، میں آپ صلی الله علیه وسلم کے ان احسانات کے نیچے دبا ہوا تها جن سے عہده برآ ہونا ممکن نہیں. میں نے آپ صلی الله علیه وسلم پر درود و سلام پڑها اور گواہی دی کہ بےشک آپ صلی الله علیه وسلم نے الله کا پیغام کما حقہ پہونچا دیا، الله تعالی کی طرف سے سونپی ہوئ امانت کو پورا پورا ادا کردیا، امت کو سیدهی راه دکهائ اور الله کی راه میں دم واپسیں تک پوری پوری کوشش کی. اس کے بعد میں نے آپ صلی الله علیه وسلم کے دونوں محترم دوستوں کو سلام کیا. یہ دونوں ایسے دوست ہیں جن سے بڑهـ کر مصاحبت کا حق ادا کرنے والا تاریخ انسانی میں نظر نہیں آتا اور نہ کوئ ایسا جانشیں دکهائ دیتا ہے جس نے ان سے زیاده اچهی طرح جانشینی کے فرائض کو ادا کیا ہو.
درود و سلام سے فارغ ہوکر میں جنت البقیع کی طرف گیا. یہ زمین کا ایک چهوٹا سا قطعہ ہے جہاں صدق و صفا، مہر و وفا کا انمول خزانہ دفن ہے:
دفن ہوگا نہ کہیں ایسا خزانہ ہرگز
یہیں وه لوگ سورہے ہیں جنهوں نے آخرت کے لیے دنیا کی زندگی کو تج دیا، یہ وه لوگ ہیں جنهوں نے اپنے یقین اور اپنے دین کی خاطر وطن پر غریب الوطنی کو ترجیح دی. انهوں نے رسول صلی الله علیه وسلم کے قدموں پر پڑے رہنے کے لیے رشته داروں اور دوست احباب کے پڑوس کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا.
رجال صدقوا ما عاهدوا الله علیه.   بعض لوگ ایسے ہیں جنهوں نے الله سے جو عہد کیا سچا کر دکهایا.
یہاں سے فارغ ہوکر میں احد کی طرف گیا. احد وه پاک اور دلکش سرزمین ہے جہاں محبت و وفاداری کا سب سے دلکش منظر دیکهنے میں آیا. اسی میدان میں انسانی تاریخ نے ایمان و یقین کو جیتے جاگتے کرداروں کی شکل میں دیکها. یہیں سے بہادری اور شجاعت کے الفاظ لغت کو میسر ہوۓ، اسی خطہ نے پاک محبت اور نادر دوستی کا نمونہ دنیا کو دکهایا، یہاں پہونچ کر مجهے ایسا محسوس ہوا جیسے میں انس بن نضر رضی الله عنه کو یہ کہتے ہوۓ سن رہا ہو ” مجهے احد پہاڑ کے اسی طرف سے جنت کی خوشبو آرہی ہے” مجهے کچهـ ایسا محسوس ہوا جیسے سعد بن معاذ رضی الله عنه آنحضرت صلی الله علیه وسلم کی خبر شہادت سن کر کہہ رہے ہوں” اب آپ کے بعد جنگ و جہاد کا کیا لطف؟” – اور انس رضی الله عنه بول اٹهے ہوں – لیکن آپ کے بعد زندگی کا بهی کیا مزا؟”
اسی احد پہاڑ کی گود میں حضرت ابودجانہ رضی الله عنه نے اپنی پشت کو آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے لیے ڈهال بنادیا تها. تیر ابودجانہ رضی الله عنه کی پشت کو چهید رہے تهے لیکن انهیں جنبش بهی نہ ہوتی تهی. اسی جگہ حضرت طلحہ رضی الله عنه نے آنحضرت صلی الله علیه وسلم پر برسنے والے تیروں کو اس طرح اپنے ہاتوں پر لیا کہ ہاتهـ شل ہوکر رہ گیا. اسی میداں میں حضرت حمزہ رضی الله عنه شہید ہوۓ او ان کے ٹکڑے کردیے گۓ. مصعب بن عمیر رضی الله عنه جو قریش کے بڑے نازپروردہ نوجوان تهے اسی جگہ اس حالت میں شہید ہوۓ کہ ان کے لیے کفن بهی میسر نہ تها. ایک کمبل تها جس سے اگر سر چهپایا جاتا تو پیر کهل جاتے پیر ڈهانکے جاتے تو سر برہنہ ہوجاتا.
اے کاش احد دنیا والوں کو اپنی اس محبت کے خزانے سے کچهـ دیتا، اور کاش آج دنیا کو اس پچهلے ایمان اور یقین کا کوئ ذره بهی نصیب ہوجاتا. اگر ایسا ہوجاۓ تو اس دنیا کی قسمت بدل جاۓ اور یہ دنیا جنت بن جاۓ.
لوگوں نے مجهـ سے کها کہ تم نے همیں قاہره کی سیر کرائ اور وہاں کی اہم شخصیتوں سے تعارف کرایا، تم نے دمشق اور اہل دمشق کی باتیں سنائیں اور وہاں کے علماء سے ملایا، تم ہمیں شرق اوسط لےگۓ اور وہاں کی سیر کرائ. اب حجاز اور حجاز کی نمایاں شخصیتوں کا بهی تعارف کراؤ. لیکن میں کیا کرو، حجاز کی تو ایک ہی ہستی ہے جس کی باتیں کیے جایۓ، جس کی وجہ سے حجاز، حجاز ہے، اور عالم اسلام، عالم اسلام ہے:
آبروی ما زنام مصطفی است
سورج کے سامنے ستاروں اور چراغوں اور اس کی روشنی سے روشن ہونے والے ذروں کا کیا ذکر، بس یہی حجاز کی کہانی ہے اور یہی حجاز کا تعارف!
ما آنچہ خوانده ایم فراموش کرده ایم
اما حدیث دوست کہ تکرار می کنیم

مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمه الله
کاروان مدینہ ، ص 184- 173

آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں