عربی لغت کے امام “فیروز آبادی” کی حیات پر ایک نظر

عربی لغت کے امام “فیروز آبادی” کی حیات پر ایک نظر
firoozabadسرزمین فارس کے ایک نامور عبقری مفسر، فقیہ، محدث، ادیب، تاریخ دان، عربی لغت کے امام اور متعدد معروف تصانیف کے مصنف مجدالدین ابوطاہر شیرازی فیروزآبادی ہیں۔ اس مختصر میں آپ کے سوانح عمری کا احاطہ تو مشکل ہے، البتہ ان کی بابرکت زندگی کے کچھ صفحات پیش خدمت ہیں۔

آپ کا نام ونسب
آپ کا نام محمد بن یعقوب بن ابراہیم بن عمر، کنیت ابوطاہر ہے۔ مجدالدین فیروز آبادی کی نسبت ،،فیروز آباد،، شہر کی طرف ہے جو شیراز کے جنوب میں واقع ہے۔ آپ کے والد اور دادا کا تعلق فیروز آباد سے تھا۔
فیروز آباد فارس کے ایک چھوٹے شہر کا نام ہے۔ شیراز کے قرب میں واقع اس شہر کا نام پہلے “جور” تھا جسے عضد الدولۃ نے تبدیل کردیا۔ اس شہر کے بارے میں یاقوت نے لکھا ہے: جور (فیروز آباد) خوبصورت اور سرسبز علاقہ ہے۔ عجمی لوگ اسے “گور” کہتے ہیں جس کا مطلب قبر ہے۔ عضد الدولۃ بن بْویہ سیر وتفریح کے لیے اکثر اس شہر کا رخ کرتے تھے تو لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ “ملک بہ گور رفت” یعنی بادشاہ قبر کی طرف چلا گیا! عضد الدولۃ کو یہ بات پسند نہ آئی تو گور کا نام تبدیل کر کے فیروز آباد رکھ دیا۔
ابن الفقیہ کا کہنا ہے ساسانی بادشاہ بابک کا بیٹا “اردشیر” نے گور (فیروز آباد) کی بنیاد ڈالی۔ اس سے پہلے کہ یہاں شہرآباد ہوجائے یہ مقام صحرا وبیابان کا حصہ تھا۔ اردشیر کا گذر ہوا تو ایک شہر کی تعمیر کا حکم صادر کردیا۔ اردشیر بن بابک نے اس کا نام “خور” رکھ دیا جسے عربوں نے جور مشہور کردیا۔ ساسانی بادشاہ نے یہاں ایک آتشکدہ بھی تعمیر کروایا۔
یہ شہر کب اور کیسے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوئی، اس حوالے سے احمد بن یحیی بن جابر نے لکھا ہے: کئی لوگوں نے مجھے کہا ہے کہ گور کی فتح کیلیے کئی جنگیں لڑی گئیں مگر کوئی اسے فتح نہیں کرسکا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی نے عبداللہ بن عامر کے ہاتھوں اس شہر کی فتح ممکن فرمایا۔
فتح کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت مسلمانوں کا ایک دستہ نماز میں مصروف تھا کہ ایک کتے نے موقع مناسب سمجھ کر ان کی زادِراہ چرالیا۔ مسلمانوں نے اس کا تعاقب کیا تو وہ ایک خفیہ راستے سے فیروزآباد شہر میں داخل ہوا۔ مسلمانوں کا لشکر جو ایسے ہی راستے کی تلاش میں تھا شہر پر حملہ آور ہوا اور یوں یہ شہر بلاد اسلامی کا حصہ بن گیا۔
اس شہر سے تعلق رکھنے والے اہل علم وفن میں سے ابوبکر محمد بن ابراہیم بن موسی الجوری (ادیب)، نامور قاری ومقری احمد بن الفرض الجشمی الجوری، محمد بن یزداد جوری، محمد بن خطاب اور محمد بن الحسن بن احمد الجوری کا نام قابل ذکر ہے۔

آپ کی پیدائش
عربی لغت وادب کے امام مجدالدین محمد بن یعقوب شیرازی فیروز آبادی کی پیدائش 729ھ (1329ء) کو “کارزین” میں ہوئی جو شیراز کا ایک خوبصورت علاقہ ہے۔
ابوطاہر فیروز آبادی بلا کے ذہین تھے چنانچہ سات سال کی عمر میں پورے قرآن پاک کا حفظ مکمل کیا۔ آپ سے منقول ہے کہ بچپن میں اس وقت تک نہیں سوتے جب تک دوسو سطریں از بر نہ کرتے۔
زندگی کی آٹھ بہاریں جائے پیدائش پر گزارنے کے بعد شیراز منتقل ہوئے۔ ادب وعربی لغت کا ہنر اپنے والد سے حاصل کیا۔ پھر اس فن کے ماہرین قوام عبداللہ بن محمود بن نجم اور شیراز کے دیگر ماہر علماء سے استفادہ کیا۔ شیرازی علماء سے کسب فیض کے بعد عراق کا رخ کرتے ہوئے بغداد جا پہنچے۔ آپ نے قاضی بغداد عبداللہ بن بکتاش جو مدرسہ نظامیہ کے مدرس بھی تھے سے بہت استفادہ کیا۔ قاضی بغداد آپ کی ذہانت وفطانت سے از حد متاثر ہوئے۔

آپ کے اساتذہ
امام فیروز آبادی کے بعض اساتذہ کا تذکرہ اوپر ہوگیا۔ ان کے علاوہ آپ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) کے جانثار شاگرد رشید حافظ ابن القیم، شیخ تقی الدین ابوالحسن السبکی، محمد بن یوسف الزرندی اور ابن نباتہ رحمہم اللہ سے استفادہ کرکے شرف تلمذ حاصل کیا۔

آپ کے تلامذہ
صاحب “القاموس المحیط” کے چشمہ علم ومعرفت سے سیراب ہونے والوں میں اسلامی سرزمین کے طول وعرض سے آنے والے تشنگانِ دین کی بڑی تعداد شامل ہے ان میں جمال مراکشی، ابن عقیل، صفدی اور حافظ بن حجر کا نام قابل ذکر ہے۔ حافظ بن حجر نے براہ راست “قاموس” کی کتاب آپ سے پڑھ کر ان کی تمام کتابوں کی روایت کی اجازت حاصل کی۔

امام فیروز آبادی کے اسفار
ابو طاہر فیروز آبادی نے اپنے آبائی علاقہ کو چھوڑ کر پہلے عراق کی سرزمین پر قدم رکھا۔ “واسط” کے علماء سے استفادہ کے بعد بغداد تشریف لے گئے۔ اس کے بعد اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے دمشق، بعلبک، حماۃ، حلب، بیت المقدس اور قاہرہ کی درس گاہوں سے خوشہ چینی فرمائی۔
سرزمین شام ہی میں ابن ہشام اور ابن عقیل سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ عثمانی حکام کے زیر نگین روم بھی تشریف لے گئے جہاں عثمانی خلیفہ “ابن عثمان” نے آپ کا خوب اکرام کیا۔ سرزمین ہند پر آپ نے قدم رکھ کر اس خطے کو بھی منور فرمایا۔ یمن کے علاقے “زبید” میں جب داخل ہوئے تو شہر کے حاکم اسماعیل نے آپ کے اکرام میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حتی کہ انہوں نے امام فیروز آبادی کو قاضی مقرر کیا۔
جس شہر میں آپ قدم رکھتے تو اس زمانے کے علم دوست اور قدرشناس بادشاہ اور گورنرز آپ کی عزت واکرام کی کوشش کرتے۔ جیسا کہ تبریز کے گورنر شاہ منصور بن شجاع، مصر کے حاکم “اشرف” ، ترکی کے بادشاہ سلطان بایزید خان بن عثمان اور گورنر بغداد ابن اویس جنہوں نے آپ کی عزت وتکریم کا حق ادا کیا۔ اس کے علاوہ تیمور لنگ نے تو پانچ ہزار دینار کا تحفہ آپ کو پیش کیا۔ مگر امام فیروز آبادی بہت کم پیسہ اپنے پاس رکھتے۔ مال کثرت سے خرچ کرتے اور صدقے میں دیتے البتہ کتابوں کی بڑی تعداد ہمیشہ اپنے پاس رکھتے۔

آپ کی شہرت کے بعض اسباب
امام فیروز آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف علوم میں مہارت حاصل کرنے کے لیے معاصر نامور علماء کے سامنے زانوئے تلمذ رکھا۔ فقہ میں مہارت آپ کو محمد بن یوسف زرندی مدنی کے ذریعے حاصل ہوئی جب کہ عربی لغت میں آپ انتہائی مشہور ومعروف ہوئے۔ اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے آپ نے اساتذہ سے کسب فیض کے علاوہ بذات خود بہت محنت وعرق ریزی سے کام لیا چنانچہ نوجوانی ہی میں آپ کو اللہ تعالی نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ فن لغت میں مہارت وبراعت کے حوالے سے آپ اپنے معاصر لغت دانوں سے سبقت حاصل کرچکے تھے۔ اس کے علاوہ علم حدیث اور اس کے متعلقہ علوم کو آپ نے وقت کے نامور محدثین سے حاصل کیا جن میں امام حافظ الحدیث اور حجۃ “ابن القیم”، شام کے نامور محدث تقی الدین ابوالحسن سبکی (کبیر)، ان کے بیٹے ابوالنصر تاج الدین سبکی (صغیر) اور ابن نباتہ کا تذکرہ پہلے ہی گزر چکاہے۔
آپ کی مشہور تصنیفات کی تعداد پچاس کے قریب ہے جو عربی لغت، تفسیر اور حدیث کے بارے میں لکھی جاچکی ہیں۔ کتابوں سے آپ کو شغف کی حد تک محبت تھی۔ ان کا سب سے پسندیدہ مشغلہ کسب علم اور کتابیں خریدناتھا۔ سخت تکلیف کے با وجود آپ ہمیشہ اپنے ساتھ کتابیں رکھتے، گویا علمی کتابوں کے بغیر انہیں چین نہیں آتا۔ اسی وجہ سے آپ کی پوری زندگی علم کے حصول اور اشاعہ علم میں گزری اور اللہ تعالی نے آپ کو عالمگیر شہرت نصیب فرمائی۔
آپ کی ذہانت وفطانت کی بلندی کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو سینکڑوں عربی وفارسی کے اشعار وحکایات از برتھے۔ اسی وجہ سے مختلف بلاد کے امراء وخلفاء کے یہاں آپ کو پذیرائی ملتی۔

امام فیروز آبادی کی تصنیفات
امام محمد بن یعقوب شیرازی فیروز آبادی کی تصنیفات کا موضوع عربی لغت، تفسیر، حدیث، فقہ اور تاریخ سمیت متعدد علوم وفنون ہیں۔

آپ کی مشہور تصانیف درج ذیل ہیں:
القاموس المحیط؛ یہ کتاب آپ کی سب سے زیادہ معروف ومقبول کتاب ہے۔
تحبیر الموشّین فی التعبیر بالسین والشین؛ یہ کتاب چھپی ہوئی ہے۔
شرح قصیدہ بانت سعاد؛ دوجلدوں میں۔
الروض المسلوف فیمالہ اسمان الی الوف۔
الدّْرر المبثّثۃ فی الغرر المثلثۃ؛ یہ کتاب مطبوعہ شکل میں دستیاب ہے۔
المثلث الکبیر؛ جو پانچ جلدوں میں ہے۔
انواع الغیث فی اسماء اللیث۔
الجلیس الانیس فی اسماء الخندریس۔
مقصود ذوی الالباب فی علم الاعراب۔
اسماء السراح فی اسماء النکاح۔
بصائر ذوی التمییز فی لطائف الکتاب العزیز؛ یہ کتاب مطبوعہ ہے۔
تفسیر فاتحۃ الکتاب۔
حاصل کورۃ الخلاص فی فضائل سورۃ الاخلاص۔
تنویر المقباس فی تفسیر ابن عباس؛ مطبوعہ شکل میں دستیاب ہے۔
روضۃ الناظر فی ترجمۃ الشیخ عبدالقادر۔
المرقاۃ الوفیۃ فی طبقات الحنفیۃ۔
المرقاۃ الارفعیۃ فی طبقات الشافعیۃ۔
البلغۃ فی تراجم ائمۃ النحاۃ واللغۃ؛ جو چھپی ہوئی ہے۔
نزھۃ الاذہان فی تاریخ اصبہان۔
شوارق الاسرار العلیۃ فی شرح مشارق الانوار النبویۃ۔
منح الباری بالسبیل الفسیح الجاری فی شرح صحیح البخاری۔
تسہیل طریق الوصول الی الاحادیث الزائدۃ علی جامع الاصول۔
الاحادیث الضعیفۃ۔
الدر الغالی فی الاحادیث العوالی۔
الصلات البشر فی الصلاۃ علی خیر البشر؛ یہ کتاب زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہے۔
سفر السعادۃ؛ مطبوعہ ہے۔
عدۃ الحکام فی شرح عمدۃ الاحکام۔
الاسعاد بالاصعاد الی درجۃ الاجتہاد۔

تدریسی زندگی
امام فیروز آبادی نے متعدد مدارس اور دانش گاہوں میں بطور مدرس خدمات سرانجام دیں جن میں بیت المقدس کا مدرسۃ القدس بطور خاص قابل ذکر ہے جہاں صلاح صفدی سمیت متعدد فلسطینی علمائے کرام نے آپ سے استفادہ کیا۔
سخاوی سے منقول ہے کہ آپ مکہ مکرمہ کے کوہ صفا پر ایک مکان میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے۔
یمن کے امیر اشرف کے تعاون سے آپ نے یہی کام مدینہ منورہ میں بھی کیا۔

فن لغت کے حوالے سے آپ کی جد وجہد
عربی لغت کے بارے میں آپ کی تصنیفات میں “اللامع المعلم العجاب الجامع بین المحکم والعباب” جو ایک سو جلدوں میں تھی ، ہر جلد کی ضخامت (صحاح الجوہری) کے برابر ہے۔ اس ضخیم کتاب کا نچوڑ آپ نے پانچ جلدوں میں تیار کیا۔ پھر اس کا لْبّ لباب اور خلاصہ دو جلدوں میں تدوین کرکے اس کا نام “القاموس المحیط” رکھ دیا۔

فیروز آبادی کی بارے میں دیگر علماء کے خیالات
حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں لکھا ہے کہ آپ (امام فیروزآبادی) عربی لغت کے حافظ اور اس کی باریکیوں سے آگاہ تھے۔
تقی کرمانی نے کہا ہے آپ عربی وفارسی کے نشر ونظم میں بے مثال ادیب تھے۔ متعدد ممالک کا سفر کرکے آپ نے بے شمار علماء وفقہاء کی صحبت حاصل کی۔
خزرجی تاریخ الیمن میں رقم طراز ہیں: مقام وجاہ کی بلندی، امراء وحکام کے یہاں بے پناہ مقبولیت آپ کی عظمت کی علامت ہے۔
المقرّی نے لکھا ہے کہ آپ اپنے معاصر علماء پر برتری حاصل کرچکے تھے اور آٹھویں صدی کی ان نادر شخصیات میں سے تھے جنہیں ہر فن میں مہارت حاصل تھی۔ آپ عربی لغت کے بلامنازع امام تھے۔
زرکلی نے “الاعلام” میں لکھاہے آپ اپنے زمانے میں لغت، حدیث اور تفسیر کے مرجع تھے۔
امام فیروز آبادی کے شاگرد رشید صلاح الصفدی نے آپ کا یہ شعر نقل کیا ہے ۔
آپ نے شیخ ناصرالدین بن جھبل سے تین دنوں کے اندر دمشق میں صحیح مسلم پڑھ کر یہ شعر سنایا۔
الفاسی نے کہا ہے آپ کے اشعار بہت ہیں، نثر زیادہ پسند کیا جاتاہے۔ آپ کی لکھائی بہت اچھی ہے اور آپ تیز تیز بھی لکھتے ہیں۔
سنہ 797 ھ۔ق یمن کے حاکم اسماعیل بن عباس نے آپ کو قاضی مقرر کیا۔ اس کے بعد اسی بادشاہ کی بیٹی سے آپ کی شادی ہوئی۔ یمنی حاکم نے از حد آپ کا اکرام واعزاز کیا۔ یہاں تک کہ آپ کو یمن سے چلے جانے کی اجازت بھی نہ دی کہ یمن کی سرزمین آپ کے علم و فیض سے محروم رہ جائے گی۔ اسماعیل بن عباس نے آپ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: سرزمین یمن اندھی تھی جسے آپ نے بینائی دی۔ آپ کے ذریعہ اللہ تعالی نے علم کا چراغ یہاں روشن فرمایا۔ آپ کو اللہ کی ذات پر قسم اگر اپنی باقی عمر ہمیں نہ دیں!

آپ کا سفر آخرت
امام فیروز آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے اٹھاسی (88) سال عمر پائی اور 817ھ ( 1415ء) کو یمن کے شہر زبید میں اس فانی دنیا سے اس حال میں کوچ کر گئے جب ان کے حواس ٹھیک تھے۔
تغمدہ اللہ تعالی برحمتہ واسکنہ فسیح جناتہ

ابو محمد بلوچ

SunniOnline.us/urdu


آپ کی رائے

تعليق واحد لـ : “عربی لغت کے امام “فیروز آبادی” کی حیات پر ایک نظر

  1. Muzammil Pathan says:

    مجھے اس مصنف علیه الرحمہ کی کتب درکار ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں